ایک انقلابی سوچ
تحقیق بتاتی ہے کہ اوپر سے نیچے تک تعلیم یافتہ افراد‘ بچے ہوں یا بڑے ان میں تربیت کی شدید کمی ہے۔
KARACHI:
ادھر چند دہائیاں قبل سرکاری اسکولوں اور کالجوں کا بڑا نام اور مقام تھا۔ ان کے اساتذہ کا نام اور ذکر ایک سند کا درجہ رکھتا تھا اور ان تعلیمی اداروں سے ستاروں کی طرح روشن ناموں والے طلباء فارغ التحصیل ہوتے تھے' صرف ایک نام ہی لینا کافی ہو گا راوین کہلانا فخر کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ پھر جس طرح دوسرے ادارے تباہ حال ہوئے سرکار کی زیر نگرانی چلنے والے اسکول اور کالج کباڑ خانے بنتے چلے گئے۔
شہری علاقوں میں کچھ سرکاری اسکول چھتیں اور دیواریں رکھتے ہیں لیکن دیہی اسکول یا تو درختوں تلے بے در و دیوار ملیں گے یا وڈیروں کے مویشی خانوں کی صورت میں نظر آئیں گے لیکن دیہات میں ان سرکاری اسکولوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے جو تعمیر تو ہوئے ان پر اخراجات بھی اٹھے لیکن وہ انسانوں کو نظر نہیں آتے اس لیے کہ جنات نے ان پر قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ گھوسٹ اسکول صرف محکمے کی فائلوں اور انجینئریوں کے نقشوں میں دیکھے جا سکتے ہیں' ایسے اسکول بزبان شاعر ؎ ہر چند کہیں کہ ہیں' نہیں ہیں
موجودہ وزیراعلیٰ نے اپنے پہلے دور وزارت میں دوران امتحانی نقل بازی کا نوٹس لیتے ہوئے سالانہ امتحانوں کے دوران اعلیٰ صوبائی افسروں کو بوٹی مافیا پر کریک ڈاؤن کے لیے مامور کیا تھا جس کے خاطر خواہ نتائج نکلے تھے اور ساتھ ہی گھوسٹ اسکولوں کا سروے بھی کروایا تھا۔ اب پھر اسی عمل کی ضرورت ہے بشرطیکہ کام صرف سروے تک محدود نہ رہے بلکہ دیہات میں اسکولوں کی تعمیر کے علاوہ اساتذہ کی تعیناتی اور اسکولوں میں ان کی موجودگی کو بھی یقینی بنایا جائے۔
پسماندہ علاقوں اور دیہات میں پرائمری' مڈل اور ہائی اسکولوں پر توجہ کی اس لیے بھی زیادہ ضرورت ہے کہ وہاں آبادی بھی زیادہ ہے اور محرومی اس سے بھی زیادہ جس کا نتیجہ بیروز گاری، بے راہ روی اور شدت پسندی کی صورت میں سارا ملک بھگت رہا ہے۔ غربت اور کثرت اولاد نے ان علاقوں میں لاقانونیت اور دہشتگردی کی نرسریوں کو جنم دیا ہے اور پروان بھی چڑھایا ہے۔
اس کے برعکس بڑے شہروں کے آسودہ حال علاقوں میں پرائیویٹ اسکولوں اور ٹیوشن سینٹروں نے اعلیٰ معیاری تعلیمی اداروں کا جال پھیلا رکھا ہے۔ خیال تھا کہ شاندار عمارت کینٹین' بجلی' پانی' ہیٹر' اے سی قیمتی انٹیریئر' اعلیٰ تعلیم سے لیس اساتذہ کی موجودگی' موٹر گاڑیوں کے شوفر رکھنے والے یہ ملک و معاشرے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے میں مفید ہونگے اور ان اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے ایسے نوجوان اور بچے دوسروں کے لیے تقلیدی کردار ادا کریں گے لیکن ان مہنگی درس گاہوں کے طالب علم شائستگی' خوش اخلاقی' تمیز' احترام جیسے الفاظ سے نابلد' قانون و اصول پسندی کی ضد' امارت اور احساس برتری کے نشے میں مخمور اور سہولتوں کے بجائے رکاوٹیں پیدا کرنے میں پیش پیش پائے گئے ہیں۔
تحقیق بتاتی ہے کہ اوپر سے نیچے تک تعلیم یافتہ افراد' بچے ہوں یا بڑے ان میں تربیت کی شدید کمی ہے۔ تعلیمی اداروں کی ساری توجہ تعلیم پر مرکوز ہے جب کہ تربیت کے بغیر تعلیم یعنی محض ڈگر ہولڈر ہونا ترقی معکوس ہے۔اگر صرف تربیت کا ذکر ہو اور اسے صرف اسکول و کالج یا اکیڈمیوں کے طلباء تک محدود کر دیا جائے تو یہ عوام الناس کے ساتھ نا انصافی ہو گی یا پھر طلباء کے ساتھ زیادتی کے زمرے میں آ سکتی ہے کیونکہ پڑھے لکھے طلبا ہوں یا ناخواندہ عوام جنھیں پنجابی زبان میں ''چٹے ان پڑھ'' کہتے ہیں دونوں طبقوں کی تربیت کے بیشتر خانے خالی ملیں گے یہ الگ بات کہ تعلیم یافتہ کی تربیت کا خانہ کُلہُم خالی ہو سکتا ہے اور ایک جاہل مطلق ہر لحاظ سے سلجھا ہوا اور تربیت یافتہ بھی ہو سکتا ہے لیکن اس دلیل کے باوجود ہمارے ایک کرم فرما بضد ہیں کہ وہ عنقریب اپنے شہر میں مستقل بنیادوں پر ایک تربیتی ورکشاپ شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ہمارے ملک میں جہلا کم ہیں اور غیر تربیت یافتہ افراد کی تعداد گنتی کی حدود سے بہت آگے نکل چکی ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ جسے ان سے اختلاف ہو وہ ایک دن ان کے ساتھ رہ کر پیدل شہر کا چکر لگا لے ۔وہ اسے اسکول' کالج' کچہری' بازار' مارکیٹ' سڑک' فٹ پاتھ' دکان' چوک' اسپتال' مسجد' دفتر' پلے گراؤنڈ' ایئر پورٹ' بس اسٹاپ' ریلوے اسٹیشن' شادی گھر' فیکٹری' پٹرول پمپ' بینک' پوسٹ آفس' فروٹ و سبزی منڈی' سینما گھر' ریلوے کراسنگ' یونیورسٹی القصہ شہر کی ہر پبلک و پرائیویٹ جگہ گھمائیں تا کہ وہ ہر قسم کے مقامات اور افراد کو OBSERVE کر کے ان کی رائے سے اتفاق یا اختلاف کر سکیں۔
ملک کے مذکورہ محسن اپنی فری سہ روزہ ورکشاپ کے لیے شہر کے مرکزی علاقے میں ایک دس مرلہ عمارت کی تلاش میں ہیں جس میں ایک بڑا ہال کمرہ ہو وہ اسے کلاس روم کی شکل دے کر اپنے والنٹری مشن کی ابتدا کریں گے پھر اس کا دائرہ ہر شہر میں پھیل جائے گا۔ عادات و اطوار کے سدھار اور کیریکٹر بلڈنگ کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہمارے اس کرم فرما کا جذبہ اور ارادہ قابل قدر لیکن اس کا حصول ایک مشکل راستہ ہے لیکن ؎
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
پوچھا گیا کہ کلاس روم مل گیا تو اس میں شمولیت کے لیے کون اور کیوں آئے گا جواب ملا کہ پورے مہینے کا ورکشاپ پروگرام سپانسر ہو کر اخبار میں بصورت اشتہار شایع ہو گا۔ بیس تیس شامل ہونے والوں کے لیے دو گھنٹے کی ورکشاپ کے دوران ٹھنڈے اور گرم مشروب سے تواضع ہو گی اسکرین پر وڈیو فلم چلے گی جو مہذب' قوانین و ضوابط کی پاسداری کرنے والوں کو آتے جاتے' چلتے پھرتے' گھومتے' موٹر سائیکل' بائیسکل' موٹر کار پارک کرتے چلاتے اور موڑتے دکھائے گی بازاروں' سڑکوں اور اوپر مندرج پندرہ بیس مقامات کے مناظر دکھائے گی۔
اس دوران معروف شخصیات اسکرین پر آ کر چند منٹ گفتگو کریں گی۔ ورکشاپ ہر کسی کو خوش آمدید کہے گی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایسا ورکشاپ پروگرام اسکولوں اور کالجوں میں ہفتے میں ایک بار ایک گھنٹے کے لیے دکھانے کا اہتمام بذریعہ سرکاری تحریک کروایا جائے گا تا کہ تعلیم کے ساتھ تربیت بھی جزو زندگی بن کر عوام ہی نہیں طلباء کی کیریکٹر بلڈنگ کر سکے۔
مجھے اس تربیتی ورکشاپ کا آئیڈیا تو بہت اچھا بلکہ انقلابی لگا لیکن اب اس دن کا انتظار ہو گا جب ہمارا مذکورہ کرم فرما اس کی لانچ کرے گا۔