انتہا پسندی اور امریکا

دہشت گردوں کے خلاف جو یکجہتی اسلامی دنیا میں سامنے آئی ہے وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔


Zamrad Naqvi February 23, 2015
www.facebook./shah Naqvi

امریکی صدر بارک اوباما نے چند دن پیشتر وہائٹ ہاؤس میں انسداد دہشت گردی کانفرنس سے خطاب کیا۔ یہ اپنی نوعیت کی انتہائی اہم کانفرنس تھی جس میں دہشت گردوں، خاص طور پر عراق و شام میں داعش، کے خلاف فیصلہ کن اقدامات پر غور کیا گیا جن پر عملدرآمد بہت جلد شروع ہو جائے گا۔

یہ کانفرنس داعش کے خلاف اقدامات کے حوالے سے دنیا کو، خاص طور پر اسلامی دنیا کو، اعتماد میں لینے کے لیے تھی۔ اردن کے پائلٹ کو زندہ جلا دینے کے واقعہ نے، جس کی ویڈیو داعش نے جاری کی، پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ مسلمان ہوں یا کسی بھی مذہب رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے سب نے اس انسانیت سوز عمل پر اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے داعش کے خلاف یکجہتی کا پیغام دیا۔

دہشت گردوں کے خلاف جو یکجہتی اسلامی دنیا میں سامنے آئی ہے وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ حتیٰ عرب بادشاہتیں بھی اس کے خلاف متحد ہو گئی ہیں۔ داعش کی سرپرستی اس لیے کی گئی تھی کہ شام میں بشارالاسد کا تختہ الٹ دے۔ تختہ تو کیا الٹنا تھا خود عرب بادشاہتیں خطرے سے دوچار ہو گئیں۔

امریکی صدر نے آرمی پبلک اسکول پشاور میں بے گناہ بچوں کے قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے کئی عشروں سے پاکستانیوں کے خلاف جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ ہمیں پشاور میں معصوم بچوں کا قتل عام کرنے کے خلاف متحد رہنا ہوگا۔ مغرب اور اسلام میں جنگ کا تاثر سفید جھوٹ ہے۔ قوموں کو فرقہ وارانہ اختلافات ختم کرنا ہوں گے۔ دہشت گرد ایک ارب مسلمانوں کی نمایندگی نہیں کرتے' خود کو مذہبی رہنما اور جنگجو کہنے والے صرف دہشت گرد ہیں۔

مشرق وسطیٰ کے رہنما پراکسی جنگوں کو روک دیں اور پرتشدد انتہا پسندی کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔ شیعہ سنی اختلافات صرف اسی صورت ختم ہوں گے جب بڑی طاقتیں بات چیت کریں گی۔ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی مالی امداد بڑا خطرہ ہے۔ اپنی تقریر میں امریکی صدر اوباما نے بڑے اچھے خیالات کا اظہار کیا لیکن ماضی کے شواہد اس کی تردید کرتے ہیں کہ طالبان القاعدہ داعش جیسی تنظیموں کی تخلیق اور سرپرستی کرنے والا امریکا ہی تھا۔

بہرحال اس وقت تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ دیر آید درست آید۔ تین سے زائد دہائیوں کی بے پناہ تباہی و بربادی قتل و غارت کے بعد سیدھے رستے پر آ جانا خوش آیند ہے۔ لیکن آنے والا وقت ہی یہ ثابت کرے گا کہ امریکا کی دہشت گردوں کے حوالے سے سوچ واقعی بدل گئی ہے یا نہیں۔

انتہا پسند مسلم دنیا کی آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں لیکن انسانوں کو زندہ جلانا۔ کٹے ہوئے سروں کو جلانا اور سروں سے کھیلنا جیسے وحشیانہ عمل سے لوگ دہشت زدہ ہوتے ہوئے ان کا نظریہ قبول کر لیں۔ یہ ہے ان کا طریقہ واردات۔ مقصد ان کا ریاست پر قبضہ کرنا ہے۔ سرحدوں کو بے معنی کرتی ہوئی گلوبلائزیشن صرف ان قوتوں ہی کا کام ہے جو ترقی میں سائنس و ٹیکنالوجی کے آسمان پر پہنچ چکی ہوں نہ کہ ان دہشت گردوں کا جو اپنے دشمنوں سے لڑنے کے لیے ان کے ایجاد کردہ اسلحے کے محتاج ہوں۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں زیرو اور چلے ہیں دنیا کو فتح کرنے۔

افغانستان کے حوالے سے حقائق یہ ہیں کہ جب وہاں امریکی جہاد ہوا تو پوری دنیا سے جہادی وہاں آئے نہیں تھے' لائے گئے تھے اور لانے والے امریکا اسرائیل اور خطے کی طاقتیں تھیں۔ جنہوں نے انھیں اربوں ڈالر کی نہ صرف مالی عسکری امداد دی بلکہ تحفظ بھی فراہم کیا۔ امریکا یورپی ملکوں سے جو شدت پسندی عراق شام میں داعش کا دست و بازو بن رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ان ملکوں میں برسوں پہلے آباد ہو گئے تھے اور یہی وہ مذہبی جنونی ہیں جنہوں نے مغرب میں آباد کروڑوں مسلمانوں کی بقا کو خطرے میں ڈالتے ہوئے ان کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں۔

اب ایک لطیفہ ہو جائے۔ گزشتہ دنوں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی' وہ گزشتہ برس عراق گئے'وہاں ان کے ایک اسلامی اسکالر سے ملاقات ہوئی جو خود کو ابوبکر البغدادی کا استاد کہتے ہیں' انھوں نے بتایا کہ بغدادی بس درمیانے درجے کا طالب علم تھا۔ان عراقی صاحب نے بتایا کہ کسی نے بغدادی سے پوچھا کہ آپ کے استاد محترم' آپ کے اعلان خلافت سے متفق نہیں۔ آپ کے ہاں آپ کی بیعت کرنے والے کی ایک ہی سزا ہے کہ اسے ذبح کر دیا جائے۔ اگروہ آپ کے ہاتھ لگ گئے تو آپ انھیں بھی ذبح کریں گے؟ بغدادی نے جواب دیا، نہیں میں خود تو ذبح نہیں کروں گا لیکن میرے ساتھیوں میں سے کسی نے انھیں ذبح کیا تو اسے منع نہیں کروں گا۔ممکن ہے ایسا نہ ہوا ہو لیکن بات مزے دار ہے۔

٭...شام کے معاملات مارچ مئی میں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں