معاشرے کا ناسور
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ کرپشن پولیس کے ادارے میں ہے اور عسکری اداروں میں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس امر میں دو رائے نہیں کہ پاکستان کے عام آدمی کو جن مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے اس کی بنیادی وجہ شعبہ ہائے زندگی کے ہر قدم پر کرپشن، بدعنوانی، رشوت ستانی اور سیاسی مداخلت ہے۔ سرکاری اداروں سے لے کر پرائیویٹ سیکٹر حتیٰ کہ ایک عام ریڑھی والا بھی بدعنوانی کے سمندر میں تیر رہا ہے۔
ہر روز بدعنوانی پر مبنی خبریں میڈیا میں آشکار ہو رہی ہیں مگر مجال ہے کہ کسی کو قانون کا خوف ہو بلکہ الٹا یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دستور ہے، ایسا نہیں کروگے تو چل نہیں پاؤ گے۔ ہر سال وفاقی، صوبائی اور ضلع سطح پر سرکاری بجٹ کا انبار لگتا ہے جن میں ترقیاتی فنڈز کا فخریہ ذکر ہوتا ہے کہ اتنے اسکول بنائے جائیں گے، اتنے اسپتال، سڑکیں اور فلاں فلاں ترقیاتی کام کیے جائیں گے۔ ان خوش کن اعلانات پر کہیں کام ہوتا ہے اور کہیں نہیں۔
جہاں کام ہوتا ہے وہاں ترقیاتی فائل مختلف دفتری مراحل سے گزرتی ہے اور فنڈز کا صرف 50 فیصد ہی خرچ ہو پاتا ہے۔ جب عام آدمی کا واسطہ سرکاری اداروں سے پڑتا ہے تو ان کے جائز کام میں بھی اعتراضات لگا کر محض اس لیے رکاوٹیں ڈالتے ہیں کہ سائل عاجز آ کر سرکاری اہلکاروں کی جیب گرم کر سکے اس دوران سائل کو جن پریشانیوں اور ذہنی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ سرد کمروں میں بیٹھنے والے افسران کو نہیں ہوتا انھیں صرف اپنے حصے سے غرض ہوتی ہے۔
کرپشن نے سماجی اور معاشی ترقی کو متاثر کیا ہے۔ ہر طرف بدعنوانی کی واہ واہ ہے جو شخص کل تک سڑک چھاپ ہوا کرتا تھا دیکھتے ہی دیکھتے کروڑ پتی اور کوٹھیوں کا مالک بن جاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں کہ الٰہ دین کا یہ چراغ کہاں سے لایا ہے؟ بدعنوانی نے سرکاری اور نجی اداروں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ کوئی ایسا شعبہ باقی نہیں بچا ہے جہاں یہ ناسور سرائیت نہ کر چکا ہو۔
گزشتہ سال ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے ملک کے 13 بڑے اداروں کے حوالے سے نیشنل انٹیگریٹی سسٹم مطالعاتی رپورٹ جاری کی تھی۔ اس رپورٹ میں ان 13 اداروں میں ہونے والی کرپشن اور خامیوں کی نشاندہی کے علاوہ ان اداروں کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز بھی دی گئی ہیں۔ ان 13 اداروں میں حکومتی ادارے، الیکشن کمیشن، شہری تنظیمیں، عدلیہ، آڈیٹنگ ادارے، قانون نافذ کرنے والے ادارے، میڈیا، محتسب اعلیٰ، پارلیمنٹ، سیاسی ادارے، اینٹی کرپشن ادارے اور نجی ادارے شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ کرپشن پولیس کے ادارے میں ہے اور عسکری اداروں میں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہر 4 میں سے 3 سیاسی جماعتیں انتہائی بدعنوان ہیں اور ملکی اداروں میں کرپشن کا باعث ہیں۔ قومی اداروں میں خریداری کے وقت پیپر رولز پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا جو کرپشن کی ایک بڑی وجہ ہے۔
حال ہی میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے حشمت حبیب ایڈووکیٹ کے ذریعے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کر دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سندھ حکومت زمینوں کے اسکینڈل میں ملوث ہے اور مبینہ طور پر ہزاروں ایکڑ زمین غیر قانونی طریقے سے پچھلی تاریخوں میں اپنے لوگوں کو الاٹ کی گئی ہے۔ چونکہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اس لیے اس پر رائے زنی کیے بغیر یہ امر قابل اطمینان ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے آگاہی مہم شروع کر رکھی ہے۔
ایک اخباری بیان میں نیب کے چیئرمین قمر زمان چوہدری کا کہنا ہے کہ ''بنیادی اخلاقی قدروں کے ساتھ مذہبی تعلیمات کے ذریعے کرپشن کے خاتمے اور کل کے نوجوانوں کے خیالات میں تبدیلی کے لیے طویل عرصہ درکار ہو گا، بیمار معاشرے اور کرپشن کے خیالات اور عمومی رویوں میں تبدیلی کے لیے یہ مہم انتہائی نیک نیتی کے ساتھ شروع کی گئی ہے۔
یہ بدنیتی ہے یا نالائقی دونوں صورتوں میں نیب کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے، نیب کے اندر مخبر بیٹھے ہیں جو اندر کی بات پہلے ہی متعلقہ لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں، انسداد رشوت ستانی کا محکمہ کمائی کا ادارہ بن جائے تو کرپشن کم نہیں ہو گی۔'' یہ ریمارکس سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے ہاؤسنگ سوسائٹی فراڈ کے ملزم کی عدم گرفتاری پر دیے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق نیب کو 31 دسمبر 2014ء تک 2 لاکھ 70 ہزار شکایات موصول ہوئیں جن پر قانون کے مطابق کارروائی کی گئی، بدعنوان عناصر کے خلاف 5 ہزار 872 انکوائریاں کی گئیں جب کہ 2 ہزار 908 درخواستوں پر تحقیقات کا حکم دیا گیا۔ نیب نے قیام سے 31 دسمبر 2014ء تک 2 ہزار 159 ریفرنس دائر کیے جن پر احتساب عدالتوں میں کارروائی ہوئی اور بعض کے خلاف جاری ہے۔
اسی طرح 31 دسمبر 2014ء تک 261.436 ارب روپے وصول کر کے خزانے میں جمع کرائے جو ریکارڈ کامیابی ہے، مضاربہ، مشارکہ اسکینڈل میں تقریباً 35 ہزار 468 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں ملوث 26 افراد کو گرفتار کر کے ایک ارب 73 کروڑ روپے، تقریباً 4 ہزار کنال زمین، 10 مکانات اور 12 گاڑیاں برآمد کی گئیں اور 6 ریفرنس دائر کیے گئے۔
پلڈاٹ کی رواں سال رپورٹ کے مطابق عوام کا نیب پر اعتماد 42 فیصد جب کہ دوسرے تحقیقاتی اداروں پر 30 فیصد ہے۔ مزید برآں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پہلی بار پاکستان کا کرپشن پرسیپشن انڈیکس 175 ممالک میں سے 126 تک پہنچ گیا جو نیب کی کاوشوں کا ثبوت ہے۔ نیب کا 1999ء سے اب تک سزا کا تناسب تقریباً 70 فیصد ہے۔
صحافیوں کی ایک عالمی ٹیم کی تحقیق کے مطابق ہانگ کانگ اینڈ شنگھائی بینکنگ کارپوریشن (ایچ ایس بی سی) کے سوئٹزر لینڈ میں واقع پرائیویٹ بینک کے لیک ہونے والے اکاؤنٹس میں پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ ڈالر اکاؤنٹ رکھنے والے ممالک میں 48 ویں نمبر پر آیا ہے۔ انٹرنیشنل کنورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس کی رپورٹ ''سوئس لیکس'' میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان سے 85 کروڑ 10 لاکھ ڈالر ایچ ایس بی سی کے سوئس بینک میں رکھے گئے۔
یہ اعداد و شمار 1988ء سے 2006ء تک کے ہیں۔ پاکستان سے منسلک اکاؤنٹس میں سب سے زیادہ رقم 13 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی ہے جس کے کھاتے دار کی شناخت ابھی سامنے نہیں آئی۔
1970ء اور 2006ء کے درمیان پاکستان سے منسلک بینک اکاؤنٹس رکھنے والے 648 کھاتے داروں نے ایچ ایس بی سی سوئس بینک میں 314 اکاؤنٹس کھلوائے، ان میں سے 34 فیصد کھاتے دار پاکستانی قومیت رکھتے ہیں۔
مذکورہ بالا صورتحال اس امر کی غماز ہے کہ بدعنوانی اور کرپشن ایک ناسور بن چکا ہے جو معاشرہ اور نظام کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، رشوت ستانی کا بازار گرم ہے، ایماندار لوگ منہ چھپائے پھر رہے ہیں یعنی اپنے دامن کو بچانے کی فکر میں ہیں کہیں اس گندگی کے چھینٹے ان پر نہ پڑیں دوسری طرف رشوت خور عناصر بڑی جی داری سے معزز بنے ہوئے ہیں اور معاشرہ ان ہی کی عزت کرنے لگا ہے جو قوم کو لوٹتا رہا ہے اور لوٹ رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی طرح کرپشن کے خلاف بھی جنگ کا اعلان کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