خطرناک ترین اور پرامن ترین
دنیا کے سب سے خطرناک شہروں میں کراچی کا چھٹا نمبر، پرامن شہروں میں وینس اول۔
شہر کسی بھی ملک کی معیشت اور ترقی کا پیمانہ سمجھے جاتے ہیں۔
یہ شہر ہی ہیں جو کسی ملک اور قوم کا اصلی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔آج دنیا سکڑ کر ایک عالمی گائوں کی شکل اختیار کرچکی ہے اور میڈیا کا کردار اس ضمن میں بنیادی ہے۔دنیا کے کسی بھی کونے میں رونما ہونے والا واقعہ چند لمحوں میں دوسرے کونے میں بیٹھے کروڑوں انسان اپنے ٹیلی وژن کی اسکرینوں پر دیکھ سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے تیسری دنیا کے اکثر ممالک کے شہر باقی دنیا کے سامنے کوئی اچھا تاثر پیش نہیں کرتے۔یہ شہر بدانتظامی ، دہشت گردی اور جرائم کا شکار ہیں۔ان کا شمار ایسے شہروں میں ہوتا ہے جہاں سیر وسیاحت کی نیت سے جانا خطرناک سمجھا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں ، جہاں سیروسیاحت کاشوق بہت زیادہ پایا جاتا ہے، وہاں پر وقفے وقفے سے ایسی فہرستیں مرتب کی جاتی ہیں جن میں خطرناک شہروں کی درجہ بندی کی جاتی ہے اور اپنے شہریوں کو ان خطوں میں نہ جانے کی ہدایت کی جاتی ہے۔
حال ہی میں ایک آن لائن امریکی جریدے ''Blaze'' نے دنیا کے دس خطرناک ترین شہروں کی فہرست جاری کی ہے۔ان شہروں میں زیادہ تر شہر ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکا کے خطوں میں واقع ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی مرکز کراچی دنیا کے دس خطرناک ترین شہروں کی اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔آئیے اس فہرست کو تفصیل سے پڑھتے ہیں:
1 : بغداد، عراق
جی ہاں ،عراق کا دارالحکومت،قدیم تہذیب کے مراکزمیں شامل اور مسلمانوں کے لیے متبرک شہر کا درجہ رکھنے والا بغداد آج دنیا کے خطرناک شہروں میں پہلے نمبر پر ہے۔لگ بھگ دس سال قبل عراق پر امریکی حملے کے بعد اس شہر میں مسلسل تشدد کے ہولناک واقعات کا سلسلہ جاری ہے جن میں اب تک ہزاروں کی تعداد میں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔یہ شہر خودکش دھماکوں ، فائرنگ ، بم دھماکوں اور دیگر حملوں کا مرکز دکھائی دیتا ہے۔ شہر کا کوئی حصہ پرتشدد واقعات سے محفوظ نہیں۔ رپورٹس کے مطابق صرف گذشتہ دوہفتوں کے دوران تشدد کے واقعات میں یہاں پر درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
امریکا کی طرف سے عراق میں جنگ کو ختم کیے ہوئے کافی عرصہ بیت چکا ہے تاہم عراقی سیکیورٹی فورسز تاحال ملک میں مکمل طورپر امن کو بحال کرنے میںکامیاب نہیںہوئیں۔بین الاقوامی سیاحوں بالخصوص یورپی سیاحوں کے لیے یہ شہر آج بھی سیاحت کے لیے ہرگز موزوں نہیں۔
2 : این ڈی جامینا، چاڈ
افریقی ملک چاڈ کا دارالحکومت این ڈی جامینانسلی فسادات اور خانہ جنگی کا شکار ہے۔ یوں تو پورا ملک ہی فسادات کا شکار ہے تاہم دارالحکومت سیاسی اور حکومتی سرگرمیوں کا مرکز ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ تشدد کے مسائل سے دوچار ہے۔شہر میں روزانہ مختلف فریقین کے درمیان خونریز تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں بڑی تعداد میں لوگوں کی ہلاکت اور زخمی ہونا معمول بن چکا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ کے مطابق چاڈ کا دارالحکومت مجموعی طورپر ملک کا سب سے پرامن شہر ہے تاہم عالمی سطح پر دنیا کا دوسرا خطرناک ترین شہر ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کی مجموعی امن وامان کی صورت حال یہاں پر کس قدر خراب ہوگی۔
اس سال جون میں امریکا کے بیورو آف قونصلر افئیرز نے ملک کیلئے ٹریول وارننگ جاری کی تھی جبکہ خود چاڈ کی حکومت نے اپنے ملازمین کو ہدایت کی تھی کہ وہ دارالحکومت سے باہر نہ جائیں۔
3 : عابد جان ، آئیوری کوسٹ
آئیوری کوسٹ میں تشدد اس وقت پھوٹا جب سابق صدر لارنٹ جی باگبو نے اکتوبر 2010ء کے الیکشن میں شکست کے باوجود اقتدار چھوڑنے سے انکار کردیا ۔ جی گاگبو اس وقت سے گرفتار ہے اور اس کے خلاف ہیگ میں مقدمہ چلائے جانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔
اگرچہ سابق صدر کی گرفتاری کے بعد عابد جان، جو کہ ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، نسبتاً پرسکون ہے تاہم شہر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں امن وامان کو مکمل طورپر بحال کرنا تاحال باقی ہے۔ یہاں پر وقفے وقفے سے فریقین کے درمیان تشدد کے واقعات جاری رہتے ہیں۔
امریکا ، برطانیہ، فرانس ، جرمنی ، سویڈن ، جاپان ، کوریا اور دیگر کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو ہدایت جاری کررکھی ہے کہ آئیوری کوسٹ کے سفر سے مکمل طورپر گریز کریں۔
4 :کابل، افغانستان
دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں کابل کو چوتھے نمبر پررکھا گیا ہے۔اگرچہ امریکی افواج کی واپسی کے اعلان کے بعد وہاں پر صورت حال میں کچھ بہتری آئی ہے تاہم مختلف گروپوں کے درمیان جھڑپوں کے علاوہ جنگجو طالبان گروپوں کی جانب سے اہداف پر حملوں کو روکا نہیں جاسکا۔امریکی افواج کے علاوہ ایسے تمام گروپس جن کو امریکا نواز یا حکومت نواز سمجھا جاتا ہے، ان پر حملوں کے ساتھ ساتھ شعیہ سنی اور پشتو تاجک ازبک تقسیم کے نام پر بھی نفرت اور تشدد پایا جاتا ہے۔ سیاحوں اور سفر کے شوقین افراد کے لیے اس شہر کے دروازوں کو ابھی طویل عرصہ تک بند سمجھا جانا چاہیے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ذرائع کے مطابق افغانستان میں مختلف گروپوں کے درمیان تصفیہ طلب مسائل حل ہونے اور ایک متفقہ قومی حکومت کے قیام کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ افغانستان بھی ایک پرامن ملک بن جائے گا۔
کابل کے علاوہ سینٹرل افریقن ری پبلک کے شہر بانگوئی کو بھی دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں کابل کے ساتھ چوتھے نمبر پر رکھا گیا ہے ۔امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق اس شہر میں جرائم اور تشدد کا گراف خاصا بلند ہے ۔ ملک کی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بھی سیاحوں کو ڈرانے دھمکانے اور لوٹنے کی شکایات عام ہیں۔
5 :کنساشا ، ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو
تشدد اور جرائم ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو کے لیے کوئی نئی چیز نہیں کیونکہ اس ملک کی ہمسایہ جنگ پسند اور جارح اقوام اس کے لیے ہر وقت خطرہ بنی رہتی ہیں جس کی وجہ سے ملک ہر لمحہ بے چینی کا شکار رہتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اس ملک کی فی کس جی ڈی پی صرف ایک سو چھیاسی ڈالر سالانہ ہے جو کہ دنیا میں چوتھے نمبر پر سب سے کم جی ڈی پی ہے۔اس ملک کے ایک تہائی افراد ساٹھ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے مرجاتے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری ہونیوالی سفری وارننگ کے مطابق کنساشا میں جرائم کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے اور امریکی شہریوں کو مسلسل سنگین حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ اس کے علاوہ اس شہر میںایسے گروہ بھی ہیں جو سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکار بن کر سیاحوں اور شہریوں کو لوٹ مار کا نشانہ بناتے ہیں بالخصوص شام ڈھلنے کے بعد شہر میں اس قسم کے واقعات خاصے بڑھ چکے ہیں۔
ملک کی وزارت خارجہ کی جانب سے سیاحوں کو سختی سے وارننگ کی جاتی ہے کہ حساس مقامات جیسے سرکاری عمارتوں ، ہوائی اڈوں ، پولیس اسٹیشنوں ، صدارتی محل ، بارڈرز اور دریائوں وغیرہ کی تصاویر بنانے سے گریز کریں ، بصورت دیگر انھیں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
6 : کراچی ، پاکستان
پاکستان کے سب سے بڑے پورٹ سٹی کراچی کو دنیا کے خطرناک ترین شہروں کی فہرست میں چھٹے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ اس شہر کے بارے میں کہا گیاہے کہ مذکورہ شہر القاعدہ اور طالبان کے جہادی حملوں کا محبوب ہدف ہے۔اگست میں امریکی بیورو آف قونصلر نے خبردار کیا تھا کہ تشدد کے واقعات سے اس شہر کے علاوہ پورے پاکستان میں امریکی شہریوں کے لیے شدید خطرات ہوسکتے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا کہ اس شہر میں دہشت گردوں اور ان کے ہمدردوں کی جانب سے شہریوں ، حکومت اور غیرملکی اہداف کو باقاعدگی کے ساتھ نشانہ بنایا جاتا ہے۔
گذشتہ کئی سالوں کے دوران کراچی کو متعدد خودکش حملوں کا ہدف بنایا جاچکا ہے جبکہ گذشتہ سال ایک امریکی بچے کو بھی اغوا کیا گیا۔رپورٹ میں ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائم کا ذکر نہیں کیا گیا جو کہ کراچی کے سلگتے ہوئے مسائل میں شامل ہیں۔
7: طبلیسی ، جارجیا
اگرچہ جارجیا کا شہر طبلیسی فہرست میں شامل دیگر شہروںجتنا خطرناک نہیں (یہاں پر بیروزگاری کی شرح سولہ فیصد جبکہ فی کس جی ڈی پی 2629 فیصد ہے) جارجیا بلاشبہ یورپ کا غریب ترین ملک ہے۔رپورٹ کے مطابق درحقیقت سیاحوں اور مقامی کے درمیان دولت میں عدم مساوات کے باعث سیاحوں کو لوٹنے اور تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔اس کے علاوہ ڈکیتیوں اور دیگر جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق ڈکیتیوں اور حملوں کے زیادہ تر واقعات ایسے علاقوں میں پیش آئے جہاں امریکیوں اور غیرملکی افراد کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جیسے کہ طبلیسی کے آس پاس کے علاقے ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کی سفری وارننگ کے مطابق جارجیا میں ہتھیاروں کی دستیابی عام ہے اور حملہ آور آتشین اسلحے سمیت ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس ہوسکتے ہیں۔
8 : صنعاء ، یمن
ستمبر میں امریکا کی جانب سے جاری کی گئی وارننگ میں امریکی شہریوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ یمن کاسفر نہ کریں۔یمن میں طویل عرصے سے اقتدار پر قابض صدر علی عبداللہ صالح کاتختہ الٹنے کے لیے ملک میں پرتشد د ہنگاموں کا سلسلہ رہ چکا ہے ۔ان مظاہروں کے دوران بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا۔اگرچہ علی عبداللہ صالح نے گھٹنے ٹیکتے ہوئے استعفی دیدیا تھا تاہم مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ مستعفی صدر کو سزا دی جائے جس کی وجہ سے صالح کے اقتدار کے خاتمے کے باوجود ملک میں مظاہرین اور سرکاری فورسز میں تصادم جاری ہے۔
رپورٹس کے مطابق یمن میں پرتشدد تصادم جاری ہے جو بڑھ سکتا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ جیسے ہی موقع ملے ملک سے نکل جائیں۔یاد رہے کہ گذشتہ دنوں گستاخانہ خاکوں کے مسئلے پر یمن میں امریکی سفارتخانے پر حملہ کیاگیا تھا جس میں ایک امریکی اہلکار بھی مارا گیا تھا۔
9 : نیروبی ، کینیا
اقوام متحدہ کے مطابق کینیا کی بیس فیصد آبادی روزانہ صرف ایک ڈالر پر گذارا کرتی ہے۔کینیا ان ملکوں میں شامل ہے جہاں بیروزگاری کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے جبکہ فی کس جی ڈی پی صرف آٹھ سو ڈالر سالانہ ہے جو کہ نہایت قلیل ہے اور امریکا کے مقابلے میں لگ بھگ پچاس گنا کم ہے۔ملک میں جرائم کی شرح بہت بلند ہے اور دارالحکومت نیروبی میں یہ صورت حال اور بھی خراب ہے۔ پرتشدد جرائم جیسے کارچوری ، اغوا اور گھروں پر حملوںکے واقعات عام ہیں اور باقاعدگی سے ہونے کے ساتھ اکثر مہلک ثابت ہوتے ہیں۔
اوائل 2007ء میں کار چھیننے کے دو الگ الگ واقعات میں دو امریکی شہریوں کو قتل کردیا گیا تھا۔ نیروبی میں اوسطاً روزانہ دس گاڑیاں چوری ہوتی یا چھینی جاتی ہیں۔کینیائی حکام ان واقعات سے نمٹنے کی بہت محدود صلاحیت رکھتے ہیں۔نیروبی سیاحوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات کے حوالے سے بھی خاص طور پر بدنام ہے۔
10 : کوناکری ، جمہوریہ گنی
دنیا کے دس خطرناک ترین شہروں میں کوناکری آخری نمبر پر ہے۔کوناکری ایک جزیرہ نما ہے جو گنی کے مغربی ساحل پر واقع ہے۔ ملک کی لگ بھگ بیس فیصد آبادی اسی شہر اور آس پاس کے علاقوں میں رہتی ہے۔گذشتہ دو عشروں کے دوران غیر ملکی تارکین وطن کی آمد کے نتیجے میں شہر کی آبادی میں زبردست اضافہ ہوگیا جس کی وجہ سے انفراسٹرکچر کے مختلف مسائل نے جنم لیا۔2010ء میں الیکشن کے نتیجے میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے جس میں شہریوں اور فوج کے درمیان تصادم دیکھنے میں آیا۔
امریکا کے مطابق ملک میں بدترین تشدد اگرچہ ختم ہوچکا ہے تاہم اب بھی تشدد کے واقعات پیش آرہے ہیں اور سیاحوں کے لیے مذکورہ شہرمناسب نہیں ۔اگرچہ اس شہر میں امریکی شہریوں کو خاص طورپر ٹارگٹ نہیں کیا جاتا تاہم ماضی میں انھیں نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ کے مطابق گاڑی سوار افراد کو چاہیے کہ وہ کوناکری سے باہر جاتے ہوئے احتیاط کریں کیونکہ بیرونی علاقوں میں قائم مختلف چیک پوسٹوں اور ناکوں پر فوجی یونیفارم میں ملبوس افراد کی جانب سے سیاحوں کو لوٹنے کے واقعات کی شکایات عام ہیں۔
قارئین ، یہ تو وہ شہر ہیں جن کے نام سے ذہن میں قتل وغارت ، آگ و خون ،شکی القلبی ، سفاکی، ہتھیاروں اور جرائم کا تصور ابھرتا ہے ، لیکن تمام دنیا ایسی نہیں ، اب بھی روئے زمین پر ایسے شہر موجود ہیں جہاں آپ کو مثالی امن اور سکون مل سکتا ہے۔یہ قابل رشک اقوام کے قابل رشک مسکن ہیں اور یہ تمام شہر یا یورپ میں ہیں یا امریکا میں واقع ہیں۔ آن لائن جریدے ''Blaze'' کے مطابق دنیا کے دس پرامن اور پرسکون ترین شہروں کی جو فہرست مرتب کی گئی، وہ کچھ یوں ہے:
1 :نہروں کا شہر وینس
دنیا کے خوبصورت ترین اور پرامن ترین شہروں میں اٹلی کے شہر وینس کاپہلا نمبر ہے۔وینس کے بارے میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ ایک ایسا شہر ہے جہاں سڑکیں اور گاڑیاں وجود نہیں رکھتیں بلکہ سڑکوں کی جگہ نہریں اور گاڑیوں کی جگہ کشتیاں ہیں جن کے ذریعے شہر میں آمدورفت ہوتی ہے۔وینس اٹلی کا پورٹ سٹی بھی ہے۔ شہر میں سے گذرنے والی نہریں اور چھوٹے دریا اسے اور بھی خوبصورت بنادیتے ہیں۔یہ کہانیوں جیسا شہر ہے۔
وینس شہر شمال مشرقی اٹلی میں واقع ہے جو کہ مختلف چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل ایک بڑے جزیرے کی طرح ہے اور یہ جزیرے نہروں اور دریائوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جدا اور پلوں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔اصل میں وینس شہر کئی سو سال پہلے وینیشیائی دلدلی سمندری جھیلوں کے سلسلے جنہیں لیگون کہا جاتا ہے کے بیچوں بیچ بسایا گیا تھا ۔ شہر اپنی آرٹسٹک عمارتوں ، آرٹ ورک اور محل وقوع کے باعث بھی سیاحوں کی جنت سمجھا جاتا ہے۔یہ دنیا کا واحد شہر ہے جسے اس کی جھیل سمیت مکمل طورپر ورلڈ ہیریٹیج سائٹ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ وینس کا مرکزی مقام سان مارکو ہے۔
2: جدید مغربی تہذیب کا منبع روم
دنیا کے پرامن ترین شہروں میں دوسرے نمبر پر جو شہر ہے وہ بھی اٹلی کا شہرہے اور یہ اٹلی کا دارالحکومت بھی ہے۔روم جدید اور قدیم کا حسین امتزاج ہے اور دنیا بھر کے سیاح اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔یہ شہر رومن کیتھولک عیسائیوں کا مرکز بھی ہے اور ویٹی کن سٹی بھی یہیں واقع ہے۔اس شہر میں جرائم اور بدامنی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں۔یہ شہر اپنی قدیم تاریخ اور آرکیٹکچر کے حوالے سے بھی خاصی اہمیت رکھتا ہے۔
روم لگ بھگ اٹھائیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور اس کارقبہ 1285 مربع کلومیٹر ہے۔روم اٹلی کا سب سے بڑا اور سب سے گنجان آباد شہر بھی ہے۔
آبادی کے اعتبار سے یورپی یونین میں یہ چوتھے نمبر پر ہے۔روم کو قدیم رومن شاعروں اور ادیبوں کی جانب سے ''لافانی شہر'' کا خطاب دیا گیا تھا۔753قبل مسیح میں روم شہر کی بنیاد رکھے جانے سے لیکر اب تک اس کی تاریخ لگ بھگ اڑھائی ہزار سالوں پر مشتمل ہے۔یہ رومن جمہوریہ اور رومن سلطنت کا پایہ تخت بھی رہا ہے۔یہ سلطنت اپنے وقت میں نہ صرف مغربی یورپ بلکہ بحیرہ روم کے ساتھ ساتھ عظیم الیشان خطے پر غالب تھی، یہی وجہ ہے کہ روم کو مغربی تہذیب کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔اب یہ جدید اٹلی کا بھی دارالحکومت ہے۔ سیاحوں کے لیے یہ شہرجنت کی حیثیت رکھتا ہے۔
