یہ کیا جگہ ہے دوستو
بنیادی ضروریات سب کے لیے ہوں گی تو اعتماد کی فضا خود بخود قائم ہوتی چلی جائے گی۔
KARACHI:
اف خدایا،ہمارا ملک تو ایسی حالت جنگ میں ہے،جس میں اپنے ہی اپنوں کو نیست ونابود کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ انسانیت کہیں منہ چھپا کر بیٹھ گئی ہے اور فرعونیت چاروں طرف اپنے پنجے گاڑھنے پر تلی نظر آتی ہے۔ ایک پڑھا لکھا معاشرہ،جہالت کی دلدل بنتا چلا جا رہا ہے، جانوروں کی طرح انسانوں کی لاشیں اس طرح گاڑیوں میں رکھی جاتی ہیں جیسے گویا گاڑیوں کو بھرا جا رہا ہے۔
ہم ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ کتنے مرے؟ حکومت مکمل بے بس نظر آتی ہے، قتل و غارت کو روکنے میں، مگر شاباش ہے جناب! کہ کرپشن اپنے پورے عروج پر ہے، سندھ میں ایک پولیس بکتر بند گاڑی کو 5 کروڑ کی جگہ 17 کروڑ میں خریدا گیا، یہ ادارے میں اعلیٰ پیمانے پر کرپشن کی رپورٹ ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ جو جاننے والے ہیں وہ ان تمام کرپشن کے رازوں سے پردے اٹھتے دیکھ بھی رہے ہیں، مگر رزلٹ زیرو ہی زیرو!
جس بھی ادارے کو دیکھیں وہاں کرپشن اپنے عروج پر نظر آرہی ہے۔ زبردست طریقے سے چھوٹے اور بڑے پیمانے پر کرپشن درکرپشن جاری ہے سمجھ سے بالاتر ہے کہ جہاں اتنے لوگ آئے دن بم دھماکوں میں جاں بحق ہوجائیں اور پیچھے ان کے روتے، سسکتے ہوئے گھر والوں کا کوئی پرسان حال نہ ہو۔ اللہ ہی جانے یہ بے حسی کی کون سی انتہا ہے۔ دولت کے عظیم انبار کس طرح اعمال کے عذابوں سے چھٹکارا دلائیں گے۔جو محلات اور بڑے بڑے عالیشان گھروں میں ہیں اور درجنوں گارڈز کے ساتھ ہیں وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ انھوں نے اپنے آپ کو محفوظ کرلیا ہے ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو اللہ کی طرف سے حساب و کتاب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
اے میرے وطن کے لوگوں، خدا کے عذاب سے تو ڈرو، کہ تمہارے ساتھ بہت سے بے گناہ بھی اس عذاب کی چکی میں پسیں گے۔مساجد اور امام بارگاہیں اور اسکول، عبادتوں کی جگہ، علم حاصل کرنے کے ادارے خوف کی علامت بن گئے ہیں، آئے دن بم دھماکے اور بے تحاشا لوگوں کی اموات۔ پوری دنیا میں ایک نظر ڈالیے کسی شہر میں بدامنی ذرا سی بھی طویل ہوتی ہے تو پوری کی پوری صوبائی مینجمنٹ بدل دی جاتی ہے، متعلقہ وزارتیں خود بخود استعفیٰ پیش کردیتی ہیں۔
اپنی نااہلی کو قبول کرلیا جاتا ہے کہ بہرحال انسانوں کی زندگیاں بہت اہم ہوتی ہیں مگر یہاں تو سارا نظام ہی کا جواب نہیں، ایک ہفتے تک پٹرول نایاب ہوگیا وزیر صاحب کمال ڈھٹائی سے اپنی ذمے داری دوسرے پر ڈالتے رہے اور ابھی تک موجود ہیں۔
سلام ہے آرمی چیف راحیل شریف کو، جس طرح وہ ہر ناگہانی مصیبت پر عوام کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں اور فوجی جوان چاروں طرف سے چاق و چوبند ہیں، سرحدوں پر بھی ملک کی حفاظت اور ملک کے اندر بھی عوام کی حفاظت کے لیے کوشاں!۔خدارا! سوچیے اور ایک عام انسان کو انسان جانیے خود بھی زندہ رہیے اور دوسروں کو بھی زندہ رہنے کا حق دیجیے۔ ریاست کا کام ہے کہ وہ دیکھے کہ کوئی گروہ کسی بھی فتنہ و فساد کی سرگرمیوں میں ملوث ہے یا نفرت انگیز تقاریر یا مواد پایا جائے تو کسی دباؤ کے بغیر اس کے خلاف ایکشن لیں، قانون مضبوط ہوگا تو ریاست بھی مضبوط ہوگی۔
مگر یہاں پر اگر ریاست کا جائزہ لیا جائے تو ریاست اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لیے مصالحت کے نام پر خاموش رہے تو پھر یہی ہوگا جو کچھ ہو رہا ہے۔ ہر بندہ خوف و ہراس میں مبتلا نظر آرہا ہے، بچوں سے لے کر بڑوں تک، زندگی، عزت، جان و مال کچھ بھی محفوظ نہیں۔
مختلف بیماریاں اس خوف و ہراس کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہیں، لوگوں نے شام کی Walk کے لیے پارکوں میں جانا چھوڑ دیا ہے، اندھیرا ہوتے ہی اندھیرے کے ساتھ ساتھ آتے جاتے خوف بھی امڈ آتا ہے، لوگ ایک دوسرے کے شہروں میں آنے جانے سے کترانے لگے ہیں برسوں رشتے داروں سے ملنے کے لیے ترسنے لگے ہیں۔ وہ تو شکر ہے جدید ٹیکنالوجی کا کہ جس کی وجہ سے رشتے دار ایک دوسرے کی شکلیں نہیں بھولتے۔
ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ اپنا حصہ ڈالے ریاست کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے اور وہ کسی بھی شکل میں ہوسکتا ہے۔ آنکھیں اور ذہن کھلا رکھیے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خوبی تو اللہ پاک نے رکھی ہے، بہتر لوگ وہی ہوتے ہیں جو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھلائی کے بارے میں بھی کوشاں رہتے ہیں گوکہ یہ باتیں اب پرانے زمانے کی باتیں لگتی ہیں آؤٹ آف ڈیٹ بھی سمجھی جاتی ہیں لیکن حقیقت کبھی جھٹلائی نہیں جاسکتی فطرت انسان کبھی بدل نہیں سکتی جس طرح لالچ، ہوس، دھوکا وفریب، انسان کی فطرت کا حصہ ہے بالکل اسی طرح بھلائی، خیر اور عبادت بھی انسانی فطرت ہے اور رسول پاکؐ کا فرمان ہے کہ ''فطرت کبھی بدل نہیں سکتی۔''
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ:
تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
ایک اور جگہ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ:
اللہ کرے دور' تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی' اولاد بھی' جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اکٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا' نعرہ تکبیر بھی فتنہ
سوچیے تو علامہ اقبال کے اس کلام میں کس قدر علم و دانش ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ اشعار آج ہمارے لیے کہے جا رہے ہیں، مگر آج کی تیز گام زندگی میں شاید سوچنے کے لیے وقت بہت کم ہے بس ہم کر گزرتے ہیں اور کر گزر رہے ہیں کہ کہاں تھے ہم اور کہاں آگئے آسمانوں کو چھونے کی تمنا، ستاروں پر کمند ڈالنے کی آرزو پتہ نہیں کہاں گم ہوگئی ہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم ''گدھ'' بنتے جا رہے ہیں۔
تاک لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ کوئی مردہ آئے اور ہم اس کو نوچنا گھسیٹنا شروع کریں بلکہ اس سے بھی چار قدم آگے نکل آئے ہیں۔ قبروں میں دبے مردے نکال لیتے ہیں کھانے کے لیے اور زندہ کو بھون کر کھا جاتے ہیں یا اللہ انسان ہیں یا حیوان ہم؟
قائد اعظم کا فرمان ہے کہ ''میں آپ کو مصروف عمل ہونے کی تاکید کرتا ہوں، کام، کام بس کام، سکون کی خاطر۔ صبر و برداشت اور انکساری کے ساتھ اپنی قوم کی سچی خدمت کرتے جائیں۔''
بس قائد اعظم، کیا بتائیں ہم آپ کو، نہ ہم قوم رہے اور سچی خدمات کے جذبات ۔ بس رہ گیا ہے ہم میں کہیں چھپا ہوا جانور جو بار بار اچھل اچھل کر باہر آتا ہے اور دہشت اور ظلم کرکے واپس چلا جاتا ہے اور جب کہ یہ جانور سیکڑوں کو نگل چکا ہے تو اب اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا جا رہا ہے کہ کس طرح اس کو قابو کیا جائے۔ مگر بہت سارے ابھی بھی ایسے ہیں جو اس سوچ کے ساتھ آج بھی سنجیدہ نہیں کہ ان کو لگتا ہے کہ شاید ملکوں کی تاریخیں اسی طرح بنتی ہیں۔
بنیادی ضروریات سب کے لیے ہوں گی تو اعتماد کی فضا خود بخود قائم ہوتی چلی جائے گی۔ محبتیں اور قربانیاں اس خوبصورت ہرے بھرے ملک کو ہنستی ہوئی آوازیں دے سکتی ہے، سکون اور مسکراتے ہوئے، علم و ہنر سے چمکتے چہرے اصل میں تو یہی ہماری پہچان ہیں ہم بھٹک گئے ہیں اپنے راستے سے صرف اس وجہ سے کہ ایک بہترین لیڈرشپ ہمارے پاس نہیں! جس دن قوم نے اپنے لیے ایک اچھا لیڈر منتخب کیا اسی دن سے ہی پاکستان کی ترقی و سکون شروع ہوجائے گا! امتحانات قوموں کو ہمیشہ مضبوط اور پائیدار بناتے ہیں۔