دہشت گردی…اب اگر مگر نہیں
فوجی عدالتوں کے خلاف ملک کی تمام بار کونسلز متحد ہیں
ISLAMABAD:
لمبی غیر حاضری کے بعد پھر حاضر ہوں' دوست گلہ کرتے ہیں کہ کالم لکھنے میں تاخیر کر دیتے ہو، دوستوں اور قارئین کا شکریہ! ورنہ اس عالم مکروفریب میں کون کسی کو یاد رکھتا ہے۔ بہر حال کوشش کروں گا کہ اب زیادہ تاخیر نہ ہوا کرے' لکھنے کے لیے موضوع بہت ہیں لیکن غور کریں تو ساری سیاست ایک ہی نکتے کے گرد گھوم رہی ہے' وہ ہے دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ۔
سانحہ پشاور کے بعد پاکستان کی سیاست نے نیا رخ اختیار کرلیا ہے' اب یا تو آپ دہشت گردوں کے خلاف ہیں یا ان کے حامی ہیں' تیسرا راستہ نہیں ہے۔ اس سانحے کے باعث عمران خان کا اسلام آباد میں دھرنا اختتام پذیر ہوا' پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر اور سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود تو کہتے ہیں کہ یہ دھرنا خان صاحب نے نہیں کسی اور نے ''پیک اپ'' کرایا ہے' واللہ عالم' بہرحال اس سانحے کا دباؤ اس قدر زیادہ تھا کہ طالبان سے مذاکرات کے حامی ان کے خلاف آپریشن کرنے اور دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام پر راضی ہو گئے۔
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ نے 21 ویں آئینی ترمیم منظور کی جس کے تحت فوجی عدالتیں قائم ہوئیں۔پاکستان میں جمہوریت ایسا کرتی رہتی ہے' سابق پارلیمنٹ نے پہلے سوات میں مولوی فضل اللہ اور صوفی محمد کے آگے گھٹنے ٹیک کر ''شریعت'' نافذ کرنے کی منظوری دی' جب حالات کنٹرول سے باہر ہوئے تو اسی پارلیمنٹ نے سوات آپریشن کی منظوری دے دی اور ایسا کرنے پر کسی کو ندامت اور شرمندگی محسوس نہیں ہوئی' ہماری سیاسی قیادت کا یہ پرانا ڈنگ ٹپاؤ فارمولا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سانحہ پشاور کا دباؤ کم ہو رہا ہے' طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حامی قوتیں اس دباؤ سے نکل کر سانس بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔جوں جوں وقت گزرے گا' وہ اور کچھ نہیں تو فوجی عدالتوں کے ایشو پر سیاست کریں گی۔ جمہوریت پسند کہلانے والی سیاسی جماعتوں کی یہ دکھتی رگ ہے۔
یہ ایسا ایشو ہے جس کا فائدہ انتہا پسندوں کو ہو گا جب کہ لڑائی جمہوریت پسندوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہو گی۔ پہلے فوجی عدالتوں کی مخالفت اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کے عنوان سے کی جاتی تھی' مسلم لیگ ن' پیپلز پارٹی' تحریک انصاف یہ کہتی ہیں کہ فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ مجبوری کے تحت کیا کیونکہ اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا' مولانا فضل الرحمن برابر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے آ رہے ہیں ۔جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔سیاستدانوںکی یہ کھسر پھسر جاری تھی کہ فوجی عدالتوں کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ کر دی گئی' یہ رٹ تحریک انصاف کے رہنما اور معروف قانون دان حامد خان نے دائر کی۔
حامد خان افتخار چوہدری کیس میں عمران خان کے وکیل تھے لیکن خان صاحب نے انھیں تبدیل کر کے ڈاکٹر بابر اعوان کو وکیل کر لیا ہے۔ خان صاحب کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کے خلاف رٹ حامد خان کا اپنا فیصلہ ہے' اس کا تحریک انصاف سے تعلق نہیں ہے۔ اب یہ کیس عدالت عظمیٰ میں ہے، اس کا فیصلہ کیا ہوتا ہے، اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ بہت سے سوالات ضرور جنم لے رہے ہیںاور پس پردہ اشارے بھی معنی خیز ہیں۔
فوجی عدالتوں کے خلاف ملک کی تمام بار کونسلز متحد ہیں' وکلاء کے تمام دھڑے اس ایشو پر اکٹھے ہو رہے ہیں۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف یوم سیاہ بھی منایا جا چکا ہے۔یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا ہے' یقیناً اس کے پس پردہ کچھ قوتیں سرگرم ہیں جو خود سامنے نہیں آنا چاہتیں اور اپنا مقصد وکلاء اور سول سوسائٹی کے کندھوں پرسوار ہو کر حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف سے وابستہ وکلاء اس تحریک میں نمایاں ہیں۔
البتہ پیپلز پارٹی کے وکلاء کسی حد تک فاصلے پر نظر آ رہے ہیں لیکن وہ بھی آخر کار ان وکلاء کا ساتھ دیں گے جو فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف متحرک ہیں۔ اس معاملے میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا فیکٹر بھی نمایاں ہے۔آنے والے دنوں میں یہ صورت حال ایک نیا رخ اختیار کرنے جا رہی ہے۔وہ قوتیں جو یہ سمجھ رہی ہیں کہ موجودہ حالات میں فوجی عدالتوں کے قیام کے بغیر دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جا سکتا' وہ شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔وہ اس صورت حال کا بڑی گہرائی سے جائزہ لے رہی ہیں۔ وہ سوچ رہی ہیں کہ اچانک یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے اور اس کے پس پردہ کونسی قوتیں ہیں جو فوجی عدالتوں کا قیام نہیں چاہتیں۔ یہ صورت حال جمہوری حکومت کے لیے شاید اچھی نہ ہو' معاملات بگڑنے سے جمہوری سیٹ اپ کو نقصان کا اندیشہ ہے۔
ایک اچھا تاثرگزشتہ دنوں لاہور میں انسداد دہشت گردی فورس کی تقریب میں دیا گیا۔ یہاں جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم اکٹھے ہوئے اور کوئٹہ میں بھی دونوں اکٹھے تھے۔ ٹی وی اسکرینوں پر انھیں خوشگوار انداز میں ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا۔فوجی عدالتوں کی منظوری دے کر بھی اچھا تاثر دیا گیا۔ اس تاثر کے باوجود پس پردہ اشارے اور سرگرمیاں ایسی ہیں جس سے لگتا ہے کہ سب اچھا نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کے درمیان برتری حاصل کرنے کی کشمکش جاری ہے۔
عمران خان دوبارہ متحرک ہونے کے لیے پرتول رہے ہیں' سابق گورنر چوہدری سرور بھی کسی سرپرائز پیکیج کے ساتھ واپس آئے ہیں' لاہور کے کینٹ ایریا میں ان کے گھر میں رونق لگی ہوئی ہے اور تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے خواہش مند وہاں حاضری دے رہے ہیں۔ پرویز مشرف بھی سندھ میں سیاسی باتیں کر رہے ہیں۔ آصف زرداری کی پرویز مشرف کے خلاف بیان بازی کو بھی سندھ کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
حکومت کی بات کریں تو ایک رکن اسمبلی سے وزیراعظم تک سب مطمئن اور پر اعتماد دکھائی دیتے ہیں۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں' زمینی حقائق مگر مختلف ہیں۔ حکومت کے خلاف نئے راؤنڈ کی تیاری ہو رہی ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی اگلے روز ایکسپریس نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ مارچ میں کسی نئی تحریک کے آغاز کا امکان ہے۔ میری اطلاعات بھی کچھ ایسی ہی ہیں لیکن مارچ کے بجائے جولائی اس حوالے سے اہم ہو گا۔ تحریک انصاف پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
مسلم لیگ ن کی حکومت ایک بڑے بحران سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو چکی ہے لیکن دھرنوں سے اسے جو نقصان پہنچا ہے' اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اب اس نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں ظاہرکچھ اور پس پردہ کچھ کی حکمت عملی اختیار کرکے ضرورت سے زیادہ چالاک بننے کی کوشش کی تو شاید اسے سانس لینے کا موقع نہ مل سکے۔اب اگر مگر میں پناہ نہیں ملے گا۔