کرکٹ کے ڈکٹیٹر
کرکٹ بورڈ کے موجودہ ڈکٹیٹر کے زما نے میں جتنی جگ ہنسائی اور رسوائی پا کستان کے حصے میں آئی ا تنی کسی دور میں نہیں
پاکستانی عوام کسی لفظ کے معنی اور مفہوم سے واقف ہوں یا نہ ہوں لیکن لفظ ڈکٹیٹر کے مفہوم سے اچھی طرح واقف ہوں گے، یہ لفظ پاکستانی قوم کی ذہنوں میں اس طرح بیٹھا ہوا ہے کہ عوام جمہوریت اور ڈکٹیٹرشپ کا فرق بھی بھول چکے ہیں، چار دھا ئی سے زائد محیط عرصے نے عوام کے ذہن، مزاج اور رویوں کو اس انداز سے تبدیل کر دیا ہے کہ اب تو ہر ادارے، محکمے، تعلیم گاہوں حتیٰ کہ کھیل کے میدان بھی اس ذہنیت سے محفوظ نہیں رہے۔ پی سی بی نے اپنی ذا تی انا کی خاطر ایک ایسی ٹیم سلیکٹ کی جس کے کھلاڑی نا اہل ہیں۔
ٹیم پہلا میچ بھارت سے بری طرح ہار گئی اور اب کالی آندھی سے 150 رنز کی شرمناک شکست حاصل کی۔ یہ اسی ڈکٹیٹر ذہنیت کی ایک ادنیٰ مثال ہے اگر عوام کو ہر محکمے کے سربراہ میں ایک ڈکٹیٹر نظر آتا ہے تو ا س میں ان کیا قصور ہے اور جب تما م نظام پر آقائیت چھائی ہو تو پھر ایسے میں پاکستان کرکٹ بورڈ یا کرکٹرز کیسے اس کی چھپر چھاؤں سے بچ سکتا ہے۔ کرکٹ بورڈ کے موجودہ ڈکٹیٹر کے زما نے میں جتنی جگ ہنسائی اور رسوائی پا کستان کے حصے میں آئی اتنی کسی دور میں نہیں ہوئی۔ آپس کے اختلافات میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ٹیم کے ناقص انتخاب نے پاکستان کو ہروا دیا۔
کھلا ڑیو ں کے بابت غلط فیصلے، اقرباء پروری اور تعصب کی شاندار مثالیں قائم ہوئیں اور ہر گزرتے پل اس ریکارڈ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پی سی بی کے عہدیدار اپنی کرسی بچانے کے لیے ہر قسم کے حربے اپنانے کو تیار رہتے ہیں کبھی کسی کھلا ڑی پر تاحیات پابندی اور جرمانہ عائد کیا جا تا ہے پھر کچھ دنوں بعد اس کھلاڑی کے سارے گناہ اور جرائم معا ف کر کے ٹیم میں واپس لے لیا جاتا ہے۔ یہ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیا ہ کرنے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں اور رکھنا بھی چاہیے کہ ایک ڈکٹیٹر کو ہر آئین ہر قانون ہر پابندی کو توڑ نے کا مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے۔
وہ جب چا ہے این آر او جیسے قوانین بنا سکتا ہے اور جسے چاہیں عام کھلا ڑی کی طرح ٹیم میں شامل کریں یا بالکل نہ کر یں اور اگلے دورے پر جا نے والی ٹیم میں اسی کو کپتان بنا کر روانہ کر دیں۔ اپنی چین کے پلیئر لے کر آ جائیں اس ادارے کی اپنی مر ضی ہے کہ پہلے ٹیم کے کھلاڑیو ں کا اعلان کر ے یا کیپٹن کا اعلان کر ے پھر اس تمام جدوجہد اور محنت کا حکو مت سے کروڑوں روپے کا مشاہرہ حاصل کرنا بھی ان کا ذاتی حق ہے نیز بیرونی دوروں سے حاصل معاوضے اور مشاہرے اس کے علا وہ ہیں۔
پاکستان قرضوں اور دوسرں کے امداد سے پلنے والا غریب ملک ہے۔ پاکستان میں لا کھوں لوگ ایک روٹی اور سر چھپانے کے لیے سائبان نہ ہونے پر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وہاں ان نام نہاد کرکٹرز اور بورڈز کے ذ لتوں بھر ے دوروں پر کروڑوں روپے ضایع کیے جانا کسی طرح مناسب نہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ان دوروں میں آئے دن ایک نئی کہا نی اور اسکینڈل بورڈ اور کرکٹرز کے حوالے سے آنے کے بعد پاکستانیوں کے لیے خفت اور شرمندگی کا با عث بنتا ہے۔
