زندہ ہے شاید وہ مجھ میں کہیں

وہ تو اچھا ہوا شہاب صاحب زندہ نہیں ورنہ آج بھی ’’جمہوریت ڈی ریل‘‘ کرنے کا الزام عمران خان کی جگہ انہی کے سر ہونا تھا۔


اویس حفیظ February 26, 2015
میں نے کہا کہ میں شہابیہ کا شکار رہا ہوں کہ شہاب کی ذات ہی ایسی تھی۔ جو کوئی ایک بار اسے قریب سے دیکھ لیتا یا شہاب نامہ پڑھ لیتا وہ اس ’’مرض‘‘ میں مبتلا ہوجاتا۔ فوٹو: فائل

اگرچہ ٹھیک سے یاد نہیں مگر یہ اوائل عمری کی ہی کوئی گھڑی تھی جب میں ایک خطرناک مرض میں مبتلا ہوا۔ دنیا تو میری اس بیماری کو درخور اعتنا سمجھنے کیلئے بھی تیار نہیں تھی مگر مجھے پوری طرح ادراک ہوگیا کہ میں ''شہابیہ'' کا شکار ہوچکا ہوں۔

چونکہ میں اردو لکھنا، پڑھنا باقیوں کی نسبت کچھ جلد سیکھ گیا تھا اوراس ''ہنر'' کی دھاک بٹھانا بھی خوب جانتا تھا لہٰذا اسی وجہ سے پڑھنے کیلئے ہروقت کسی نئی چیز کی تلاش میں رہتا تھا۔ وہ دن بھی عام دنوں جیسا ہی تھا جب ابو کی کتابوں میں سے شہاب نامہ میرے ہاتھ لگی۔اگرچہ یہ ایک ضخیم کتاب تھی مگر مجھ پر بھی یہ دھن سوار تھی کہ میں اسے پڑھ کر ہی اگلا سانس لوں۔ کتاب کے ابتدائی اوراق پڑھتے ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ میں مجوزہ عمر سے بہت قبل اس کتاب کو پڑھ رہا ہوں مگر طلب کچھ ایسی شدید تھی کہ پڑھے بغیر بھی گزارہ نہیں ہو رہا تھا۔ اپنے کج فہم کے ساتھ میں نے اس کتاب کی ورق گردانی توکچھ عرصے میں مکمل کر لی مگر پہلے کچھ نہیں پڑالیکن اس کے باوجود میں شہابیہ کا شکار ہو چکا تھا، مجھ پر اس کی علامات وقتاً فوقتاًعیاں ہونے لگیں۔

مجھے آج یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ایک مدت تک میں شہاب کے سحر میں اسیر رہا ہوں شاید اس سحر کا اثر آج بھی میرے وجود میں کہیں خوابیدہ ہو مگر میں ایک ایسے شخص کی بات کا اعتبار کیونکر کروں جس کی خود نوشت کو ادبی حلقوں میں ''امکانی حد تک حقائق پر مبنی'' کے سابقے کے ساتھ یاد کیا جاتا ہو۔ ایک طرف تو یہ شخص ایسے دعوے کرے کہ ہم جیسے عقیدت مند اس کے نام سے تصوف کا ایک علیحدہ فرقہ بنانے پر مصر ہوجائیں اوردوسری طرف جب وہ ''نفسانے'' لکھے تو قلمکار کا نام پڑھے بغیر یہ اندازہ کرنا مشکل ہو جائے کہ یہ صریرِ خامہِ شہاب ہے کہ آوازِ قلمِ منٹو۔

اگرچہ میں اس حوالے سے منٹو کا ایک مداح ہوں کہ اُس نے اپنے قلم سے معاشرے کے رستے ناسوروں کو ٹٹول ٹٹول کر عیاں کیا مگر شہاب نے تو ایک سلوکی چوغہ پہن رکھا تھا اور ممتاز مفتی جیسے مریدین کے سہارے اُس نے ''بزرگی'' کے سارے شوق بھی پورے کیے تھے۔

''رونق جموی'' اور ''جعفر چمکوری'' کے نام سے شاعری کی ابتداء کرنے والا میدانِ سخن میں تو نام نہ کما سکا مگر اپنی خود نوشت سے ادیبوں کے شہیدوں میں ضرور شامل ہوگیا۔ پھرمجھے ایسے شخص کی بات کو ماننے میں تامل اس لئے بھی ہے کہ شہاب اپنی خود نوشت کے ابتدائیہ میں بقلم خود یہ دعویٰ کرتا ہے کہ
''اس کتاب کا پورا مسودہ ممتاز مفتی، بانو قدسیہ اور اشفاق احمد نے حرف بہ حرف پڑھ کر اپنی مثبت تجاویز سے قدم قدم پر رہنمائی فرمائی ہے''

اور اِس دعوے کی حقیقت یہ نکلی کہ ممتاز مفتی ''الکھ نگری'' میں یہ وضاحت پیش کرنے پر مجبور ہوجائیں کہ ''چھوٹا منہ، بڑی بات'' کا باب میں نے کتاب شائع ہونے کے بعد پڑھا۔ اگرچہ مفتی صاحب نے شہاب کے اس باب کو اپنے تئیں خوب تقویت دی اور دوسروں سے بھی یہ اُمید رکھی کہ وہ بھی شہاب کی اس بات کی تائید کریں گے مگر انہیں اپنے علاوہ کوئی ایسا نہیں مل سکا۔ اشفاق احمد صاحب نے اس حوالے سے مکمل چپ سادھے رکھی (یہ الگ بات ہے کہ ادباء کے اس گروہ کی زمزیں پہچاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اشفاق صاحب نے ''منچلے کا سودا'' شہاب کی زندگی کو ہی بنیاد بناکر لکھا)۔

بانو قدسیہ نے جب ''مرد ابریشم'' لکھی تو اس میں بھی اس طرح کی کسی بات کا ذکر نہ کیا گیا۔جس کا مفتی کو بھی خوب گلہ رہا کہ انہوں نے ''محرم راز'' ہونے کے باوجود خاموشی کی ردا کیوں اوڑھی۔ اسی باعث ایک مدت تک کتاب کے بارے میں یہ اعتراض کیا جاتا رہا کہ ''شہاب کی روحانی زندگی پر مشتمل باب، چھوٹا منہ بڑی بات شہاب کے قلم سے نہیں نکلا بلکہ یہ شہاب کے بعد کسی نے اس کتاب میں شامل کیا گیا''۔ (چونکہ شہاب کتاب کی تکمیل کے مراحل میں ہی جہان عدم سدھار گئے تھے لہٰذا اس دعوے کی تصدیق و تردید دونوں ہی ناممکن ہیں)۔

شہاب کی وفات کے بعد سرکاری ٹی وی کے ایک پروگرام میں جمیل الدین عالی سے شہاب کی ذات کی اس ''جہت'' کی بابت پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ شہاب کے اس ''رخ روحانی'' سے ناواقف تھے۔ البتہ اس حوالے سے کچھ دعوے ''بابا یحییٰ'' کے بھی ہیں مگر بابا یحییٰ کا تذکرہ شہاب کے ہاں نہیں ملتا۔ اب باقی بچے تو صرف وہی ایک مفتی صاحب ،جو ''لبیک'' میں بھی اپنی افسانہ نگاری کے جوہر دکھا چکے تھے۔ حتیٰ کہ خود شہاب ''عفت '' کے سامنے مفتی کی تعریف اس طرح کرتا ہے کہ
''وہ دیدہ و دانستہ عقیدے سے بھاگتا اور عقیدے کا روگ پالتا ہے ، اس کی کسی بات پر دھیان نہ دو''

تو پھر شہاب کے سلسلہ شہابیہ کا کیا بنے گا؟ ہم ایسوں کا کیا ہوگا جو خود کو اس میں بیعت متصور کیے ہوئے ہیں۔

سوری شہاب صاحب! آپ بڑے آدمی تھے، ہوں گے مگر۔۔۔

شاید ہم آپ کے مزاج کے نہیں

یا شاید

آپ ہمارے مزاج کے نہیں کہ
ایک شخص سالہا سال ایوان صدر میں مقیم رہتا ہے اور تماشا ختم ہونے کے بعد اسے ''بیت الجن'' کا نام دے دیتا ہے۔ایک ''یس سر مین''کی طرح کہ تینصدور بدل گئے مگر آپ وہیں کے وہیں رہے۔ بقول مفتی ''چاند بدلتا رہتا ہے ستارہ وہیں رہتا ہے''۔

شہاب کے بارے میں تو شہاب کی زندگی میں ہی یہ مشہور تھا کہ شہاب ہمیشہ ''تیسری قوت '' کا حامی رہا ہے۔ شہاب نامہ میں''پاکستان کا مستقبل'' پڑھیں، سب منظر واضح ہوجاتا ہے۔ اسی باعث تو ''ابو الاثر حفیظ ؔجالندھری'' بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ
جب کہیں ''انقلاب ''ہوتا ہے
قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے

وہ تو اچھا ہوا آج شہاب صاحب زندہ نہیں ورنہ آج بھی ''جمہوریت ڈی ریل'' کرنے کا الزام عمران خان کی جگہ انہی کے سر ہونا تھا۔

کیا استاد آدمی تھے شہاب صاحب کہ صدر مملکت ایوب خان کی ایسی تربیت کی وہ مجمع عام میں لوگوں کے روبرو ہونے لگے، جہاں صدر جاتے وہاں سوال و جواب کے سلسلے شروع ہو جاتے جس پر سید محمد جعفری نے طنزا ًکہا
یہ سوال و جواب کیا کہنا
صدر عالی جناب کیا کہنا
کیا سکھایا ہے، کیا پڑھایا ہے
قدرت اللہ شہاب کیا کہنا

سب جانتے تھے کہ فیصلے کہاں پر ہوتے تھے لیکن شہاب نے اگر کریڈٹ لیا تو صرف اس بات کا کہ صدر ایوب خان جب پاکستان کے نام سے''اسلامی جمہوریہ'' کا سابقہ ختم کرنے کے درپے تھے تو موصوف نے اپنے تئیں ایک ہلکی سی کاوش کی اور اپنے استعفے کے ساتھ ایک لمبا چوڑا نوٹ لکھ کردیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ ''Pakistan has no escape from Islam'' جس سے صدر ایوب بھی قائل ہوگئے اور ایسا کرنے سے باز رہے۔

وہ شخص جسے لوگ اپنا آئیڈیل تصور کرتے ہیں کہیں اپنے استاد کی بیوی ''صادقہ بیگم'' کے ساتھ عشق لڑانے کی ناکام کوشش کرتا ہے تو کہیں ہندو لڑکی ''چندراوتی'' کی محبت میں جوگ لیے نظر آتا ہے۔ لوگ بھی اس شخص کی ایمانداری کے قصے سناتے ہیں جو خود اعتراف کرتا ہے کہ اس نے ایک بڑھیا سے ''بارہ آنے'' رشوت لی۔

اور بات صرف رشوت تک ہی محدود نہیں کہیں اس شخص نے ''روشن شاہ ولی'' کے مزار پر چڑھائی جانے والی نیاز سے ہاتھ صاف کیے تو کہیں ''پنج پیر'' کی قبر سے اپنا حصہ برابر وصول کیا۔ صدر ضیاء الحق کے دور میں جناب نے وزارتِ تعلیم کو تو ٹھکرا دی مگر ڈلیگیٹ کے ساتھ سرکاری خرچ پر ''ابن انشاء'' کی عیادت کو لندن چلے دئیے۔

اب کوئی شخص ایک عرصہ تک صدور مملکت کے زیر سایہ رہنے کے باوجود اس قدر عاجز ہوکہ اپنی بیوی کا علاج نہ کرواسکے اور پھر جب وہ ''آٹھ مربع زمین'' کی پیشکش ٹھکرانے کی کہانی سنائے تو اسے یہ کہنا بنتا نہیں کہ ہم تمھارے مزاج کے نہیں حالانکہ عین اِس وقت اسرائیل کے کامیاب خفیہ دورے کے بعد شہاب کو دنیا بھر کے مسلم حکمرانوں نے یہ آفر کی تھی کہ اس کو سونے میں تولنے کیلئے تیار ہیں۔

ایک شخص ''رائٹرز گلڈ ''بنوانے کا کریڈٹ لیتا ہے (اکثر ادیب تواسے ''رائٹرز گلٹ'' بھی کہتے تھے) مگر ''پاکستان ٹائمز''، ''لیل و نہار'' اور ''امروز'' پر زبردستی کے حکومتی قبضے سے اظہار لا تعلقی کردیتا ہے حالانکہ خود جناب تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان ٹائمز پر قبصہ کے بعد اس کا اداریہ ''New Leaf'' انہی کے قلم کی گوہر افشانی تھا۔ جسے اُنہوں نے سرکاری مجبوری قرار دیا۔ پھر ایک واقعے میں وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایک جونیئر افسر(جمیل الدین عالی) سے فائل گم ہونے کی ذمہ داری اس نے خود پر لی کیونکہ وہ اس کی ماتحتی میں تھا تو اب خود بتائیے کہ میں اس بات پر کیسے یقین کرلوں کہ جو شخص صدر ایوب کو تقاریرتک لکھ کر دیتا تھا وہ کس طرح 1963ء کے بدنام زمانہ ''پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس'' سے بری الذمہ تھا؟

اس قلم طرازی کا مقصد قطعاً شہاب کی کردار کشی یا بت شکنی نہیں۔ بقول شہاب ''جو لوگ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں، ان کی ذات انفرادی نہیں رہتی بلکہ اپنی طرز کا ایک ادارہ بن جاتی ہے۔ تاریخ کی سرچ لائٹ نہایت تیز اور بے رحم ہوتی ہے۔ اس کی شعاعوں کی روشنی میں ہر شخص اور ادارے کے حقیقی خدوخال سامنے آجاتے ہیں''۔ لہٰذا اِن خدوخال کی لطافت یا کثافت کا ذمہ دارمیں ہرگز نہیں ہوں بلکہ گناہ وثواب سب شہاب کو ہی جاتا ہے۔
وما علینا الاالبلاغ

لیکن ٹھہرئیے!
میں نے کہا کہ میں شہابیہ کا شکار رہا ہوں اور اس کے اثرات اب بھی باقی ہیں۔ بھلا میں شہابیہ کا شکار کیوں نہ ہوتا۔ شہاب کی ذات ہی ایسی تھی کہ جو کوئی ایک بار اسے قریب سے دیکھ لیتا یا شہاب نامہ پڑھ لیتا وہ اس ''مرض'' میں مبتلا ہوجاتا۔ شہاب محض ایک شخص نہیں ایک عہد تھا۔ اُس کے بارے میں کسی نے کیا خوب لکھا کہ ''اگر کسی شخص نے دنیا میں رہ کر دنیا کی خوب خدمت کرتے ہوئے بھی بے رغبتی اور بے اعتنائی دیکھنی ہو تو وہ مرحوم قدرت اللہ شہاب کو دیکھ لے''۔

ایک شخص جو جموں جیسے دور دراز علاقے سے تعلق رکھتا تھا، اسکولوں سے بھاگتا بھی تھا مگر پھر بھی ہر وظیفے کا امتحان پاس کر لیتا ہے، تھرڈ ائیرکے زمانے میں پوری دنیا میں مضمون نگاری کے مقابلے میں اول آ جاتا ہے، اس میں کچھ تو ایسی بات تھی کہ انڈین سول سروس (آئی سی ایس) کا امتحان وہ ایسے وقت میں پاس کرتا ہے جب مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ ہدف بنایا جارہا ہوتا ہے۔ پھر''نتھ نگر''میں مسلمانوں کو ہندو مسلم فسادات سے بچانے کی اپنے تئیں پوری سعی کرتا ہے یہ الگ بات کے اس کے ٹرانسفر سے ''ہونی'' نہیں رک سکی مگر کوشش تو اس کی پوری تھی۔ پھر وہاں سے بھاگلپور او ایس ڈی بنا دیا گیا اور او ایس ڈی بن کر بھی وہ چین سے نہیں بیٹھتا بلکہ تملوک میں سیلاب و قحط کے زمانے میں گودام کا تالا تڑوا کر ساڑھے چار ہزار من دھان بھوکے ننگوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ اس فعل پر اس کے خلاف مدنا پور کی سول عدالت میں کئی لاکھ ہرجانے کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے۔ پھر اسے دفتری فائلوں پر لگا دیا جاتا ہے مگر وہاں بھی وہ سیماب طبیعت بے چین ہی نظر آتا ہے کہ نئی وجود میں آنے والی ریاست یعنی پاکستان کی خاطر وہ اپنی نوکری تک داو پر لگا دیتا ہے اور کچھ خفیہ دستاویزات لے کر قائد اعظم کے پاس پہنچ جاتا ہے جو 1947ء میں بطور ڈپٹی ہوم سیکرٹری اڑیسہ اسکے ہاتھ لگے۔ یہ کچھ ایسے ہدایت نامے تھے جن سے پتہ لگتا تھا کہ کانگریس نے تمام چیف منسٹرز کو خفیہ ہدایات بھی بھیجیں کہ مسلمانوں کو تمام اعلیٰ اور کلیدی عہدوں سے ہٹا دیا جائے، تمام مسلمانوں اسلحہ لائسنس ہولڈرز کی کڑی نگرانی کی جائے، مسلمانوں آتشبازوں کے لائسنس معطل کردئیے جائیں اور ان کا سٹاک فوری طور پر قبضہ میں لے لیا جائے۔ قائد اعظم نے وہ دستاویزات اپنے پاس رکھ تو لیں مگر شہاب کو بھی سختی سے ڈانٹا کہ تمھیں اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہئے تھی۔

پھر 1947ء میں پاکستان حکومت کی طلبی پر پاکستان آمد اور اس آمد کی داستان ''یا خدا'' کی شکل میں آج بھی زندہ ہے۔ محلاتی سازشوں اور قصر شاہی کی اندرونی کہانی کو بے لاگ انداز میں سامنے دھرنے پر شہاب لائق تحسین تو ہے۔

پاکستان سے اُس کی محبت کا ثبوت اِس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ محض اِس بات پر ہارٹ اٹیک ہوگیا کہ اس کے سامنے صدر سکندر مرزا نے 1958ء کے آئین کو TRASH کہا تھا۔ اِس بات کے بعد اس کی آنکھ مارشل لاء دور میں کھلی، جہاں صدر ایوب نے اسے اس کی ایمانداری کے باعث اپنا منظور نظر بنا لیا۔ کیسا سادہ طبیعت شخص تھا کہ شاہان کے ساتھ زندگی گزارنے والا اگر متاثر بھی ہوتا ہے تو جھنگ کے ایک موچی سے۔

جس شخص کے آئی سی ایس امتحان کے بعد پروبیشنری امتحان کلیئر کرنے پر چیف سیکرٹری کو یہ رپورٹ بھیجی جائے کہ ''اگر یہ ملازمت کے دو تین سال بھی پورے کرلے تو اس کی انتہائی خوش نصیبی اور برٹش انڈین گورنمنٹ کی انتہائی بد نصیبی ہوگی''، وہ شخص اگر قیام پاکستان تک برٹش انڈیا اور قیام پاکستان کے بعد جنرل یحییٰ خان کے زمانے تک کارِ سرکار میں اہم عہدوں پر فائز رہتا ہے تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس کے استعفے سے بدنصیبی کس کے حصے میں آئی۔

ریٹائرمنٹ کے بعد اکثر سرکاری ملازم خاموش زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں مگر شہاب کی ریٹائرڈ زندگی بھی ہنگامہ خیز رہی۔ اسرائیل کا خفیہ دورہ جہاں فلسطین کیلئے بہت بڑی خدمت تھی وہیں یہ پاکستان کیلئے بھی اعزاز تھا۔ اُس موقع پر ابن انشاء نے بھی کیا خوب کہا تھا
قدرت اللہ شہاب کی باتیں
ایسے ہیں جیسے خواب کی باتیں

قدرت اللہ شہاب ورنیکلر امتحان کے دوران زیارتِ رسول (ﷺ) سے شرف یاب ہوا یا نہیں، وہ سلسلہ اویسیہ کا اویسی تھا یا نہیں،راہ سلوک سے اسے کوئی واسطہ تھا یا نہیں، یا ''نائنٹی'' واقعی ایک حقیقی کردار تھا یا یہ بھی شہاب کا کوئی افسانہ تھا، ان سب مباحث سے قطع نظر اس حقیقت سے انکار کون کرے گا کہ اگر ایک سول سرونٹ، جو بیوروکریسی میں اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے پر فائر رہا ہو، ریٹائرمنٹ کے بعد ایسی زندگی گزراتا ہے کہ بیوی کا علاج کرانے کیلئے اسکے پاس پیسے نہیں ہوتے، اس کا بیٹا کرایہ نہ ہونے کے باعث کئی کئی میل پیدل چلتا ہے اور خود جب وہ دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو مال متاع میں کوئی قابل ذکر چیز نہیں چھوڑتا اور آج اس کے وصال کے اتنے سال بعد بھی کوئی اسے اچھے لفظوں میں یاد کرتا ہے تو کیا وہ کسی ولی سے کم تھا؟

دنیا آج بھی شہاب کو نہیں بھولی، آج بھی افراد دھڑا دھڑ شہابیہ کا شکار ہورہے ہیں اوراس بات کی تصدیق تو اسلام آباد کے H-8 قبرستان کا وہ گورکن بھی کرتا ہے جو پچھلے گیارہ سالوں سے قبرستان کی دیکھ بھال پر معمور ہے۔ اگر کوئی چیز تاریخ کے ورقوں میں دفن ہوئی ہے تو وہ نقاد دفن ہوئے ہیں کہ جن کا شیوہ شہاب جیسے لوگوں پر تنقید کرنا تھا، جو شہاب کے راہِ سلوک پر ''ڈگمگانے'' پر طنز کے نشتر چلاتے تھے، آج ان کا کہیں ڈھونڈے سے نشان نہیں ملتا ورنہ شہاب توہم جیسوں کے ساتھ بھی زندہ ہے، ہم جیسوں کے اندر بھی زندہ ہے جنہوں نے دنیا میں قدم بھی اس کے جانے کے بعد رکھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں