اب و ہ دن دور نہیں
کوئی بھی اس کہانی کا انجام نہیں جانتا یہ کہانی جو آپ کی زندگی کی کہانی ہے
کیرولین نے کہا ہے ''کوئی بھی اس کہانی کا انجام نہیں جانتا یہ کہانی جو آپ کی زندگی کی کہانی ہے لیکن اس کا انجام کیا ہے اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں اور کیسے شب و روز گزار رہے ہیں۔'' فرانز فینن بیسویں صدی کا ایک ایسا نفسیاتی معالج، فلاسفر اور سرگرم سیاسی کارکن تھا جس کی ذات سے ایک بڑی تعداد میں سیاسی لیڈروں اور انقلابی تحریکوں نے استفادہ کرتے ہوئے اپنے علاقوں اور ملکوں میں انقلاب کی آبیا ری کی ہے۔
اس کی کتاب ''زمین کے ستائے ہوئے'' یا ''افتادگان خاک'' تمام دنیا کے انقلابیوں کے لیے بائبل کا درجہ رکھتی ہے یہ کتاب 18 زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے صرف انگریزی زبان میں اس کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ اس کتاب کا دیباچہ مشہور فلسفی ژاں پال سارتر نے لکھا ہے۔
فینن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہم مقامی آبادی کو ہر شہر میں دو حصوں میں تقسیم کیا ہوا دیکھتے ہیں اول! ایک ایسا علاقہ جو امیر کامیاب اور بارسو خ لوگوں کی رہائش گاہ ہوتی ہے جہاں خود غیر ملکی حاکم بھی رہائش پذیر ہوتے ہیں دوم! غربا مجبور اور محکوم مقامی لوگوں پر مشتمل خستہ حال آبادی۔ ان حالات میں معاشی بنیادوں پر انسانوں کی طبقاتی تقسیم از خود نسلی مسائل کو جنم دیتی ہے۔
فینن کا خیال ہے کہ ظالم اپنے جبر کو قابل قبول بنانے کے لیے اکثرمذہب کا سہارا لیتا ہے خدا کے نام پر نسلی امتیاز کو قدرت کا قانون کہہ کر وہ اپنی خود ساختہ فوقیت کو قانونی رنگ پہنا لیتا ہے اور غریب عوام کو یہ چکمہ دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ خدا دنیاوی آسائشوں کو پسند نہیں کرتا اور اس کی رضا یہی ہے کہ جنت میں غریبوں کا مستقل ٹھکانہ ہو۔
لیکن انقلابی دنیا میں رہتے ہوئے جنت کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں وہ کسی تصوراتی جنت کی بجائے حقیقت کا سامنا کرنا چاہتے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہنے کے بجائے زمین کے دکھ اور سکھ کو ترجیح دیتے ہیں۔ فینن ہمیں بتاتا ہے کہ نوآبادیاتی طاقتیں ایسی زبان استعمال کرتی ہیں جس میں مقامی لوگ جانور، درندوں اور غیرمہذب افراد کی طرح جانے پہنچانے جاتے ہیں وہ مقامی لوگوں کے لباس، روایات اور مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مقامی آبادی کی تضحیک کی جائے اور انھیں غیر انسانی ثابت کیا جائے۔
نوآبادیاتی طاقتیں ایسا روپ دھار لیتی ہیں جیسے وہ مقامی لوگوں کو مذہب یا جمہوریت کے نام پر ان کی سیاسی اور روحانی اصلاح کا بیٹرا اٹھائے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ رویہ مقامی لوگوں کے لیے ناراضی اور جھنجھلاہٹ کا سبب بنتا ہے اور پھر یہی ناراضی بتدریج نفرت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور پھر جب وہ آزادی کی جدوجہد میں شریک ہوتے ہیں تو یہی نفرت بدلے کی آگ میں بہہ نکلتی ہے اور پھر کئی دہائیوں اور صدیوں سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار لیتا ہے اور اس آگ میں زبان، کلچر، مذہب غرض یہ کہ طاقت کے نام پر تھوپی گئی ہر روایت بھسم ہو جاتی ہے۔
اس طرح عوام ان زیادتیوں کا حساب چکتا کر دیتے ہیں۔ فینن کا خیال ہے کہ مقامی لوگوں کی یہ بغاوت بتدریج انقلاب کی شکل اختیارکر لیتی ہے اور سیاسی شعور کے ادراک کے ساتھ ساتھ وہ اپنے علاقے اور عوام کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں وہ ایک خوش آیند مستقبل کے لیے اپنے آج کو داؤ پر لگا دیتے ہیں کیونکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عدل و انصاف پر مبنی سماج کا قیام چاہتے ہیں۔
مقامی بستیوں کے مجبور و محکوم لوگ جن کی ہڈیوں میں غصے کا لاوا دہک رہا ہوتا ہے سب سے پہلے اپنے ہی لوگوں پر اپنے غصے اور برتری کی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں یہ وہ وقت ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کی سرپھٹول میں مشغول ہوتے ہیں۔ فینن اس جھنجھلاہٹ اور غصے کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیں کہ کس طرح یہ نفرت جذباتی اور سماجی طور پر داخلی رخ اختیار کر لیتی ہے اور بالاخر جب یہ نفرت ظالم کے خلاف تشدد کی شکل اختیار کرتی ہے تو مظلوم اپنے منفی جذبات کے زیر اثر لا شعوری طور پر اس جلاد کا روپ دھار لیتا ہے جو کسی وقت ظالم کا حقیقی روپ تھا۔
مقامی باشندے دبے اور پسے ہوئے انسان ہوتے ہیں جن کا ایک ہی سپنا ہوتاہے کہ کسی طور وہ ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کریں۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان میں بھی وہی حالات پیدا ہو چکے ہیں جس کا ذکر فینن نے اپنی کتا ب میں کیا ہے۔ فرق صرف اتنا سا ہے کہ ہمار ے موجودہ حالات کے ذمے دار ہم خود ہی ہیں نہ کہ کوئی غیر ملکی نوآباد یاتی طاقت۔ کیا آج ہر عام پاکستانی کی ہڈیوں میں غصے کا لاوا نہیں پک رہا ہے۔
کیا آج ہر عام پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور ظلم کی وجہ سے نفرت کی آگ میں نہیں سلگ رہا ہے کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ کئی دہائیوں سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار چکا ہے کیا عام لوگ چھوٹے چوروں اور لٹیروں کے خلاف اپنی عدالت لگا کر انھیں سزائیں نہیں دے رہے ہیں۔ کیا 18 کروڑ عوام اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کا حساب چکتا کرنے کا نہیں سو چ رہے ہیں۔
کیا وہ طاقت کے زور پر تھوپی گئی ہر بوسیدہ روایت کو بھسم کرنے کا ارادہ نہیں کر رہے ہیں کیا پاکستان میں بہت جلد ایک نیا سورج نہیں اگنے والا ہے کیا نئے پاکستان کا جنم نہیں ہونے والا ہے معصوم انسانوں کا معاشی استحصال کر نے والو ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے والو ان کی زندگیوں میں زہر گھولنے والو ان کے آنگنوں میں ذلت بھرنے والو انھیں جنت کے نام پر بہلانے پھسلانے والو مذہب کی آڑ میں انھیںتقسیم کرنے والو انھیں بے وقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرنے والو معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے والو! کیا تم امید رکھتے ہو کہ جب معصوم لوگوں کی محصور آوازیں آزاد ہونگی تو وہ تمہاری شان میں قصیدے کہیں گی جب صدیوں سے سیے ہوئے ہونٹ کھلیں گے تو وہ تمہاری تعریف کریں گے جب ان کے سر جنہیں تم نے زمین تک جھکا رکھا تھا اٹھیں گے تو ان کی آنکھوں میں تحسین و آفرین کی شمعیں جلیں گی۔
جب عام لوگ اپنی جھکی ہوئی کمروں کو سیدھا کر کے کھڑے ہونگے اور تمہاری طرف دیکھیں گے تو تم ان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے شعلوں کو خود دیکھ لو گے تو پھر یاد رکھنا تمہیں پناہ کی کوئی جگہ نصیب نہیں ہو گی اور نہ ہی تمہیں معافی مل سکے گی۔ یہ بات بھی اچھی طرح سے یاد رکھنا کہ اب وہ دن دور نہیں ہے۔