دینی اور سیکولر قوتوں کے مابین کشمکش

سیکولرازم کا سب سے پہلا حملہ روایات اور اقدار پر ہوتا ہے


جبار قریشی February 26, 2015
[email protected]

HYDERABAD: پاکستان کے قیام کو نصف صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن اب تک یہ سوال حل طلب ہے کہ پاکستان کا نظام سیاست اسلامی ہونا چاہیے یا سیکولر ایک نہ ختم ہونے والی اس بحث کے سبب دینی اور سیکولر قوتوں کے درمیان ایک کشمکش جاری ہے۔ ہماری سیاست ان ہی دو دائروں میں گھوم رہی ہے۔ سیاست اور قانون کا چولی دامن کا ساتھ ہے اس تناظر میں قانون کا معاملہ بھی اس بحث مباحثے کا شکار ہے۔

دینی طبقات کے نزدیک سیکولرازم ایک لادینی نظریہ ہے۔ جو اپنے مزاج میں الہامی ہدایت کا حریف رہا ہے۔ کسی بھی معاشرے کی اپنی روایات اور اقدار ہوتی ہیں جس پر معاشرے کی عمارت تعمیر ہوتی ہے سیکولرازم کا سب سے پہلا حملہ روایات اور اقدار پر ہوتا ہے وہ جدیدیت اور ترقی کے نام پر اسے ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کوشش میں کامیابی کے بعد ہر شعبہ زندگی پر اپنی گرفت قائم کر لیتی ہے اس کا یہ تسلط انسان کو اس کی نفسانی خواہشات کا غلام بنا دیتا ہے۔

اس نظام میں قانون شکن کو گناہ کے بجائے سماجی جرم تصور کیا جاتا ہے جب قانون کو اس کے روحانی اور اخلاقی پس منظر سے کاٹ کر اس کا معاشرے پر اطلاق کیا جاتا ہے تو وہ اپنے معنی میں ایک میکانیکی مشق بن جاتا ہے وہ اپنے ماننے والوں سے قانون کی اطاعت کا مطالبہ تو کرتا ہے لیکن ان کے باطن کے دروازے پر دستک نہیں دیتا جس کے باعث معاشرہ اخلاقی اور روحانی طور پر بانجھ ہو جاتا ہے۔

دینی قوتوں کے نزدیک مذہب انسان کی فطری ضرورت ہے یہ معاشرے کی تشکیل، ترتیب، تعمیر میں کتنا کارآمد ہو سکتا ہے۔ اس کا انحصار اس کی تعلیمات کی سچائی پر ہے۔ اس حوالے سے دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے یہ زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

علمائے کرام کی سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان میں اسلامائزیشن کا پہلا اور بنیادی کام ''قرارداد مقاصد'' کی منظوری ہے۔ جس میں آئین میں یہ بات طے کر دی گئی ہے کہ عوام کے منتخب نمایندے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کے دائرے میں رہتے ہوئے اس ملک کا نظام چلائیں گے۔

اس قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد اسلام کو پاکستان کا سرکاری مذہب قرار دے دیا گیا اور اس کے ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے ذمے ملک میں رائج قوانین کو اسلامی ڈھانچے میں ڈھالنے کا کام سونپا گیا اور اس کے بعد اس حوالے سے متعدد اقدامات کیے گئے ان تمام کوششوں اور جدوجہد کے باوجود پاکستان میں مکمل اسلامی قوانین کا نفاذ نہ ہو سکا۔ کیوں۔ یہ وہ سوال ہے جو سیاست اور قانون کا طالب علم جاننا چاہتا ہے۔

دینی سیاسی حلقوں کے نزدیک پاکستان میں اسلامائزیشن کے عمل میں ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اجتماعی قیادت کی باگ ڈور جن عناصر کے ہاتھ میں ہے ان کے نزدیک موجودہ دور میں اسلامی قوانین قابل عمل نہیں ہیں ان کے نزدیک انگریزی قوانین ہی ہمارے مسائل کا حل ہیں اس لیے ضروری ہے کہ انھیں ہی اپنایا جائے اور ان کی پیروی کی جائے۔

اس کے علاوہ نوکر شاہی کا منفی رویہ، حکمرانوں میں قوت فیصلہ کی کمی، متعلقہ اداروں میں عدم تعاون اور ایک دوسرے سے لاتعلقی، سیاسی انارکی، دینی عناصر میں یک جہتی کا فقدان، عوام کی دلچسپی یہ وہ عوامل ہیں جس سے اسلامائزیشن کا عمل نہ صرف غیر اطمینان بخش رہا بلکہ اس لحاظ سے بھی ناکام رہا کہ اس کے معاشرے پر کوئی مثبت اثرات مرتب نہ ہو سکے۔ ان ادھورے اقدامات نے مستقبل قریب میں اسلامی نکتہ نظر سے کسی بڑی تبدیلی کے راستے کو بھی بند کر دیا۔ یہ وہ اسباب ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں اسلامائزیشن کا کام مکمل نہ ہو سکا۔

اس ضمن میں جب تک متعلقہ اداروں کا دائرہ کار سفارشات پیش کرنے تک محدود رکھا جائے گا اور انھیں قوانین پر عمل درآمد کا اختیار نہیں دیا جائے گا اس وقت تک صورتحال ایسی ہی رہے گی۔ سیکولر قوتیں اس حوالے سے اپنا ایک مختلف نقطہ نظر رکھتی ہیں ان کے نزدیک مذہبی قوانین کو خداتعالیٰ کا حکم قرار دے کر نافذ کیا جاتا ہے اس لیے اس میں اختلاف رائے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ انسان کے الہامی ہدایت کا پابند ہونے کی وجہ سے دوسروں سے سیکھنے کا عمل محدود ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ان قوانین کے نفاذ سے معاشرہ جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔

اسلامی قوانین کا علمی ذخیرہ جو فقہ کی صورت میں موجود ہے وہ صدیوں پہلے کے حالات کے تناظر میں مرتب کیا گیا ہے جو موجودہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس لیے اس کے عملی نفاذ میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ فقہ میں بھی اختلافات بہت زیادہ ہیں اس مسئلے کے باعث پہلے ہی ہمارے علما مساجد اور عوام تقسیم ہیں اسلامی قوانین کے نفاذ کی صورت میں فقہی اختلافات کو فروغ حاصل ہوتا ہے جو کسی طرح بھی معاشرے کے لیے مفید نہیں۔ جدید مسائل کے حل کے لیے اجتہاد کا جو تصور ہے اس میں بھی کڑی شرائط ہیں جس کے باعث جو تبدیلی آتی ہے وہ سطحی نوعیت کی ہوتی ہے۔

یہ وہ عوامل ہیں جن کے باعث پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ نہ ہو سکا۔ ایسے حالات میں سیکولرازم ہی ایک ایسا نظام ہے جو تمام مذاہب، رنگ و نسل، فرقے اور طبقات کو مساوی درجہ دیتا ہے اور یہ نظام تمام دنیا میں کامیابی کے ساتھ اپنا وجود جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ نظام مذہب کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ مذہب کو ریاستی امور سے دور رکھتا ہے اس کے لیے اس نظام سیاست کو لادینی قرار دینا درست نہیں۔

یہ ہے دونوں جانب کا نقطہ نظر۔ ایک نقطہ نظر لبرل قوتوں کا بھی ہے جن کے نزدیک دینی اور سیکولر قوتوں کے مابین باہمی کشمکش اور فکری ٹکراؤ میں نظریاتی نقطہ نظر کے ساتھ ذاتی اور گروہی مفادات بھی ہیں۔ پاکستان میں ماہرین قانون کی بڑی تعداد اسلام کے نظام قانون سے ناواقف ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت اسلامی قانون کے بجائے برٹش کامن لا کی بنیاد پر ہوئی ہے چنانچہ وہ اس نظام عدل کا حصہ ہیں ان کے معاشی مفادات، سماجی حیثیت اور مستقبل اسی نظام سے وابستہ ہے وہ اسلامی قانون کے ڈھانچے میں آسانی سے کھپ نہیں سکتے۔

کچھ اسی طرح کا اس کے برعکس معاملہ پرائیویٹ دینی مدارس اور اسلامی یونیورسٹی کے طلبا کے ساتھ ہے۔ جب وہ تعلیم مکمل کر کے اپنی عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو وہ موجودہ سیاسی اور قانونی نظام میں خود کو ایڈجسٹ نہیں کر پاتے۔

یہ وہ وجوہات ہیں جو دینی اور سیکولر قوتوں کے مابین باہمی کشمکش کا باعث ہیں۔ یہ ہیں مختلف نقطہ نظر کون درست ہے اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کر سکتے ہیں۔

میری ذاتی رائے میں جب کسی قوم کو دو مختلف نظام حیات میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے تو ان کے اندر دو طرح کے طرز حیات کی کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔ جس سے ان کا نہ صرف جداگانہ تشخص ختم ہو جاتا ہے بلکہ ان کی زندگی مصائب میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ جب ہم معاشرے میں متصادم ذہنیت کے افراد میدان عمل میں اتاریں گے تو وہاں نہ صرف فکری انتشار ہو گا بلکہ تصادم بھی ہو گا۔ اس وقت ہمارا معاشرہ اسی صورتحال سے دوچار ہے۔ اس سے نجات کا ایک ہی حل ہے کہ ہمیں اب اپنی ایک سمت متعین کر لینی چاہیے۔

میرے نزدیک ہمارے بحران، بے سمتی اور فکری انتشار کا سب سے بڑا سبب ہمارا نظام تعلیم ہے جو کئی سمت میں تقسیم ہے جو مختلف طبقات کو جنم دے رہا ہے۔ اگر ہم اپنے نظام تعلیم کے بارے میں یکسو ہو جائیں اور قوم کی تربیت کا ایک نقطہ نظر اپنا لیں تو ہمارے سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور معاشرے میں مولانا اور مسٹر کی جو تفریق ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں