خود انصافی کی خطرناک روش

اگر حکومت نے انصاف کی فراہمی کیلئے اقدامات نہ کیے تو پھر وہ دن دور نہیں جب خود انصافی ہی پاکستان کا قانون قرار پائیگی۔


اویس حفیظ February 19, 2015
ہمارے معاشرے میں خرابیوں کی جڑ اس سے بڑھ کرکیا ہوگی کہ لوگ ریاستی اداروں پر اعتبار کرنے کے بجائے قانون اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

آتش فشاں پہاڑ دہشت کی ایک بڑی علامت متصور ہوتے ہیں مگر ان کی ایک سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہیں بن بلائے مہمان بننے کی عادت نہیں ہوتی الّا یہ کہ اذنِ خداوند آن پہنچا ہو۔عمومی طور پر آتش فشاں پہاڑ پھٹنے سے قبل زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جاتے ہیں پھر پہاڑ سے دھواں اٹھنے لگتا ہے جسے دیکھ کر لاوے سے بچاو کے انتظامات شروع کر دئیے جاتے ہیں۔ یہ صورتحال ایمرجنسی صورتحال کہلاتی ہے۔

قوموں کو بھی ایسی ہی ایمرجنسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات زلزلے کے جھٹکے اور بعض دفعہ پہاڑوں سے اٹھتا دھواں دیکھ کر معاشرے کے مستقبل کے حوالے سے پیش گوئی کردی جاتی ہے۔ دوراندیش اور صاحب نظر اسی دھویں کو دیکھ کر اپنے بچاو کے انتظامات شروع کردیتے ہیں مگر خواب غفلت سے سوئے پڑے لوگ اس وقت تک بیدار نہیں ہوتے جب تک آتش فشاں پہاڑ سے لاوا نکل کر ان کی خوابگاہوں پر دستک نہ دیدے۔ اس وقت تک ان لوگوں کو حقیقت کا ادراک نہیں ہوتا۔

چند روز قبل ایک ایسی ہی خبر نے مجھے چونکا دیا۔ خبر ایسی تھی کہ کسی بھی قومی اخبار نے اسے ایک سے دو کالم سے زیادہ جگہ نہیں دی۔ حتیٰ کہ مقامی اخبارات میں بھی یہ خبر تین کالم سے آگے نہیں بڑھ سکی لیکن نجانے کیوں خبر پڑھتے ہوئے مجھے واضح طور پر آتش فشاں دھواں اٹھتادکھا ئی دے رہا تھا۔

خبر کے مطابق 2 فروری کو فیصل آباد میں چار ڈاکوئوں نے ایک دکان لوٹنے کی کوشش کی، دکاندار کے چور مچانے پر لوگ اکٹھے ہوگئے، جس پر ڈاکوئوں نے گھبرا کر فائرنگ شروع کردی، فائرنگ کے نتیجے میں 5 شہری زخمی ہوگئے۔ اس کے بعد جبکہ باقیوں کو اہل علاقہ نے یرغمال بنالیا جنہیں مذاکرات کے بعد پولیس کے حوالے کیا گیا لیکن ان میں سے بھی ایک ڈاکو ہسپتال جاتے ہوئے دم توڑ گیا''۔

ابھی اس واقعے کے نقش ذہن میں دھندلائے بھی نہیں تھے کہ ایک اور خبر نظر سے گزری کہ کراچی میں پولیس نے سول کپڑوں میں ایک جگہ چھاپہ مارا تو لوگوں نے انہیں بھی ڈاکو سمجھ کر تشدد کا نشانہ بنایا بعد ازاں شناخت کروانے پر ان کی خلاصی ہوئی۔

اسی طرح 5 اکتوبر 2014ء کراچی کے علاقے کورنگی میں 4 ڈاکو ڈکیتی کے دوران عوام کے قابو میں آگئے جنہیں اس قدر مارا پیٹا گیا کہ وہ دونوں ہسپتال جانے سے قبل ہی دم توڑ گئے، پھر31 اکتوبرکو بھی کراچی ہی میں دو ڈاکو شہریوں کے ہاتھ لگ گئے جنہیں خوب تواضع کے بعد پولیس کے حوالے کیا گیا۔ 26 دسمبر کو کراچی میں برنس روڈ پرایک ڈاکو نے مزاحمت پر ایک شخص کو ہلاک اور ایک بچی کو زخمی کیا اور بھاگنے کی کوشش میں یہ بھی شہریوں کے ہتھے چڑھ گیا تاہم بعد میں اسے رینجرز کے حوالے کردیا گیا۔ 17جنوری کو ڈسکہ میں بھی ایک ڈاکو شہریوں کے ہاتھوں ہلاک ہوا تھا، پھر 31 جنوری کو کراچی کورنگی زمان ٹائون میں بھی 2 ڈاکووں کو شہریوں نے اس قدر مارا پیٹا کہ دونوں ہسپتال لیجاتے ہوئے راستے میں ہی دم توڑ گئے۔

اس طرح کے واقعات کا ایک تسلسل نظر آرہا ہے۔ ہر چند دن بعد اس قسم کا کوئی نہ کوئی واقعہ سامنے آجاتا ہے۔ اگریہ حالات اسی رفتار سے آگے بڑھتے رہے تو جلد ہم وہ وقت بھی دیکھیں گے جب ہر جرم کی سزا موت قرار پائے گی اور مجرموں کو قتل کرنے والے باعزت اور معزز شہری کی طرح آزاد گھوماکریں گے۔ ان واقعات کو''خود انصافی'' کا نام دیا جائے یا پھر ''عوامی انصاف'' کا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ریاستی اداروں سے مایوس اور انصاف سے محروم افراد میں مائورائے قانون''انصاف'' کا نظریہ تقویت پکڑ رہا ہے۔

لوگ مجرموں کو خود سزا دینا چاہتے ہیں۔ پہلے تو چوروں کو پکڑ کر منہ کالا کرکے گدھے پر سیر کروا کر پولیس کے حوالے کردیا جاتا تھا مگر اب تو ڈاکووں کو قتل کرنے کے بعد بھی لوگوں کا غم و غصہ کسی طور کم ہونے میں نہیں آتا اوریہی وجہ ہے کہ شہریوں کے ہاتھوں مجرموں کے قتل کے واقعات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں خرابیوں کی جڑ اس سے بڑھ کرکیا ہوگی کہ لوگ ریاستی اداروں پر اعتبار کرنے کے بجائے قانون اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔

ایک طرف یہ رحجان پولیس کی ناکامی کو عیاں کررہا ہے اور دوسری طرف نظام عدل پرعدم اعتماد کی غمازی کررہا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ جب ادارے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہوجائیں تو ریاست کی بنیادیں کمزور ہونے لگتی ہیں اور اس طرح کے واقعات معمول بن جاتے ہیں۔ پھر یہی دھواں انارکی کی آبیاری کرنے لگتا ہے اور پھر ایک دن آتش فشاں پہاڑ سے لاوا اُبل جاتا ہے مگر یہ ابھی دور کی بات ہے، ابھی اربابِ اقتدار کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہئے اور عدل اور فوری و تیز انصاف کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرنا چاہئے تاکہ عوام کا اداروں پر اعتماد بحال ہوسکے۔ اب بھی اگر حکومت نے انصاف کی فراہمی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ کیے تو پھر وہ دن زیادہ دور نہیں جب خود انصافی ہی پاکستان کا قانون قرار پائے گی اور ہر فرد مجرموں کو خود سزا دینا چاہے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں