سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ…الٰہی ماجرہ کیا ہے

چھانگا مانگا کی اصطلاح بھی ہارس ٹریڈنگ کے ہی ہم معنی ہے۔


Latif Chaudhry February 27, 2015
[email protected]

جس ملک میں سینیٹ کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے وزیراعظم کو اپنی کابینہ کا اجلاس بلانا پڑے' وزراء پر مشتمل کمیٹیاں سیاستدانوں سے ملاقات میں مصروف ہوں تاکہ ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کو روکا جا سکے، اس ملک میں جمہوریت کیسی ہو گی' اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

پاکستان میں پارلیمنٹیرینز کے فروخت ہونے کی داستان نئی نہیں بلکہ خاصی پرانی ہے۔ ایوب خان کے بی ڈی ممبر ہوں' جنرل ضیاء الحق کے غیر جماعتی ارکان اسمبلی ہوں یا جنرل پرویز مشرف کے دور میں منتخب ہونے والے عوامی نمایندے سب کی خریدوفروخت ہوتی رہی ہے۔ ایک خاندان تو دولت کے بل پر برسوں سے مسلسل سینیٹ کا رکن چلا آ رہا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ تین باپ بیٹے سینیٹ کے رکن بنے' سب کو پتہ ہے کہ ان کی جیت چمک کا نتیجہ ہوتی ہے۔

چھانگا مانگا کی اصطلاح بھی ہارس ٹریڈنگ کے ہی ہم معنی ہے۔ 1993 میں پنجاب میں تو 18 ارکان کا حمایت یافتہ میاں منظور وٹو پنجاب کا وزیراعلیٰ بن گیا تھا' اس وقت پیپلز پارٹی کے پاس 90 سے زیادہ ارکان تھے' کیا یہ بوالعجبی نہیں کہ بھاری اکثریت اقلیت کی حکمرانی تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئی۔

محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی زیرک سیاستدان بھی یہ سودے بازی کرنے پر مجبور ہو گئی تھیں۔ پیپلز پارٹی کی سابق حکومت کو ہی دیکھ لیں' محض پانچ برس پورے کرنے کے لیے جناب آصف زرداری نے کس کس سے مفاہمت نہیں کی' آج پیپلز پارٹی کی جو حالت ہے' یہ اسی مفاہمتی ڈاکٹرائن کا ثمر ہے۔ اب سینیٹ کے الیکشن ہونے والے ہیں' ہر طرف شور ہے کہ پارلیمنٹیرینز کو خریدنے کی کوششیں ہو رہی ہیں' عمران خان واویلہ کر رہے ہیں ۔ آصف زرداری بھی فرما رہے ہیں کہ ہارس ٹریڈنگ اور دھاندلی روکنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے۔

حکومت کا ایک وفد مولانا فضل الرحمن سے بات کرنے ان کی رہائش گاہ پہنچا ۔ میاں نواز شریف نے سینیٹ الیکشن میں شفافیت یقینی بنانے اور ہارس ٹریڈنگ کی حوصلہ شکنی کے لیے 22 ویں ترمیم پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے پر مشاورت شروع کر دی اور وہ جلد سیاسی جماعتوں کے سربراہان سے خود رابطہ کریںگے۔ایجنڈا یہی ہے کہ کوئی بکے گا نہ کوئی خریدے گا لیکن وزیراعلیٰ پنجاب نے مسلم لیگ ن کی خواتین اراکین اسمبلی کو فی کس پچاس پچاس لاکھ روپے کے ترقیاتی فنڈز دینے کا اعلان کیا ہے، پتہ نہیں یہ ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے پیکیج ہے یا اسے بڑھوا دینے کے لیے ۔

اس سے قبل پنجاب اسمبلی کی خواتین اراکین کو فنڈز نہیں دیے گئے۔ یہ ہے ہماری سچی اور حقیقی جمہوریت کی تصویر۔ قارئین اچھی طرح دیکھ لیں، جمہوریت کا چہرہ ۔اس سارے کھیل کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جو حکومت میں ہے' وہ ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے کمیٹیاں بنا رہے ہیں' آئین میں ترمیم کرنے کا آپشن بھی اختیار کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

جو سندھ اور خیبرپختونخوا میں راج سنگھاسن پر بیٹھے ہیں' وہ دھاندلی دھاندلی اور ہارس ٹریڈنگ کا شور اٹھا رہے ہیں۔ یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے؟ خریدنے والے بھی برسراقتدار اور فروخت ہونے والے بھی برسراقتدار۔ کون کسے خرید رہا ہے' اپوزیشن کسے کہیں؟ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ ہماری جمہوریت کے اس کردار پر بے اختیار یہ شعر یاد آ گیا ہے۔

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

سینیٹ پارلیمانی جمہوری نظام کا انتہائی باوقار ادارہ ہے۔ ہم اسے ایوان بالا یعنی اونچایا برتر ایوان کہتے ہیں لیکن اس انتہائی معتبر ایوان کی نشستوں پر بیٹھنے کے لیے جو گندا کھیل کھیلا جا رہا ہے' وہ ہماری جمہوریت کے اخلاقی دیوالیہ پن کا کھلا ثبوت ہے۔ ہمارے ہاں کچھ تو دولت خرچ کرکے قانون ساز بن جاتے ہیں اور کچھ ایسے گھگو گھوڑے سینیٹرز کا روپ دھار لیتے ہیں جنھیں حاکم وقت اپنے سہولت کے لیے ٹکٹ نامی اجازت نامہ دے دیتا ہے۔ میاں محمد نواز شریف ہوں یا آصف زرداری' حضرت مولانا فضل الرحمن ہوں یا اسفند یار ولی' الطاف بھائی یا عمران خان اپنی سرشت میں سب آمر ہیں۔ ان جمہوری رہنماؤں کی پارٹی میں کسی اور عہدیدار کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

پاکستان میں ممبریاں ٹہر ٹپے اور دولت کمانے کے لیے حاصل کی جاتی ہیں' ہمارے سارے منتخب نمایندے ماشاء اللہ کروڑوں پتی بلکہ ارب پتی ہیں۔ بیرون ملک جائیدادوں کے مالک بھی ہیں' وہاں ان کے کاروبار پھل پھول رہے ہیں اور ان کی اولادیں لندن' امریکا' کینیڈا اور دبئی میں پر سکون اور ناقابل یقین پر آسائش زندگی گزار رہی ہیں۔

شنید ہے کہ خیبرپختونخوا کے کئی حضرات کا بل میں بھی جائیدادیں بنا رہے ہیں۔پاکستان تو ان کی شکار گاہ ہے' جیسے عرب بادشاہتوں کے شہزادے بلوچستان اور سندھ میں شکار کھیلنے آئے ہیں' اسی طرح ہمارے جمہوری لیڈر یہاں حکمرانی کرنے کے لیے الیکشن لڑتے ہیں۔

جمہوریت میں آمریت کی آمیزش نہ ہوتی تو یہ ملک انتظامی و معاشی بدحالی کا شکار نہ ہوتا۔ قارئین آپ خود ہی سوچیں! جو شخص کروڑوں پر خرچ کر کے سینیٹ یا قومی اسمبلی کا رکن بنے گا' وہ اس ملک اور عوام کے لیے کیا اچھائی کرے گا۔ پاکستان میں جب بھی مارشل لاء لگا' وہ اپنے آپ کو جمہوری کہنے والے سیاستدانوں کی عاقبت نااندیشی' نظریاتی ابہام اور موقع پرستی کے باعث لگا۔ پاکستان آج جس انتظامی بریک ڈاؤن اور انتہا پسندی کا شکار ہے۔

اس میں سیاسی حکومتوں کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا فوجی حکومتوں کا۔ اپنے آئین کو ہی دیکھ لیں' اس میں من مانی ترامیم اگر آمروں نے کی ہیں تو ان پر مہر تصدیق اعلیٰ عدلیہ اور پارلیمنٹ نے ہی ثبت کی ہے۔ اب بھی آئین میں ترامیم جاری ہیں۔ پچھلے دنوں فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے 21 ویں ترمیم ہوئی اور اب سینیٹ کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے 22 ویں ترمیم کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔

اصل سوال یہ ہے کہ ارکان اسمبلی اپنا ووٹ کیوں بیچتے ہیں' کیا وہ ایمانداری اور بے ایمانی کے فرق کو نہیں سمجھتے یا انھیں اصول پسندی اور بے اصولی کا ادراک نہیں ہے؟ ایسا نہیں ہے' صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کے ارکان کو بھی سب کچھ پتہ ہوتا ہے۔ عام رکن اسمبلی پہلے چندے کے نام پر رشوت دیکر ٹکٹ حاصل کرتا ہے' پھر کروڑوں روپے الیکشن مہم پر خرچ کر کے اسمبلی میں پہنچتا ہے' اسے امید ہوتی ہے کہ ترقیاتی فنڈز ملیں گے' نوکریوں کا کوٹہ ملے گا یا وزارت ملے گی لیکن جب پارٹی حکومت میں آجاتی ہے تو وہ اپنے قائدین کو دیکھتا ہے کہ کس طرح اقربا پروری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے ہو رہے ہیں' ترقیاتی فنڈز بھی منظورنظر پارلیمنٹیرینز کو مل رہے ہیں' کسی کو مشیر اور کسی کو وزیر بنایا جا رہا ہے' یہاں جگہ ختم ہو جائے تو اسمبلی و سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے چیئرمین لگا دیے جاتے ہیں، مولانا فضل الرحمن کو کچھ ملے نہ ملے کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی تو جیب میں ہے' جو بیچارے محض ایم پی اے یا ایم این اے رہ جاتے ہیں' وہ بظاہر پارٹی میں ہوتے ہیں لیکن ان کے دل قیادت کے خلاف ہوتے ہیں۔

موجودہ حکومت کے کئی ارکان اسمبلی حتٰی کہ مشیر وزیر اپنی قیادت سے خوش نہیں ہیں۔ یہی وہ ارکان اسمبلی ہوتے ہیں' جنھیں جب موقع ملتا ہے' وہ ووٹ فروخت کر کے اپنا نقصان پورا کر لیتے ہیں اور کبھی اپنی وفاداری ترک کر کے دوسری پارٹی کے آشیانے پر بسیرا کر لیتے ہیں۔

جمہوریت کی یہ وہ بدصورتی ہے جو آج کل ہمارے سامنے آئی ہوئی ہے' جب تک جمہوریت کی دعویدار قیادت خود کو صاف اور شفاف نہیں بنائے گی، ہارس ٹریڈنگ کبھی نہیں رکے گی۔ وفاداریاں تبدیل ہوتی رہیں گی اور اسٹیبلشمنٹ جب چاہے گی' کنگز پارٹی تشکیل دے گی۔ کاش برسراقتدار جمہوری قیادت اپنا احتساب خود کر لے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں