نقارخانے میں نثار علی خاں کا واویلا
پاکستان میں نفرتوں کی آگ کون بھڑکا رہا ہے؟ دہشت گردوں کی ڈوریاں کون ہلا رہا ہے؟
پاکستان میں نفرتوں کی آگ کون بھڑکا رہا ہے؟ دہشت گردوں کی ڈوریاں کون ہلا رہا ہے؟ وہ بے چہرہ اور بے نام دشمن کون ہے؟ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ہم خاموش تھے۔ حقیقت ہے کہ ہمارے اقتدار کے ایوان بھارت سے امن کے دل ربا نغموں سے گونج رہے ہیں۔ حکمرانوں کا ایسے لوگوں نے محاصرہ کر رکھا ہے جو بھارت کے گن گاتے ہیں۔ اس نقارخانے چوہدری نثار علی خاں کی صدا کون سنے گا؟
گزشتہ ہفتے مدیران کرام کے ظہرانے میں پاک بھارت اعتماد سازی کے عمل اور خارجہ سیکریٹریوں کی سطح پر مذاکرات کے دوبارہ آغاز پر ایک صاحب وزیر اعظم نواز شریف سے براہ راست سوال بھی کرتے رہے حالانکہ پاکستان میں دہشت گردی میں بھارت کی سازشوں کے بارے میں انھیں سب کچھ معلوم ہے۔
بھلا ہو چوہدری نثارعلی خاں کا، جنہوں نے واشنگٹن میں واشگاف انداز میں اعلان کیا کہ جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کی آگ کو کون بھڑکا رہا ہے اور کسے خوشحال پاکستان ایک آنکھ نہیں بھاتا، وہ کوئی اور نہیں بھارت ہے، جس کی اشرافیہ نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ اگرچہ اٹل بہاری واجپائی نے مینار پاکستان کے سائے تلے پاکستان کو تسلیم کرنے کا علامتی اظہار کیا تھا لیکن کشمیر سمیت ایک درجن سے زائد تصفیہ طلب مسائل پر پیش قدمی نہیں کر سکے تھے۔
تقسیم کے بعد پاکستان کو اثاثوں کی منصفانہ تقسیم میں رکاوٹیں ڈالنے پر گاندھی جی نے مرن برت رکھ لیا تو ایک انتہا پسند ہندو نوجوان نے گاندھی جی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ گاندھی جی کا واحد جرم پاکستان کو اثاثوں کی تقسیم اور فراہمی کے لیے مرن برت رکھنا تھا۔ افسوس کہ ہمارے سرکاری تاریخ دانوں، نہیں جناب تاریخ سازوں نے جو قصے کہانیاں تراشے ہیں ان میں مہاتما گاندھی کے پاکستان کے لیے مرن بھرت کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
بھارت کے پہلے منتخب وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کا خبط عظمت اور شخصی جاہ و جلال تو1962ء میں چین کے ساتھ چند روزہ لڑائی میں عبرت ناک شکست کے بعد برف پوش ہمالیہ کی کھائیوں میں کہیں دفن ہو گیا تھا جس کے بعد چین سے شکست کے داغ دھونے کے لیے پاکستان کو ہدف بنانے کی قومی پالیسی تشکیل دی گئی جو اب دہائیوں بعد برگ و بار لا رہی ہے۔
یہ نہرو ہی تھے جنہوں نے پاکستان سے تصفیہ طلب مسائل کو حل نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور'دیکھو اور انتظارکرو' کی حکمت عملی اپنائی۔ ان کے مشیروں کا خیال تھا کہ پاکستان موجودہ حالات میں زیادہ دیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ نہرو تو چین سے شکست کا داغ ندامت لیے زیادہ دن نہ جی سکے لیکن انھوں نے بنگالی قوم پرستی کو بھڑکانے کے لیے ''آپریشن لوٹس'' شروع کرا دیا تھا ۔
لال بہادر شاستری کو 1965ء کی جنگ سے پہلے مشورہ دیاگیا تھا کہ جنگ کو مغربی محاذ تک محدود رکھا جائے تا کہ بنگالیوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھایا جا سکے، ادھر ہم نے مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کرنے کا فلسفہ پیش کر دیا ۔ 1965ء کی جنگ کسی فیصلہ کن نتیجے کے بغیر ختم ہو گئی لیکن بھارتی چال بازوں نے آتش بجاں بنگالیوں کے ذہنوں میں راسخ کر دیا کہ مستقبل میں کسی جنگ کی صورت میں وہ قطعی طور پر بھارت کے رحم و کرم پر ہوں گے اور مغربی بازو ان کے دفاع کی صلاحیت نہیں رکھتا اور یہ حقیقت 1971ء کی لڑائی میں ثابت ہو گئی۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھارتی قیادت نے نئے پاکستان کو اپنے اندرونی حالات میں الجھائے رکھنے کی پالیسی اپنائے رکھی، بھٹو دور کی بلوچ بغاوت، سندھو دیش کی تحریک اور آزاد پختونستان ان سب قضیوںاور تنازعوں کے تمام سرے اور ڈانڈے دہلی سرکار سے جا ملتے تھے۔ اس خفیہ لڑائی کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے کوششیں اور کاوشیں جاری تھیں کہ جنرل ضیاء کا مارشل لا نافذ ہوگیا۔
بھارت شاید اس وقت بھی حالات کو اپنے حق میں ڈھالنے کے لیے سر گرم ہوتا لیکن ہمیں غیبی مدد کچھ اس طرح ملی کہ آنجہانی سوویت یونین کی سرخ فوج افغانستان میں 'ترقی اور خوشحالی' کے عمل کونچلی سطح تک پہنچانے کے لیے کابل پہنچ گئی پھر پاکستان اس عالمی جنگ کے لیے صف اول کی ریاست بن گیا، ساری دنیا سے اسلحے کے ڈھیر لگا دیے گئے، پھر مجاہدین گروہ در گروہ ڈیورنڈ لائن سے ملحقہ آزاد قبائلی علاقے میں جمع ہونا شروع ہوگئے۔
اس دور میں پاکستان سی آئی اے کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تھا۔ ان حالات میں بھارتی پالیسی ساز اپنی سازشوں کے کیا جال بچھاتے، وہ دم سادھ کر کسی اچھے وقت کے انتظار میں کابل کو مرکز نگاہ بنا کر بیٹھ گئے۔جہاد کے مقدس نام پر یہ فساد ایک دہائی تک جاری رہا۔ مطلوبہ مقاصد کے حصول کے بعد امریکیوں نے اسی جہاد کو فساد قرار دے دیا۔ جنرل ضیاء الحق اپنے ساتھیوں سمیت فضا میں بھسم ہوئے، پاکستان کا صف اول والا کردار ختم ہوا تو بھارت ایک بار پھر میدان میں آگیا۔
یہ جناب نواز شریف تھے جنہوں نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں تمام تر عالمی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے ایٹمی دھماکے کرکے جنوبی ایشیا میں روایتی جنگی عدم توازن کو ایٹمی توازن کے نئے فلسفے میں متشکل اور مجسم کر دکھایا جس کے بعد روایتی جنگ کے ذریعے پاکستان کی شکست و ریخت کے بھارتی خواب حقائق کی کڑی دھوپ میں تحلیل ہو گئے جس کے بعد بھارتی حکمت سازوں کے پاکستان کو اندرونی مسائل میں الجھا کر اپنے قدموں پر گرانے کی از کار رفتہ حکمت عملی پر از سر نو عمل شروع کر دیا۔
دُنیا کی آبادی کا چوتھا حصہ جنوبی ایشیا میں بستا ہے، اس لیے مسائل کے حل کے لیے ایٹمی جنگ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، اب بھارتی چالباز دوبارہ پاکستان کو اندرونی مسائل میں الجھا کر بے دم کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ بلوچستان کی بغاوت اور باغیوں کے پس پردہ بھارتی ہاتھ کے ناقابل تردید ثبوت امریکا سمیت مختلف عالمی فورموں پر پیش کر دیے گئے ہیں۔ پاکستانی طالبان میں بھارتی دراندازی مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک خاص مذہبی مکتبہ فکر سے بھارتی قیادت کا ایک صدی گہرا تعلق ہماری تاریخ کا ناقابل تردید حصہ ہے۔
ہماری نام نہاد سول سوسائٹی پاکستانی طالبان کے خلاف ضرب عضب کی حمایت کرتی ہے لیکن پاکستان کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے بلوچ باغیوں سے مذاکرات اور بامقصد مذاکرات کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ بھی المناک حقیقت ہے کہ پنجاب کے شہری علاقوں کو بھارتیوں نے مسلسل اور منظم ثقافتی یلغارکر کے مسخر کر لیا ہے۔ لاہور میں ان کے ہمدرد امن کے نغمے گا رہے ہیں، ایسے چوہدری نثارعلی خان کا واویلا نگار خانے میں کون سنے گا؟