اس کی بے آواز لاٹھی
سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ایم کیو ایم کی کیا مجبوریاں ہیں کہ وہ ہر بار انکار کرکے اقرار کرلیتی ہے
ایوان بالا (سینیٹ) کے انتخابات جوں جوں قریب آتے جا رہے ہیں، سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں اور جوڑ توڑ میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت سندھ سے ہمیشہ کے لیے ناتا توڑنے والی ایم کیو ایم کو بار بار پی پی پی کی طرف سے شامل حکومت ہونے کی دعوت دی جا رہی ہے اور بطور رابطہ کار رحمن ملک صاحب لندن کے چکر بھی لگا چکے ہیں۔(نتائج کیا ہوں گے) تازہ ترین خبر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کی قیادت سے ایوان بالا کے انتخابات میں چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین کے لیے حمایت کرنے کی استدعا کی ہے۔
یہ خبر پڑھ کر یاد آیا کہ ایک بار پھر ایم کیو ایم کی حکومت سندھ میں شمولیت کی باتیں گردش کر رہی ہیں اس سلسلے میں سابق وزیر داخلہ بے حد سرگرم ہیں۔ ایم کیو ایم کو راضی کرنے کے لیے کئی فارمولے زیرغور رہے ہیں۔ تازہ صورتحال میں یہ فارمولا بھی تقریباً طے پاچکا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت سندھ کابینہ میں وعدے کے مطابق 60 اور 40 کے تناسب سے حصہ دے اور ایم کیو ایم کو کم ازکم بلدیات یا پلاننگ ڈیولپمنٹ کے محکمے دے تاکہ ایم کیو ایم کے وزرا عوام کی خدمت کرسکیں سندھ حکومت میں بے مقصد محکمے انھیں قبول نہیں۔
مزید اطلاع ہے کہ پیپلز پارٹی میں اس صورتحال پر مشاورت جاری ہے۔ اگرچہ ایم کیو ایم نے بے مقصد وزارتوں کو قبول نہ کرنے کا اچھا فیصلہ کیا ہے۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ بااختیار وزارتوں کے نتائج بھی دھاک کے تین پات کے علاوہ کچھ نہیں ہوں گے بلکہ چور مچائے شور کے مصداق ذمے داری دے کر ان وزرا کے کام میں مداخل جاری رہے گی اور اس کے بعد تمام تر خرابیوں کا الزام بھی ان ہی پر عائد کیا جائے گا اور اپنی (حکمرانوں کی) تمام کوتاہیوں میں انھیں شریک جرم بھی قرار دیا جائے گا(جو ماضی میں کئی بار ہوچکا ہے)۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ایم کیو ایم کی کیا مجبوریاں ہیں کہ وہ ہر بار انکار کرکے اقرار کرلیتی ہے یعنی حکومت سندھ میں شمولیت اختیار کرلیتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کو ملک کی کسی سیاسی جماعت یا حکومتی اداروں کی حمایت حاصل نہیں ہوسکتی (کیونکہ اس کو عوامی کے بجائے لسانی جماعت قرار دے دیا گیا ہے) اگرچہ ملکی آبادی کی اکثریت ان کے موقف سے متفق ہے مگر عوام کی اکثریت تو خود حکومتی اداروں کی یرغمال ہے وہ بھلا ان کے لیے کیا کرسکتی ہے؟ کسی کو سیاسی منظر سے ہٹانا، یا کسی کو صلاحیت نہ ہونے کے باوجود ''کرسی اقتدار'' تک پہنچانا تو ان ہی اداروں کا کام ہے، لہٰذا نااہل حکمرانوں کی طویل فہرست ہے جنھوں نے ملک کا یہ حلیہ بنا دیا مگر ''میں نہ مانوں کی رٹ لگائے رکھی'' ملک کی بقول شخصے تیسری بڑی سیاسی جماعت کی کارکردگی اور اہلیت سے بھی اہل وطن واقف ہوچکے ہیں۔
مگر ان کے حمایتی بھی بہت اور برسراقتدار آنے کے مواقعے بھی کافی، کیونکہ انھوں نے ایک بات عقلمندی کی، کی ہے کہ کبھی جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں کو نہیں للکارا بلکہ انھیں ساتھ رکھا اور طالبان سے بھی اظہار یکجہتی اور ہمدردی ہی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ فیصل آباد میں ایک کارکن پولیس یا سیاستدانوں کی بے وقوفی سے مر گیا تو کیا واویلا ہوا ۔ ویسے تو ہر پارٹی اپنے فیصلے پر عملدرآمد کی خود ذمے دار اور بااختیار ہے۔ یقینا وہ بہت کچھ مدنظر رکھ کر فیصلے کرتی ہیں مگر اتنا ڈھنڈورا پیٹ کر کہ بس یہ آخری بار ہے ہم کبھی موجودہ دور حکومت میں اقتدار میں شامل نہ ہوں گے اور پھر ہونا خود اپنے مقام و مرتبے کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ یا پھر یہ اعتراف کرنا کہ واقعی کراچی میں بدامنی کے ہم ہی ذمے دار ہیں۔