3 : خوبصورت ترین لزبن
امریکی جریدے ''Blaze'' کی مذکورہ بالا فہرست میں پرتگال کے دارالحکومت لزبن کو تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔لزبن کو دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں شمار کیاجاتا ہے۔اس شہر کے ہر کونے اور گوشے میں دیکھنے کی کوئی نہ کوئی شے مل جاتی ہے۔اس کی گلیاں خوبصورت ہیں بالخصوص ہر پہاڑی پر موجود خوبصورت گھر دل خوش کن نظارہ پیش کرتے ہیں۔جرائم اس شہر میںنہ ہونے کے برابر ہیں۔
لزبن کے بارے میں متوقع سیاحوں کو ہم مزید معلومات دیتے ہیں۔ انتظامی حدود میں لزبن کی آبادی لگ بھگ ساڑھے پانچ لاکھ ہے اور اس کا رقبہ پچاسی مربع کلومیٹر ہے جبکہ انتظامی حدود سے باہر شہر کی آبادی تیس لاکھ اور رقبہ 958 مربع کلومیٹر ہے اور یوں یہ یورپی یونین میں گنجان ترین شہروں میں گیارھویں نمبر پر ہے۔
قارئین ،آپ جانتے ہوں گے کہ پرتگال نہ صرف یورپ کے خوبصورت ترین ملکوں میں سے ایک ہے بلکہ ماضی میں ایک عظیم الیشان سامراجی طاقت بھی رہا ہے جس نے نہ صرف ایشیا اور افریقہ کے کئی ملکوں پر حکومت کی بلکہ براعظم امریکا میں بھی بڑے بڑے ملکوںکی بنیاد رکھی۔ براعظم امریکا میں واقع برازیل اور ارجنٹائن سمیت متعدد ملک پرتگالی سلطنت کی جانب سے ہی تخلیق کیے گئے۔
4: عشرت کدہ ایمسٹرڈیم
ایمسٹرڈیم دنیا کا چوتھا پرامن ترین شہر ہے۔اس شہر کی مرکزی نہر کے ساتھ ساتھ واقع تمام عمارات یادگاروں میں شمار کی جاتی ہیں۔ ان عمارتوںمیں رہائش گاہیں ، دفاتر ، کیفے، ریسٹورینٹ حتیٰ کہ قحبہ خانے تک قائم ہیں۔اس شہر میں قتل کے واقعات کی شرح .001 فیصد ہے۔دیگر جرائم بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ایمسٹرڈیم نیدر لینڈ یا ہالینڈ کادارالحکومت اور سب سے بڑا شہر بھی ہے۔ایمسٹرڈیم کے نام کا ماخد لفظ ''ایمسٹرلی ڈام'' ہے جس کا مطلب ''دریا ایمسٹل کا ڈیم'' ہے۔بارھویں صدی تک یہ شہر مچھیروں کی چھوٹی سی بستی تھا تاہم بتدریج اس مقام پر پہنچتے ہوئے دنیا کی اہم ترین بندرگاہوں میں شمار ہونے لگا۔شہر میں موجود سترھویں صدی کی نہریں یونیسکو کی عالمی اثاثوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ایمسٹرڈیم کو خاص طور پر ''سیاحوں کا دوست'' کہا جاتا ہے۔
5 : پھولو ںکا شہر فلورنس
یہ شہر کسی حسین تصویر کی طرح ہے۔سیاحوں میں اسے خاصی مقبولیت حاصل ہے۔کہا جاتاہے کہ اس شہر میں ہر وقت محفوظ وقت ہے اور یہاں پر شہری بہ سہولت کہیں بھی آ جاسکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس شہر کو جانیوالے سیاحوں کی تعداد سال بہ سال بڑھ رہی ہے۔
فلورنس اٹلی کے خطے ٹسکانی اور صوبے فلورنس کا صدر مقام بھی ہے۔یہ ٹسکانی کا گنجان آباد ترین شہر ہے جس کی آبادی پندرہ لاکھ کے قریب ہے۔فلورنس اپنی تاریخ کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ازمنہ وسطیٰ کے یورپ میں یہ شہر تجارت اور معیشت کا مرکز اور اپنے وقتوں کا امیرترین شہر تھا۔اسے احیائے علوم کی تحریک کا منبع اور قرون وسطیٰ کا ایتھنز بھی کہا جاتاہے۔1865 اور 1870ء کے درمیان فلورنس سلطنت اطالیہ کا دارالحکومت بھی رہ چکا ہے۔سیاحوں کے لیے اس کی کشش میں آج بھی کمی نہیں ہوئی۔
6 : خوابوں کی جنت پیرس
فرانس کا دارالحکومت پیرس عالم میں انتخاب سمجھا جاتا ہے۔دنیا بھر کے سیاح اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں اور جو نہیں آپاتے ، آہیں بھرتے ہیں۔اسے آرٹ کا گھر بھی کہا جاتا ہے۔
پیرس شمالی فرانس میں مشہور دریائے سین کے ساتھ واقع ہے۔پیرس کا شمار یورپی یونین کے گنجان ترین شہروں میں ہوتا ہے اور اس کی آبادی کوئی ایک کروڑ بیس لاکھ کے قریب ہے۔
پیرس گذشتہ دو ہزار سال سے ایک اہم علاقہ رہا ہے جو بارھویں صدی میں جاکر یورپ میں علم و فن کے عظیم ترین مرکز اور اٹھارویں صدی میں مغربی یورپ کے سب سے بڑے شہر میں تبدیل ہوگیا۔پیرس دور جدید میں بھی تجارت اور ثقافت کے میدان میں دنیا کے سرکردہ شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ سیاست ، تعلیم ، تفریح ، میڈیا ، فیشن ، سائنس اور فنون لطیفہ میں اپنے مقام کے باعث یہ ایک عالمی شہر بھی ہے۔دنیا کے کئی عالمی اداروں جیسے یونیسکو اور او ای سی ڈی کے صدر دفاتر کے علاوہ انٹرنیشنل چیمبر آف کامرس اور یورپی خلائی ایجنسی کادفتر بھی اسی شہر میں ہے۔پیرس کو دنیا کا سبز ترین اور زندہ دل ترین شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا کے مہنگے ترین شہروںمیں سے ایک ہے۔
7: ڈینیوب کا موتی: بڈاپسٹ
دنیا کے دس پرامن ترین شہروں میں مشرقی وسطی یورپ کے ملک ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ کا ساتواں نمبر ہے۔
یہ شہر دریائے ڈینیوب کے کنارے پر آباد ہے اور اسی لیے اسے ''ڈینیوب کا موتی'' بھی کہتے ہیں۔بڈاپسٹ کو ماضی میں شاہی شہر بھی کہا جاتا تھا ۔ بڈاپسٹ میں امن وامان کامسئلہ شاذونادر ہی جنم لیتا ہے۔
بڈاپسٹ ہنگری کا سب سے بڑا شہر ہونے کی وجہ سے سیاست ، ثقافت ، تجارت ، صنعت اور ٹرانسپورٹ کا مرکز بھی ہے۔اس شہر کو جانیوالے سیاحوں کو ہر جانب راحت ہی ملتی ہے۔2011ء کی مردم شماری کے مطابق بڈاپسٹ کی آبادی سترہ لاکھ ہے جو کہ 1989ء کی مردم شماری سے خاصی کم ہے جب شہر کی آبادی سب اربنائزیشن کے باعث اکیس لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔شہر کا رقبہ سوا پانچ سو مربع کلومیٹر ہے۔سیاحوں کے لیے اس شہر کی عمارات ، رومن دور کے کھنڈرات اور دیگر تاریخی اور سیاسی اہمیت کے مقامات قابل دید ہیں۔بڈاپسٹ کے بارے میں آپ کو ایک دلچسپ حقیقت بتاتے چلیں کہ 1873ء تک دریائے ڈینیوب کے دونوں کناروں پر واقع شہر الگ الگ شہر تھے جن میں مغربی کنارے کا شہر ''بڈا'' اور مشرقی کنارے کا شہر ''پسٹ'' کہلاتا تھا تاہم سترہ نومبر 1873 کو انھیں ایک ہی شہر بناکر ''بڈاپسٹ'' کا نام دیدیا گیا۔
8 : بیلجیئم کا چہرہ بروجیز
دنیا کے پرامن ترین شہروں کی فہرست میں بیلجیئم کے چھوٹے سے لیکن انتہائی حسین شہر بروجیز کو آٹھواں نمبر دیاگیا ہے۔فہرست میں اسے دنیا کے عمدہ ترین شہروں میں سے ایک قرار دیاگیا ہے۔اسے یورپ کا سب سے زیادہ وزٹ کیا جانے والا شہر بھی کہتے ہیں۔شہر اپنے خوبصورت آرکیٹیکچر اور مناظر کے باعث بہت پرکشش ہے۔
بروجیز بیلجیئم کے فلیمش خطے میں واقع صوبے مغربی فلانڈرز کا صدر مقام اور سب سے بڑا شہر ہے۔یہ ملک کے شمال مغرب میں واقع ہے۔بیلجیم کا چہرہ کہلانے والے اس شہر کا سٹی سینٹر یونیسکو کی عالمی اثاثوں کی فہرست کا حصہ بھی ہے۔یہ اوول کی شکل میں ہے اور اس کا رقبہ چار سو تیس ہیکٹر ہے۔ شہر کا کل رقبہ چودہ ہزار ہیکٹر ہے۔ شہر کی ٹوٹل آبادی ایک لاکھ سترہ ہزار ہے جس میں بیس ہزار شہر کے تاریخی مرکز میں رہتے ہیں۔یہ شہر خاصا چھوٹا ہے اور اسے کم وقت میں مکمل طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
9: گولڈن گیٹ برج فیم سان فرانسسکو
امریکی ریاست کیلی فورنیا کا شہر سان فرانسسکو بھی دنیا کے پرامن ترین شہروں میں شامل ہے۔یہ سیر وسیاحت کے لیے بہترین انتخاب ہے۔لوگ اکثر اپنی تعطیلات گذارنے یہاں آتے ہیں۔کیبل کار پر سفر ، فیری مارکیٹ سے تازہ پھلوں سبزیوں کی خریداری، گولڈن گیٹ پارک میں چہل قدمی اور کشتی کے ذریعے جزیرے الکاٹراز کا سفر اس شہر کے پرکشش تحفے ہیں۔گوگل اور فیس بک کے صدر دفاتر بھی اسی شہر میں ہیں۔یہ کیلی فورنیا کا چھوٹا سا لیکن پرسکون شہر ہے۔سان فرانسسکو شمالی کیلی فورنیا اور سان فرانسسکو بے ایریا کا سرکردہ تجارتی اور ثقافتی مرکز بھی ہے۔
اس شہر کا زمینی رقبہ پچاس مربع میل سے زائد ہے اور یہاں پر فی مربع میل میں سترہ ہزار افراد آباد ہیں۔سان فرانسسکو کیلی فورنیا ریاست کے علاوہ امریکا کے بھی گنجان ترین شہروں میں شامل ہے لیکن اس کے باوجود شہرمیں بدامنی اور جرائم کا گراف بہت کم ہے۔اس شہر کی خوبصورتی اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا کی سیر کو جانے والے افراد سان فرانسسکو ضرور جاتے ہیں۔
10:برفانی کوہ قاف اوسلو
ناروے کا دارالحکومت یہ شہر صحیح معنوں میں امن کا شہر ہے۔سیر و سیاحت کے شوقین افراد اگر مالی سکت رکھتے ہیں تو انھیں دنیا کے دیگر شہروں کے ساتھ ساتھ اوسلو کا وزٹ بھی لازمی طور پر کرنا چاہیے کیونکہ یہاں پر دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے اور بیزار ہونے کے لیے کچھ بھی نہیں۔
یہ ناروے کا گنجان ترین شہر بھی ہے۔اوسلو شہر کا سنگ بنیاد 1048ء میں شاہ ہیرالڈ سوئم نے رکھا۔1070ء میں شہر کو ضلع کا درجہ دیدیا گیا جبکہ 1300ء میں ہاکون پنجم کے دور میں اسے دارالحکومت بنادیا گیا۔ناروے کی ڈنمارک اور سویڈن کے ساتھ پرسنل یونین کے زمانے میں اوسلو کا اثر ورسوخ کم ہوگیا۔1624ء میں یہ شہر آتشزدگی کے باعث تباہ ہوگیا جس کے بعد اسے آکرشس قلعے کے قریب منتقل کردیا گیا۔ یہ شاہ کرسٹیان کا دور تھا جس کی وجہ سے شہر کا نام کرسٹیانیا رکھ دیا گیا ۔ 1925ء تک اس کا نام کرسٹیانیا ہی رہا لیکن پھر دوبارہ نارویجین زبان کے مطابق اوسلو نام بحال کردیا گیا۔
اوسلو ناروے کا اقتصادی اور حکومتی مرکز بھی ہے۔ ناروے کی تجارت ، بینکنگ ، صنعت اور جہاز رانی کا ہب بھی یہی شہرہے۔یورپ میں بحری صنعت اور بحری تجارت میں اس کی اہمیت بھی مسلمہ ہے۔اوسلو کے مشہور مقامات میں شاہی محل ، عظیم الشان پارکس،قلعہ ، سٹی ہال اور اوسلو اوپیرا ہائوس شامل ہیں۔