پاکستان کرکٹ بو رڈ کی سفارش اور اقرباء پروری سے سلیکٹ کھلا ڑی جس قدر آج اسکینڈلز، کر پشن اور نااہلی کا شکار ہیں اتنا پہلے کبھی زبان زد عام نہ تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جو کھلاڑی جوئے میں ملوث نظر آئے اس کی جا ئیداد ضبط کر لی جائے اس کی زیادہ ذمے داری کرکٹ بورڈ پر عائد ہو تی ہے۔پہلے کھلا ڑی ملک کے لیے کھیلتے تھے ان کے پاس کھیلنے کا سامان، یورنیفارم تک ڈھنگ سے نہ ہو تا تھا وہ پھٹے ہو ئے جوتے اور اپنی جیب سے رقم خرچ کر کے اسٹیڈیم تک پہنچتے تھے ان میں ایک پرخلوص جذبہ وطن کی محبت کا ہوتا تھا۔
ان کو اگر لا کھوں روپے کی پیش کش کی جاتی تو بھی وہ دوسرے ملک کے لیے کھیلنے پر راضی نہ ہوتے مگر آج اس کھیل کو اس قدر کمرشلائز کر دیا گیا ہے کہ اس کھیل کے چارم اور پیسوں کی فراوانی، سہولتو ں نے کھلاڑیو ں کے دماغ ساتویں آسماں پر پہنچا دیے ہیں وہ ملک کے لیے نہیں بلکہ پیسوں کے لیے کھیلتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس کھیل میں سازش، اقربا پروری اور خود پسند ی نے لے لی ہے۔ ایک ایک کھلاڑی کے پا س ہزاروں گز پر بنگلے، قیمتی گاڑیاں، فارم ہاؤسزز موجود ہیں، کھلا ڑی اپنا سامان (کٹ بیگ ) تک خود نہیں اٹھاتے ملازم پہنچاتا ہے ان کی زندگی بڑ ے شاہانہ انداز سے گزر رہی ہے۔
اگر ماضی کی جانب نگا ہ دوڑائیں تو ماضی کے کرکٹر ز کو یاد کر کے ہم فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان جیسے تعلیم یا فتہ، ایماندار اور باصلاحیت کھلاڑی پا کستان کرکٹ ٹیم کا حصہ ر ہے ہیں۔
سینئرکھلاڑی سدا ٹیم کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ کھیل کے میدان میں اترنے والے ہر کھلا ڑی کو ایک نہ ایک دن آنے والے کھلاڑیوں کے لیے جگہ خالی کر نی پڑ تی ہے ، اسی طر ح کسی بھی محکمے میں اچھے کام کر نے والوں کا نام اس کی کارکردگی دوسروں کے لیے مشعل راہ رہتی ہے انھی روشن مثالوں میں ایک نام ائیر مارشل نور خان کا ہے۔
جنھوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ کے طور پر 1987ء میں ورلڈکپ کی میزبانی کی جن کی پرعزم، منظم اور اعلیٰ صلاحیتو ں کی وجہ سے پوری ٹیم یکسوئی سے کھیلی اور بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح توقیر ضیاء اور عارف عباسی جیسے شاندار نام بھی ہم فر اموش نہیں کر سکتے حقیقت یہ ہے کہ ان کی پہچان کرکٹ ہے۔
مگر افسوس اب کرکٹ بورڈ اپنے ہی ڈ کٹیٹر سر براہوں کے ہا تھوں یرغمال بنا جگ ہنسائی اور رسوائی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی کے کروڑوں رو پے ان سیلکٹرز، بورڈ اہلکاروں اور مینجرز کی تنخواہوں اور سہولتوں کی مد میں حاصل کرتے ہیں اگر ایک میچ میں کرکٹرز کی کارکردگی خراب تھی تو انھیں اس خرابی کو دور کرنے کے اقداما ت کیوں نہ کیے انھیں اس کا فورا احسا س کیوں نہ ہوا، کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ اس بحران کی ذمے داری بورڈ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ سزا کے حقدار یہ بھی ہیں کہ کروڑوں روپے مشاہرے لیتے رہے۔
اس وقت ٹیم کے ساتھ بورڈ بھی کئی محاذوں پر پاکستان کی سبکی کرا چکا ہے مگر شرمندہ نظر نہیں آتا۔ اب ضرورت اس با ت کی ہے کہ مفاد پرست اور انا پسند کھلاڑیوں کو فارغ کیا جائے۔ کھلاڑی اپنی رنجشیں اور کدورتیں ختم کریں صرف ملک کی خاطر کھیلیں۔ کپتان بننے سے کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہو جاتا کھیل کے میدان میں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس کی کارکردگی اچھی ہے۔