حالانکہ صرف ان کو دیوار سے لگانے سندھ میں ان کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو سبوتاژ کرنے خاص کر کراچی سے ان کو دستبردار کرنے کے لیے ہی یہ ڈرامے منصوبے اور آپریشن کیے جاتے ہیں۔ مگر بار بار کی اس ناں ناں اور ہاں ہاں سے ان کی اثر پذیری ضرور متاثر ہو رہی ہے، پرانے کارکن اور ہمدردوں میں بددلی پیدا ہو رہی ہے وہ لوگ جو گزشتہ آپریشنوں سے متاثر ہوچکے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ ان کے خلاف منفی پروپیگنڈا اور آپریشن بھی ان کی عوامی حمایت اور اثر کو زائل نہ کرسکے تھے۔ مگر اب ان کی وہ دھاک وہ شان باقی نہیں رہی۔
یہ بات صد فی صد درست ہے کہ وہ ملک بھر کے مظلوموں کے ساتھ ہیں، جاگیرداروں اور طالبان کو للکارنے کی جرأت رکھتے ہیں ملکی ترقی و خوشحالی کے لیے پرجوش اور باعمل ہیں اور یہ بھی کہ اب ان کی آواز ملک کے تمام علاقوں تک پہنچ رہی ہے۔ مگر ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ عوامی حمایت سے آج تک کوئی پارٹی برسر اقتدار نہیں آئی، اقتدار میں آنے کے لیے ملک کے خاص اداروں اور غیر ملکی آقاؤں کا منظور نظر ہونا بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ اس تناظر میں تمام پارٹیاں اپنا اپنا مقام دیکھ سکتی ہیں۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کو دو سال سے اوپر ہوچکے اتنے ہولناک سانحے پر وقتی واویلے کے علاوہ کسی بھی لیڈر، کسی بھی جماعت نے نہ مرنے والوں اور نہ ان کے لواحقین کے لیے کچھ کیا نہ جاکر ان کو پوچھا، ایک دو ہفتے شور مچا کر سب اپنے اپنے ڈربوں میں چلے گئے مگر جیسے ہی نئی صورتحال سامنے آئی اور ذمے دار ایم کیو ایم کو قرار دینے کی کوشش کی جانے لگی تو تمام رٹو طوطے رٹے رٹائے بیان دینے لگے کہ اس بھیانک جرم کے مجرموں کو کیفر کردار تک بلکہ تختہ دار تک ضرور پہنچائیں گے۔
لواحقین کو انصاف دلانا بھی سب کی ذمے داری قرار پائی۔ ایک پارٹی کے لیڈر نے تو دھواں دھار پریس کانفرنس بھی کر ڈالی، دوسری پارٹیوں نے بھی موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شور مچانا شروع کردیا، حکومتی ارکان کو بھی اپنا فرض یاد آگیا۔ اس سانحے کے متاثرین کی بے کسی اور نا گفتہ بہ حالت بھی سب کو نظر آنے لگی یہ ہے ہمارا سیاسی دیوالیہ پن کہ خدمت تو کسی کی کریں نہ البتہ حادثات اور لاشوں پر اپنی سیاسی دکان ضرور آراستہ کرلیں۔ آج حکومت سندھ ہی نہیں بلکہ وفاقی حکومت کو بھی سب بھولا بسرا یاد آگیا۔ حالانکہ سندھ حکومت تو سارے معاملے کو تھپک تھپک کر سلا چکی تھی۔ مگر جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ منصوبہ ساز لاکھ عقلمند ہوں بہرحال انسان ہیں کہیں نہ کہیں منصوبے میں جھول رہ ہی جاتا ہے جس کی نشاندہی اس مقدمے کی پبلک پراسیکیوٹر محترمہ شازیہ ہنجرہ نے اپنے استعفے کی وجوہات میں واضح کردی ہیں کہ انھیں تمام تحقیقات سے بے خبر رکھا گیا تفتیشی افسر کی جانب سے تعاون نہیں کیا گیا۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ پہلے گواہوں کی تعداد 870 تھی جب کہ اب جو گواہوں کی فہرست پیش کی گئی ہے اس میں تعداد 950 تک پہنچ گئی ہے، محترمہ کا کہنا ہے کہ تعداد میں اچانک اضافہ کیسے اور کب ہوا؟ عدالت کو یہ بتانا میری ذمے داری ہے اور مجھے ہی علم نہیں کہ یہ کیسے ہوا؟ بہرحال اپنی اپنی کوشش اپنی جگہ مگر جب دل نہ جڑ سکیں تو اور بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ آگے اللہ تعالیٰ کا منصوبہ کیونکہ انسانی ارادے تو ملیامیٹ ہوجاتے ہیں، منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، بالآخر اسی کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے اس کی بے آواز لاٹھی اسی دنیا میں ظالموں کا سر توڑ دیتی ہے، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو ہی جاتا ہے۔ مجرم اپنا نشاں چھوڑ ہی جاتا ہے اور اصل مجرم ان ہی نشانات کے باعث گرفت میں آجاتے ہیں چاہے انصاف کو گھر کی باندی ہی کیوں نہ بنا لیا جائے۔