یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی

اگر ہمارے غریب بچے محنت مزدوری کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کرلیں تو وہ اچھے بُرے کے درمیان تمیز کرنا سیکھ لیں گے۔


محمد نعیم March 02, 2015
گھر میں خدمت کے لیے آنے والی ماسی کی بچی کو پڑھانا ہے تو چھوٹا سا عمل جس کے ثمران مستقبل میں ملیں گے۔ پھلا پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کا جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں۔ فوٹو: فائل

نعیم بھائی آپ کے آفس کے قریب جو بک شاپ ہے نا! کل آتے ہوئے وہاں سے ایک قاعدہ لیتے آئیے گا۔

خریت تو ہے بھابی اب قاعدے کی کیا ضرورت پڑھ گئی؟ آپ کے دونوں بچے تو تعلیم کے اس مرحلے سے گزر چکے ہیں۔ نہیں بھائی مجھے بچوں کے لیے نہیں چاہیے۔ دراصل میرے گھر کام کرنے جو ماسی آتی ہے، اُس کی ایک چھوٹی سی بچی بھی ہے، جو اُس کے ساتھ کاموں میں ہاتھ بٹانے آتی ہے۔ وہ مجھ سے آج کل پڑھنے کی کوشش کررہی ہے۔ جب شیث اور شعیر نے پڑھنا شروع کیا تھا تو آپ اُن کے لیے رنگین حروف والی جو کتاب لے کر آئے تھے میں نے اُس میں سے اُسے پڑھانا شروع کیا ہے تو مختلف رنگوں سے حروف لکھنے ہونے کے باعث اسے پڑھنے میں آسانی ہو رہی ہے۔ مجھے یہاں اِس طرح حروف تہجی کا قاعدہ کہیں مل نہیں رہا اِس لیے آپ کو زحمت دے رہی ہوں۔

بھابی اگر آپ ماسی کی بچی کو ہی پڑھا رہی ہیں تو آپ کے چھوٹے بیٹے کی کتابوں میں تو وہ ہوگا جو میں لایا تھا وہی اسی کو دے دیں، نیا لانے کی کیا ضرورت ہے۔ ویسے بھی شعیر تو اب وہ پڑھ چکا اُسے اس کی ضرورت نہیں ہوگی۔

نہیں بھائی! اگر کوئی شوق سے پڑھنا چاہ رہا ہے تو پھر پرانی کتاب کیوں، میری خواہش ہے کہ اُسے نئی کتاب لے کردی جائے، اُس سے اُس کا پڑھنے کا شوق مزید بڑھے گا۔

میں بھابی کی باتیں سن کر بہت متاثر ہوا اور پھر ایک دن دفتر سے گھر جاتے ہوئے اپنی مصروفیت میں سے کچھ وقت نکال کر اُنہیں وہ حروف تہجی پر مبنی قاعدہ لا کردے دیا۔

بظاہر تو یہ ایک چھوٹی سی بات تھی لیکن مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ معاشرے میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو یہ سوچ رکھتے ہیں کہ یہ ورکشاپ، ہوٹل، دکان یا بنگلے پر کام کرنے والا چھوٹا، جھاڑو پوچا اور کپڑے برتن دھونے کے لیے آنے والی ماسی کے ساتھ چھوٹی سے بچی! سڑکوں پر گاڑیاں صاف کرنے کے لیے بھاگنے والے یا کچرے کے ڈھیروں اور کباڑ میں سے اپنا رزق تلاش کرنے والے یہ بھی دیگر انسانوں کے بچوں کی طرح ہیں۔

یہ بات الگ ہے کہ حالات اور اُن کے گھر کے معاشی کیفیت نے انہیں اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ بھی دیگر بچوں کی طرح پڑھ سکیں۔ جس کی وجہ سے یہ ننھے ننھے ہاتھ، کھلونے اور کتابیں اٹھانے کی عمر میں محنت مشقت میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن صبح صبح اسکول کی طرف جاتے بچوں کو دیکھ کر اُن کے من میں بھی یہ خواہش اُبھرتی ہوگی کہ کاش وہ بھی کچھ پڑھ سکتے۔ ایسے بچے ساری زندگی کتابیں، رسالے اُٹھا کر اُن میں تصاویر ہی دیکھتے رہتے ہیں کیوں کہ حروف کی کسی نے اُن کو پہچان ہی نہیں کروائی، جو وہ کچھ لکھ پڑھ سکتے۔



اوپر جوواقعہ میں نے بیان کیا ہے اُس کا ایک مقصد ہے۔ اگر ہم سب سوچیں اور اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسے بہت سے بچے نظر آئیں گے جو کہیں نہ کہیں پڑھنے لکھنے کی عمر میں محنت مزدوری کرنے میں لگے ہوئے ہوں گے۔ ان بچوں کو حقیر اور کم تر نہ جانیں، یہ بہت عظیم بچے ہیں۔ جو اپنے لیے رزق حلال کما رہے ہیں۔ بس آپ نے یہ کرنا ہے کہ ان نگینوں کے لیے جوہری بننا ہے۔ جس طرح چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ اس طرح اگر ہم کوشش کریں اور کسی ایک بچے کو جو ہمارے پاس کام کررہا ہے اور ہمارے اردگرد معاشرے میں موجود ہے۔ ہم اُسے کچھ لکھنا پڑھنا سکھادیں تو یہ چھوٹا سا عمل معاشرے میں بہت بڑی تبدیلی لے آئے گا۔



تعلیم یقیناً ایک ایسا زیور ہے کہ جو انسان کو شعور کی دولت سے مالا مال کرتا ہے۔ بے شک وہ بچے اپنا ہنر سیکھتے رہیں۔ اپنی محنت مزدوری جاری رکھیں۔ لیکن اگر اُس کے ساتھ وہ تعلیم بھی حاصل کرلیں گے تو بہت سے معاملات میں وہ اچھے بُرے کے درمیان تمیز کرنا سیکھ لیں گے۔ معاشرتی قوانین کو وہ سمجھنا شروع کردیں گے، اُنہیں اپنے حقوق کا بھی علم ہوجائے گا۔ ایسے میں یہ بچے آپ کے لیے صدقہ جاریہ بن جائیں گے۔

یہ چھوٹا سا کام ہے اِس کے لیے کسی بہت بڑی این جی او کی ضرورت نہیں۔ اِس کام کو شروع کرنے کے لیے نہ بڑے بڑے ہوٹلوں میں سیمینارز ضروری ہیں نہ اربوں روپے کے غیر ملکی فنڈ، بات سمجھنے کی ہے اگر آپ اس بات کو سمجھ کر عمل شروع کردیں تو اسی طرح چراغ سے چراغ جلتے جائیں گے۔

بظاہر گھر میں خدمت کے لیے آنے والی ماسی کی بچی کو پڑھانا ایک چھوٹا سا عمل ہے۔ مگر یہ بارش کا پہلا قطرہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر اس کے بعد بارش کی مانند ہر کوئی یہ عمل کرنے لگ گیا تو کوئی بعید نہیں جب ہماری نئی نسلیں بنجر نہیں ہوں گی۔ ہمارے آج کے بچے ہمارا زخیز کل ہوں گے۔ کیوں کہ اس کی آبیاری ہم نے اپنے ہاتھوں سے کی ہوگی۔ کسی بھی ایک بچے کو یوں تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کرکے آپ بھی یہ کہنے میں فخر محسوس کریں گے۔
پھلا پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کا

جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