انجوائے کریں
ہمارے یہاں سادہ لوح اور غیر تعلیم یافتہ یا کم تعلیم یافتہ اپنی زبان بولنے والے کو اپنا سمجھ لیتے ہیں
کچھ عرصے سے ہمارے ملک میں جلسے جلوس، گھیراؤ اور دھرنے کا کلچر اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اب متاثرین میں تماش بینوں کی تعداد کی بھی گنتیاں ہو جاتی ہیں اور تقریب کی اہمیت بڑھ جاتی ہے یعنی اسے میڈیا میں اسی حساب سے جگہ مل جاتی ہے اور اب چینلز کی بھی گنتی ہوتی ہے صرف ایک چینل، دو یا تین اور بڑے معرکے کے تمام چینلز۔ ویسے تو ہمارا ملک جمہوری دور میں داخل ہو ہی چکا ہے اور پچھلی حکومت نے اپنے پانچ سال تمام کیے تھے۔
لہٰذا جمہوری دور میں اس قسم کے کلچر کی گنجائش تو نکلتی ہی ہے کہ یہ جمہوریت کا حسن ہے۔ اس حسن کے اور بھی کئی پہلو ہیں لیکن ان میں آخر راز کیا ہے۔ جمہوریت۔۔۔۔جی جمہوریت ہی راز ہے، دراصل پاکستان کے قیام کے بعد سے اس ملک میں یکے بعد دیگرے اتنی جلدی جلدی تبدیلیاں آئیں اور جمہوریت کو پروان چڑھنے کو اتنا کم وقت ملا کہ ہمیں اس کے ناز نخرے اٹھانے کی گزشتہ پانچ برسوں میں بھی عادت نہیں پڑی۔
چند دن گزرے صدر سے گزرنا ہوا ایک جانب ٹریفک رواں دواں تھا جب کہ برابر والے روڈ پر ایک جلوس گزر رہا تھا ساڑھے چار بجے کی تپتی دھوپ میں سات آٹھ، نو دس سال تک کے بچے ہاتھوں میں جھنڈے اٹھائے بچیاں نیلے یونیفارم میں اور بچے شلوار قمیض میں ملبوس نعرے بلند کرتے جا رہے ہیں ان کی رہنمائی میں کچھ حضرات شامل تھے جو بلند آواز میں نعرہ بلند کرتے اور بچوں کی معصوم چھوٹی چھوٹی پیاری آوازیں ان کے ساتھ شامل ہو جاتیں۔
دور سے دیکھنے میں وہ ایک ہی جماعت کے بچے محسوس ہو رہے تھے ذرا اور آگے بڑھے تو اس جلوس کے پیچھے ہم نے ہلکی رفتار میں گاڑیاں بھی دیکھیں جن کا تعلق یقینا اس منی جلوس سے نہ تھا۔ ان حضرات کے چہرے کوفت زدہ پسینہ پسینہ دکھائی دے رہے تھے یہ چند لمحوں کے مناظر تھے لیکن جو فرق محسوس ہوا وہ یہ کہ جلوس کے آگے نعرے بلند کرنے والے کچھ مسکراتے فاتحانہ سی مسکراہٹ لیے ہوئے تھے جب کہ ان کے پیچھے ڈرائیور حضرات چڑچڑے، پریشان اور اکتائے ہوئے سے تھے۔
ارے اب تو جس کا دل چاہتا ہے روڈ پر آ کر بیٹھ جاتا ہے اس لیے گھر سے نکلنے سے پہلے ٹی وی پر نیوز چینل پر دیکھ لینا چاہیے کہ حالات کیسے ہیں ورنہ بلاوجہ میں خواری ہوتی ہے۔ ہمارے ایک جاننے والے نے خاص کر خواتین کے لیے گھر سے باہر نکلنے کے لیے یہ اصول بڑی سمجھداری سے بیان کیا تھا۔
کراچی میں تو سڑکوں کی بری حالت اور ٹریفک کا برا حال تھا ہی لیکن اس نئی روش نے عوام کو ہلکان کر رکھا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں جو صورتحال ان معصوم لوگوں پر گزرتی ہے، قارئین اس اضطرابی کیفیت کو محسوس نہیں کر سکتے۔ چھوٹی چھوٹی گلیاں، موڑ، خاردار چوراہے اور نجانے کیسے کیسے انجان راستوں سے سانپ سیڑھی کے کھیل کی مانند گزر کر بمشکل منزل کے قریب پہنچا جاتا ہے۔
اس قسم کی صورتحال کا سامنا ذاتی طور پر ہوا جس کی وجہ اتفاق سے کوئی جلسہ یا جلوس نہ تھا بلکہ اپنی حماقت تھی۔ شارٹ کٹ کے جس سحر میں گرفتار ہوئے اس نے ایک نئی بستی دکھائی، پرانی سبزی منڈی کے اس راستے سے داخل ہوتے ہوئے ہرگز احساس نہ ہوا کہ یہ صاف روڈ اندر جا کر کتنا گنجلک ہو جائے گا۔ ذرا آگے بڑھے تو بچوں اور جوانوں کے کرکٹ جنون کو دیکھا ان سے راستہ پوچھا گیا بتایا گیا سیدھے چلتے جائیے۔ اس کچی بستی میں زیادہ تر آبادی پٹھانوں کی تھی کہیں ولی خان کے نام سے بینر بھی نظر آئے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ دل میں کچھ خوف سا بھی ابھرا، لوگوں سے بہت کچھ سن رکھا تھا، یہ سیدھا راستہ اتنا تنگ ہوتا گیا کہ اپنے میلے کچیلے دروازے کے ساتھ بیٹھا بچہ جو بڑے مزے سے سامنے کرسی رکھ کر خود ہی خود گنگنا کر لطف اندوز ہو رہا تھا ہارن کی آواز پر کرسی اٹھا کر اپنے نزدیک کھسکانے پر گاڑی گزرنے کی جگہ بنانی پڑی، گلیوں میں کھلی چھوٹی چھوٹی دکانیں، پھیریاں اس کچی بستی میں ایک عام بھرپور زندگی بیان کر رہی تھیں، یہاں تک کہ مین روڈ جب ایک تنگ موڑ سے دور سے نظر آنے لگا تو سامنے ذرا ترچھی کھڑی ایک لوڈنگ گاڑی ایستادہ تھی جس میں سے مزدور اینٹیں اٹھا اٹھا کر زمین پر ڈھیر کر رہا تھا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے رکنے کا کہا اور یوں منزل کے قریب پہنچ کر گاڑی بند کر دی گئی۔
اینٹیں پوری اتاری گئیں ڈرائیور نے پھرتی سے گاڑی ذرا ترچھی کر کے ریورس کرتے باہر کی جانب بڑھائی یوں ایک دنیا سے نکل کر باہر کی دنیا سے کنکشن ہوا۔ اس پورے راستے کوئی چور کوئی اچکا کوئی غنڈہ یا گھورتی آنکھیں نظر نہ آئیں یہ محض اتفاق تھا یا زندگی کا ایک تجربہ۔ اخلاق، شرافت اور انسانیت سے معمور انسانوں نے انسانوں کی مدد کی، انھیں راستہ دکھایا، گویا انسان ہی دراصل انسان ہوتے ہیں، جن میں وہ تمام معیار ہوتے ہیں جو خدا کی جانب سے مقرر کردہ ہوتے ہیں اور ایسے معیار ہی ایک اچھے معاشرے کی تخلیق کرتے ہیں۔
دراصل مسئلہ زبان کا ہے ہمارے یہاں تعلیم کی کمی نے اس مسئلے کو اولین مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔ ہمارے یہاں سادہ لوح اور غیر تعلیم یافتہ یا کم تعلیم یافتہ اپنی زبان بولنے والے کو اپنا سمجھ لیتے ہیں چاہے وہ ملکی ہو یا غیر ملکی اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے درمیان ہمارے اپنے دشمن چھپے بیٹھے ہیں ۔
کیونکہ انھیں اپنے ہم زبانوں کی پناہ حاصل ہوتی ہے اب ضروری نہیں کہ ان کی ملک دشمنی یا دہشت گردی کی خفیہ حرکات سے وہ واقف ہوں یا نہ ہوں پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ مہمان نوازی یا پناہ میزبانوں کے لیے ہی خوف واذیت بن جاتی ہے وہ ڈرتے ہیں اور اس ڈر و خوف کو کسی سے شیئر بھی نہیں کر سکتے یوں بے گناہ بھی گناہ گاروں کی فہرست میں شمار ہوجاتے ہیں، اس کیفیت کا تعلق کسی خاص قوم سے نہیں ہے ابھی تک اس قسم کی صورتحال کو کے پی کے میں تو دیکھا گیا ہے لیکن کراچی میں بھی ایسا ہو رہا ہے۔
یہاں ایک نہیں بہت سی قومیتوں کے لوگ بڑی تعداد میں آ کر بس رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس کی وجہ روزگار تو ہے ہی لیکن یوں سمجھ لیں کہ دیگر پاکستان کے علاقوں میں اسے برطانیہ یا امریکا کی طرح امیر سمجھا جاتا ہے اور روزگار کے علاوہ بھی جرائم پیشہ افراد کے لیے یہ پیرس ثابت ہو رہا ہے۔ اس طرح سے شہر کے حالات دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں، کوئی روک ٹوک نہیں ہے، ایک ماہر تعلیم نے اس صورتحال پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، اس کا کوئی حل ہے؟ ہمارے اس سوال پر جواباً ایک طویل خاموشی ملی، گویا اس کا کوئی حل نہیں ہے۔
از خود جواب اخذ کر لیا گیا۔ ہر مسئلے کا حل موجود ہوتا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کروانا بہت مشکل کام ہے کیونکہ عملدرآمد کروانے کا مطلب ہے کہ پہلے ہمیں اپنے گندے ہاتھ اپنے ہی کپڑوں سے صاف کرنے ہوں گے تا کہ آگے کے لیے راستہ صاف ہو، لیکن گندے ہاتھ صاف کرنے کے لیے بہت ہمت درکار ہے اور یہ گندگی کرپشن، اقربا پروری سے ہمارے ہاتھوں سے اب پورے جسم کو آلودہ کر چکی ہے۔
اگر آپ قائد اعظم کی تقاریر توجہ سے پڑھیں تو انھوں نے رشوت، کرپشن، اقربا پروری، سفارش، صوبائیت اور فرقہ پرستی کو بیماریاں قرار دیا ہے ان کا قلع قمع کرنا ضروری ہے ہمارے حکمرانوں سے لے کر تمام سیاسی پارٹیوں کے حضرات اس مشن پر جت جائیں ان بیماریوں سے نجات پانے پر لگ جائیں سارے مسئلے خود حل ہوجائیں گے۔ انھوں نے لمبی خاموشی کے بعد بڑا مشکل جواب چنا۔ گویا اس کا حل نہیں ہے، رک سڑک پر بیٹھ اور انجوائے کر۔ کسی نے مسکراتے ہوئے یہ فقرہ کہا تھا ذہن میں کھلبلی سی مچانے لگا۔ اور مجبور حقدار اور سچے، مصیبت زدہ وہ لوگ۔۔۔۔۔۔آئیے ہم سب مل کر اس کھلے نیلے آسمان کی جانب دیکھتے ہیں کہ اللہ بہت بڑا ہے، جزاک اللہ!