اب کون پٹاخے پھوڑے گا

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا بھارت کے پٹاخے بھی پھوٹنے سے رہ جاتے ہیں یا پھر وہ اپنی محنت کے ساتھ یہ پٹاخے پھوڑ لیں گے۔


سالار سلیمان February 22, 2015
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا بھارت کے پٹاخے بھی پھوٹنے سے رہ جاتے ہیں یا پھر وہ اپنی محنت کے ساتھ یہ پٹاخے پھوڑ لیں گے۔ فوٹو اسکرین شارٹ

ہمیں سب سے پہلے تو یہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ بھارت ہم سے دو تین کاموں میں بہت آگے ہے، لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے پہلے ہمیں اپنا دل اور ظرف دونوں کو بڑا کرنا ہوگا، کیونکہ سب سے پہلے تو وہاں کا میڈیا ہم سے بہت آگے ہے، وہاں کی فلموں اور گانوں نے ہمارے گھروں میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور ہم دن رات بھارت کو با جماعت گالیاں دینے کے بعد اُن کے ہی گانے سنتے ہوئے فون پر فرض عشق ادا فرماتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ پاکستان میں نیوز میڈیا کو ابھی آزاد ہوئے چند ہی سال گزرے ہیں اور ہم اُس میں بھی بھارت کو کاپی کرتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ بھارت ہم سے ایڈورٹائزنگ میڈیا میں بھی آگے ہے اور ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ اُن کے اشتہارات بہت ہی دلچسپ ہوتے ہے۔ چند سیکنڈز میں بات کو آگے پہنچانے کے فن سے بھارتی بخوبی آگاہ ہیں۔

فروری کے وسط سے ہی کرکٹ کا عالمی میلا شروع ہوچکا ہے اور جنوری کے اواخر سے ہی پوری دنیا میں اس کا بخار سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ گلی، محلے، دکان، بازار، پارلر، دفتراور تو اور مساجد تک میں کرکٹ کا ذکر ہورہا ہے۔ ہر کوئی اپنی پسندیدہ ٹیم کی حمایت کررہا ہے۔

صاحب استطاعت لوگوں نے تو گوروں کے دیس میں اڑان بھی بھری ہے جبکہ دیگر نے اپنے ٹی وی کی مرمت کروا کر اُس پر میچ سے لطف اندوز ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کی ورلڈ کپ ٹی شرٹس بھی آن لائن اور بازاروں میں فروخت ہورہی ہیں اور ہر شخص کا پسندیدہ مشغلہ کرکٹ بن چکا ہے۔ یہاں تک کہ میرے دوست کی پڑھی لکھی اور خوبرو دوست حمیدہ نے بھی آج کل فیشن کے بجائے کرکٹ کو موضوع بنانا شروع کردیا ہے۔ میں نے حیرانگی سے جب یہ پوچھا کہ حمیدہ تمہیں کیا ہوگیا ہے، تم اور کرکٹ؟ اُ س نے انداز بے نیازی سے اتنا کہا کہ جناب آج کل کرکٹ کا ہی فیشن ہے۔

اسی دوران ہمسایہ ملک کی جانب سے ایک ''شرلی ٹائپ'' ویڈیو بنائی گئی۔ اگرچہ یہ ویڈیو چند سیکنڈز پر ہی محیط تھی مگر اِس کا اثر ہر جگہ محسوس کیا گیا۔ اس ویڈیومیں یہ دکھایا گیا ہے کہ ایک پاکستانی اپنے بچپن سے ہی عالمی کپ میں پاکستان کو بھارت کے خلاف جیتنے کا منتظر ہے، لیکن اُس کے ارمان ہر بار آنسووں میں بہہ جاتے ہیں اور وہ پٹاخے جو فتح کی صورت میں پھوڑنا چاہتا ہے وہ کئی سالوں سے اپنے پھٹنے کے منتظر ہیں۔ اس ویڈیو کے آخر میں ''کب پھوڑیں گے'' کی ایک لائن کہی جاتی ہے ۔




میں نے جب یہ اشتہار دیکھا تو بے اختیار ہنسی آگئی۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر شادی بیاہ کی ویڈیو بنانے والوں سے لیکر ایک نجی چینل کے اینکر تک نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی اور اُس اشتہار پر جوابی ویڈیو پوسٹ کی۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ دسیوں جوابی ویڈیوز کے باوجود بھی چند سیکنڈز پر محیط ویڈیو بدرجہ اتم موجود ہے اور کوئی ایک بھی ایسی جوابی وڈیو نہیں بنی جو اُس کا مقابلہ کرسکے۔ پاکستان اور بھارت کے مقابلے اور نتیجے سے ہم سب واقف ہیں کہ تاریخ اب بھی تبدیل نہیں ہوئی اور پٹاخے پھوٹنے سے پھر رہ گئے ہیں.

لیکن اِس سے بھی زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ چند روز بعد اُسی طرز کی ایک اور ویڈیو منظر عام پر آئی جو کہ بھارت بمقابلہ جنوبی افریقہ پر بنائی گئی۔ اس ویڈیو میں یہ دکھایا گیا ہے کہ بھارت ورلڈ کپ کی تاریخ میں کبھی جنوبی افریقہ سے نہیں جیت سکا ہے۔ بھارتی ٹیم اس وقت خاصی مضبوط ہے بالخصوص ان کی بیٹنگ لائن۔ دوسری طرف جنوبی افریقہ بھی کمزور نہیں ہے اور اُس کی صرف بیٹنگ ہی نہیں بلکہ بالنگ بھی طاقتورہے۔ تو اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا بھارت میں بھی لوگ پٹاخے پھاڑنے کے قابل ہوتے ہیں یا نہیں۔




میری دعا تو یہی ہے کہ بھارت یہ میچ ہار جائے اور اُن کے پٹاخے بھی نہ پھوٹیں، لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کرکٹ بائی چانس سے زیادہ اب کرکٹ بائی پرفارمنس ہوچکی ہے۔ ہار جیت یقیناً کھیل کا حصہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ صلاحیتیں بھی ضروری ہیں۔ ہم نے ابھی پاکستان کا ویسٹ انڈیز کے خلاف حشر دیکھا ہے کہ کیسی ہماری محبوب ٹیم نسبتاً کمزور ٹیم سے ایسے ہاری جیسے ہمارے سابق ہیروز کو کھیلنا ہی نہیں آتا۔ حقیقت تو حقیقت ہے اور وہ آنکھیں بند کرنے سے یا پھر ریت میں سر دینے سے نہیں بدلے گی۔ لہذا آج کی حقیقت یہی ہے کہ جو ٹیم بہترین حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترے گی اور بہترین کھیل کا مظاہرہ کرے گی وہی ٹیم جیتے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں