انسانی علاج کے لیے رگوں میں دوڑنے والے جدید ترین روبوٹس تیار

نینو روبوٹس رگوں میں داخل ہوکر جسم کے بیماری سے متاثرہ حصے کی مکمل آگاہی فراہم کریں گے


سہیل یوسف February 25, 2015
نینو روبوٹس کو امراض قلب کے پیچیدہ معاملات میں بھی استعمال کیا جاسکے گا، ماہرین،فوٹو:فائل

اگر کوئی آپ سے کہے کہ پورا ڈاکٹر نگل جائیے یا ایک مکمل دواخانہ گلوکوز کی طرح اپنے خون میں اُتار لیجئے تو آپ اس کی دماغی حالت پر شک ہی کریں گے لیکن یہ حقیقیت ہے کہ اب ایک مائیکروچپ پر پورا کلینک سمودیا گیا ہے جو بدن میں جاکر عین ضرورت کے مقام پر دوا خارج کرسکتا ہے اور اسی طرح روبوٹ خون کی رگوں میں جاکر بدن کے اندر متاثرہ حصے کی مرمت کرسکتے ہیں۔

ان مشینوں کی تیاری کا خواب نینوٹیکنالوجی نے پورا کیا جس میں ایک میٹر کے اربویں حصے تک کے مفید آلات تیار کیے جاتے ہیں، اس کا دوسرا نام مائیکروالیکٹرانکس میکینکل سسٹمز ( میمس) بھی ہے، پہلے ان ٹیکنالوجی کے ذریعے کچھ نمائشی اشیا بھی بنائی گئیں مثلاً دنیا کی سب سے چھوٹی تحریر یا مختصر ترین انجن وغیرہ ۔ پھر ان آلات پر اعتراض کیا گیا کہ وہ گھس کر ٹوٹ جاتے ہیں یا پھر خاص حالات میں ناکارہ ہوکر کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

لیکن اب سائنسی ایجادات کا سلسلہ اپنے بام عروج پر پہنچ چکا ہے اورانسان کے دماغ اوردل تک دوا کی درست مقدار کو ٹھیک جگہ پہنچانے والے نینو سرجنز کی ایک فوج تیار کی جاچکی ہے کیوں کہ اب سوئزرلینڈ میں سوئس فیڈرل انسی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے انجینئر بریڈ نیلسن اور ان کے ساتھی 10 سال سے ایسی مشینوں پر کام کررہے تھے اور انہوں نے ایسے خوردبینی روبوٹ بنالیے ہیں جو بدن میں داخل کیے جاسکتے ہیں اور انسانی جسم کے باہر سے انہیں مقناطیسی میدان سے کنٹرول کیا جاسکے گا۔

1959 میں نوبل انعام یافتہ ماہرِطبیعات رچرڈ پی فن مین نے کہا تھا کہ ''ایک دن آئے گا جب آپ پورا سرجن نگل سکیں گے''، جب کہ انہوں نے نینوٹیکنالوجی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ خون کی نالیوں میں مشینی سرجن تیرکر دل تک جائے گا اور وہاں جا ئزہ لے گا ، پھروہ اپنی ننھی چھڑی سے ناکارہ والوو کو نکال باہر کرے گا۔

نیلسن کے ننھے روبوٹس اگرچہ چھوٹے نشتر سے تو لیس نہیں لیکن ان میں ایک خاصیت یہ ہے کہ اسے ای کولائی بیکٹیریا کی شکل پر بنایا گیا ہے جس کے آخر میں بیکٹیریا کی طرح ایک ''دم'' لگی ہوتی ہے جو اسے تیرنے اور آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔ نیلسن کے مطابق بیکٹیریا میں موٹر نصب کرنا تھی اور مناسب ٹیکنالوجی نہ ہونے سے فی الحال یہ ممکن نہیں لیکن روبوٹ کی دُم پر بیرونی مقناطیسی میدان استعمال کرکے اسے رگوں میں آگے کی جانب دوڑایا جاسکتا ہے۔ اس تجربے سے متعلق اچھی خبر یہ ہے کہ ان نینوروبوٹس کو جسم کے اندر آنکھ میں بھرے مائع کے اندر آزمایا گیا ہے تاکہ یہ آنکھ کے پردے تک جاکر بڑھاپے میں اندھے پن کی وجہ بننے والے ایک عام مرض میں مدد دے سکے۔

ماہرین ان روبوٹس سےمتعلق اس بات سے بھی پُرامید ہیں کہ انہیں امراضِ قلب میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور 2 سے 3 ملی میٹر موٹی ایک ڈور کے ذریعے اسے دل کے مخصوص حصے تک پہنچایا جاسکتا ہے، اسی طرح انجیوگرافی میں استعمال ہونے والے تار کے ذریعے دھکیل کر ان روبوٹس کو آنتوں ، دماغ اور بدن میں مشکل جگہوں تک پہنچانے کی راہ بھی ہموار ہوئی ہے۔

انسانی جسم میں کام کرنے والے ان روبوٹس کو ایک انتہائی صاف ستھرے کمرے میں اسی طرح گردوغبار اور جراثیم سے پاک کیا جاتا ہے جس طرح مائیکروچپ کو دنیا کے انتہائی صاف لیبارٹری میں تیار کیا جاتا ہے۔ ماہرین نے امید ظاہر کی ہے کہ نینوٹیکنالوجی کینسر کے علاج کا سب سے مؤثر ذریعہ ثابت ہوگی اور ان ننھے منے ڈاکٹر روبوٹس کو انسانی جسم میں داخل کرکے کسی جوائے اسٹک کی طرح کنٹرول کرنا ممکن ہوگا تاہم ان روبوٹس کو درست جگہ بھیجنے اور ٹھیک سے کام کرنے کے لیے سرجنوں اور ماہرین کو خصوصی تربیت درکار ہوگی لیکن یہ ٹیکنالوجی استعمال کے لیے تیار ہے اور اسی سال اس کے انسانوں پر تجربات کئے جائیں گے۔

بدن کے نینو مخبر:

انسانی جسم کے ان مخبروں سے صرف یہی نہیں بلکہ ان گنت کاموں کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے یہ پانی اور ماحول کو صاف کرسکتے ہیں کیونکہ یہ اتنے چھوٹے ہوں گے کہ ایک چمچے میں لاکھوں کی تعداد میں سماجائیں اور انہیں گندے پانی میں شامل کرکے پانی کو مالیکیولر سطح پر صاف کیا جاسکتا ہے۔ حال ہی میں بعض ماہرین نے نینوروبوٹس کے ذریعے تیل کے ذرات صاف کرنے کا تجربہ کیا ہے جس کے بعد تیل کے بہہ جانے کی صورت میں نینوٹیکنالوجی سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔

میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہر نکولس نیگروپونٹے نینو روبوٹس کا ایک الگ استعمال دیکھتے ہیں ان کےمطابق مستقبل میں ہزاروں نینوروبوٹس انسانی بدن میں رہیں گے اور براہِ راست جسمانی معلومات ہمیں بھیجتے رہیں گے کیونکہ یہ پورے بدن کا چکر لگاتے رہیں گے اور ہر اعضا سے گزر کر اس کی خبر دے سکیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں