عدالتی نظام کو بچائیے
سندھ میں بھی بنچ اور بار کے درمیان خلیج واضح نظر آتی ہے۔
گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے بنچوں کے ساتھ وکلا کی بدتمیزی کے مقدمات کی سماعت کے دوران کہا کہ وکلا کے خلاف شکایات میں ایکشن نہ لینے پر عدالتی نظام بیٹھ جائے گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ 5 ہزار شکایات ملیں لیکن کسی ایک وکیل کے خلاف بھی ایکشن نہیں ہوا۔ ملک کا عدالتی نظام اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ اگر بار کونسلز نے کردار ادا نہ کیا تو عدالتی نظام ہی ناکام ہوجائے گا کم ازکم وہ ایسے نظام کا حصہ نہیں بنیں گے جس میں جج کی عزت نہ ہو۔
کیا جج کو دھمکیاں دینا عدلیہ کی آزادی کے منافی نہیں ہے؟ سندھ ہائی کورٹ میں سابقہ چیف جسٹس کے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس میں سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر ایس زبیری نے بھی اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ عدلیہ اور بار کے مابین فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ رخصت ہونے والے چیف جسٹس نے بھی اپنے خطاب میں کہا کہ عدلیہ کو بہتر بنانے میں وکلا اپنا کردار ادا کریں۔ نئے چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں کہا کہ عدلیہ پہلے سے زیادہ آزاد ہے مگر آزادی ہی سب کچھ نہیں اور عدلیہ کے معاملات کو مزید بہتر بنانے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا عدلیہ کا باصلاحیت اور فعال ہونا ضروری ہے عدلیہ کو مزید باصلاحیت وکلا کی ضرورت ہے سندھ بھر میں ججز کی سیکڑوں آسامیاں خالی پڑی ہیں انصاف کی فراہمی کے نظام میں اصلاحات لاکر ہی معاشرے کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
وکلا تنظیمیں ملک میں ہمیشہ انسانی حقوق کے دفاع آئین و قانون کی بالادستی ، فوجی اور سیاسی آمرانہ حکومتوں کے غیر قانونی اورغیرجمہوری اقدامات کے خلاف جدوجہد کرتی رہی ہیں اور ایسے معاملات پر عوامی توجہ اور رائے عامہ ہموارکرتی رہی ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا کردار تاریخی اور مثالی رہا ہے۔
آمرانہ حکومتوں کو وکلا تنظیموں کا یہ کردار کبھی نہیں بھایا خاص طور پر پرویز مشرف کی آمریت سے ٹکراؤ کے بعد سے عدلیہ اور وکلا تنظیموں کی ساکھ اور کردار کو ختم کرنے کے لیے جو ہتھکنڈے، خوف، لالچ، کردار کشی، پیسوں اور نوازشات کا استعمال، غلط فہمیاں پیدا کرنے اور تقسیم کرنے کی مہم تقرریوں، تبادلوں اور وکلا تنظیموں کے انتخابات تک میں حکومتی مشینری اور خطیر سرکاری رقوم کے بے دریغ استعمال کی قبیح رسم کی بنیاد ڈالی گئی اس کا تسلسل آج تک جاری ہے جن سے وکلا ہی نہیں ہر ذی شعور شہری بخوبی واقف ہے اور اس پر متفکر بھی ہے۔
ملک بھر خصوصاً پنجاب میں ججز، پولیس، سائلین اور خود وکلا کے درمیان بھی مار پیٹ اور زد وکوب کرنے کے واقعات، مجرموں کو ضمانت مسترد ہوجانے پر زبردستی پولیس کی تحویل سے بچانے کے لیے بار کونسلز اور وکلا کے دفاتر میں پناہ دینے کے واقعات جو چند غیر ذمے دار اور تادیبی کارروائی کے مستحق وکلا کی جانب سے پیش آتے ہیں جن کی میڈیا وکلا گردی کے نام سے تشہیر کرتا ہے پوری وکلا برادری کے لیے شرمساری کا باعث بنتے ہیں۔ اس قسم کی حرکتوں میں ملوث وکلا سے قانون کے مطابق نمٹنا چاہیے اور وکلا اور ان کی بار کونسلز کو ان کی پشت پناہی سے اجتناب برتنا چاہیے۔
سندھ میں بھی بنچ اور بار کے درمیان خلیج واضح نظر آتی ہے۔ دو سال قبل سندھ بار کونسل نے بعض ججز پرکرپشن کا الزام اور ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ توہین عدالت کا اطلاق صرف وکلا تک کیوں ہے؟ بارکی اپیل پر سندھ بھر میں عدالتوں کا بائیکاٹ کیا گیا تھا لیکن اس ہڑتال کے موقعے پر سندھ ہائیکورٹ میں وکلا کی بڑی تعداد نے ججز سے عدالتی کارروائی جاری رکھنے پر اصرار کیا تھا جس کے بعد ججز نے کمرہ عدالت میں مقدمات کی سماعت کی، وکلا بھی عدالتوں میں پیش ہوئے تھے۔ آج عدالتوں پر تمام اطراف سے دباؤ، بنچ اور بار میں خلیج اور وکلا میں تقسیم نمایاں طور پر نظر آرہی ہے۔
ملک خصوصاً کراچی میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے روز روز کی ہڑتالیں، وکلا کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اور دیگر چھوٹے بڑے واقعات و سانحات پر عدالتوں کی کارروائی کے بائیکاٹ سینئر وکلا و ججز کی وفات اور ججز کی ریٹائرمنٹ پر عدالتی امور کی معطلی اور سالانہ چھٹیوں کی وجہ سے عدالتی کام، سائلین اور خود وکلا بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ بلاشبہ بارکونسلز جن بدعنوانیوں، نااہلیوں اور کرپشن کی نشاندہی کر رہی ہیں وہ انصاف کی راہ میں حائل بلکہ ناسور کی حیثیت رکھتی ہیں۔
پرویز حکومت کے دور میں سینئر، اہل اور ایماندار ججز کوگھر بھیج دینے کے اقدام نے عدالتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ سفارش، سیاسی اثر و رسوخ اور میرٹ کو نظر انداز کر دینے کی بنا پر خاص طور پر ماتحت عدالتوں میں کرپٹ ججز بھی موجود ہیںجو دانستہ یا نادانستہ طور پر انصاف کی فراہمی کے بجائے انصاف میں تعطل اور وکلا کے لیے بھی درد سری کا موجب ہیں۔
عدلیہ اور وکلا تنظیموں کو ملک بھر میں پھیلے ٹریڈ مارک، سوسائٹی و پراپرٹی، رجسٹرار، کمشنر آفسوں اور شعبہ قانون سے متعلق دیگر اداروں کے معاملات پر بھی توجہ دینی چاہیے جن سے روزانہ ہزاروں شہریوں اور وکلا کا واسطہ پڑتا ہے اور وہ مصائب و پریشانیوں سے دوچار ہوتے ہیں جہاں نہ اینٹی کرپشن کا گزر ہوتا ہے نہ وکلا رہنماؤں کا نہ ہی میڈیا کی نظریں کام کرتی ہیں۔
خاص طور پر پراپرٹی سے متعلقہ آفس تو رشوت کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں جہاں کوئی جائز و قانونی کام بھی رشوت کے بغیر نہیں ہوتا ہے، سیاہ وسفید ہر قسم کے کام بھاری رشوت کے عوض ہوتے ہیں، جہاں ایجنٹوں اور بروکروں کا راج ہوتا ہے وکلا و شہری بے وقعت نظر آتے ہیں۔ ججز اور وکلا کے رویے کے خلاف شکایت کے فورم موجود ہیں لیکن ان کے خلاف شکایت سننے اور کارروائی کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ ان کے حکام بالا بھی شکایتوں پر کوئی توجہ نہیں دیتے ہیں۔ چیئرمین نیب نے آئی بی اے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ پاکستان میں کرپشن پر قابو پانا زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔
قومی کردار سے عاری مفادات اور منفعت پر مبنی سیاست کے موجودہ ماحول میں جب کہ تمام قومی ادارے بدنظمی اور زبوں حالی کا شکار نظر آتے ہیں، عدلیہ ہی واحد ادارہ ہے جو کسی حد تک فعال ومتحرک اور اپنے فرائض سر انجام دیتا دکھائی دیتا ہے جس سے عوام کو بھی کچھ توقعات وابستہ ہیں۔ بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں وکلا تنظیموں اور عدالتوں نے ہر ہر موقعے پر بڑا مثبت، موثر اور فعال سیاسی اور قومی کردار ادا کیا ہے۔ موجودہ ماحول میں اس کردار کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے یہ سلسلہ جاری رہنا ازحد ضروری اور ناگزیر ہے اس کے منفی یا مثبت دونوں نتائج مجموعی طور پر ملکی سیاست اور ملک و قوم پر بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر مرتب ہوں گے۔
اس اجتماعی کردار کو کسی سازش، رخنہ اندازی یا ناقص حکمت عملی سے نقصان پہنچا تو سب سے زیادہ اور براہ راست نقصان بھی عدلیہ اور وکلا برادری کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ وکلا جو کبھی کریم آف دی سوسائٹی سمجھے جاتے تھے اب ایسا نہیں ہے۔ پیشے کی حرمت کی خاطر وکلا، وکلا رہنما اور ان کی تنظیموں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے۔
بنچ اور بار کے تعلق کو مضبوط اور باوقار بناکر عدلیہ کو مضبوط کرکے، کرپٹ عناصر اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کی نشاندہی کرکے کرپٹ عناصر اور توہین عدالت کے مرتکب افراد کے خلاف مشترکہ مربوط کارروائی عمل میں لاکر ہی قانون کی حکمرانی عدلیہ کا وقار اور وکلا مفادات کی نگرانی کی جاسکتی ہے۔