کراچی کے بعد لاہور میں
فیسٹیول کی جگہ الحمرا میں یعنی لاہور کے مرکز میں تھی اور سیکیورٹی کے انتظامات فول پروف تھے۔
میری خوش قسمتی ہے کہ ماہ فروری کے ابتدائی پندرہ دن کراچی میں گزرے اور مہینے کا بقیہ عرصہ لاہور موجودگی رہی۔ کراچی کے علم کے متوالوں نے اپنا چھٹا کراچی لٹریچر فیسٹیول چھ سات اور آٹھ فروری کو بیچ لگژری ہوٹل میں منانے کا اہتمام کررکھا تھا۔
ریاض منصوری نے میری اس شاندار فیسٹیول میں شمولیت کو ممکن بنا کر میری ذہنی اور روحانی ضیافت کی۔ اس سہ روزہ ضیافت کا نشہ مارچ کی یکم آ جانے تک قائم ہے۔ ہزاروں کے اس متنوع ادبی میلے میں مجھے لاہور سے آئے ہوئے درجنوں ادیب شاعر، مصور، نقاد اور دانشور ملے۔ بہت سے کراچی سے تعلق رکھنے والے مشاہیر سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔
ادھر لاہور میں بھی گزشتہ چند سال کی طرح بظاہر ایک NGO نے جس کا ایک بورڈ آف گورنرز، ایک ایڈوائزری کمیٹی، فاؤنڈنگ ڈائریکٹر و چیف ایگزیکٹو آفیسر ہے، لاہور لٹریری فیسٹیول (LLF) کا اہتمام کررکھا تھا۔ یہ لٹریری فیسٹیول بیس فروری سے بائیس فروری تک الحمرا کے پانچ ہال کمروں میں منعقد ہوا۔
بظاہر اس فیسٹیول کے لیے نہ منادی ہوئی تھی نہ اشتہار بازی لیکن 20 فروری کی صبح ہی سے لوگ سخت سیکیورٹی انتظامات میں سے بڑے ڈسپلن کے ساتھ گزر کر جوق در جوق الحمرا میں داخل ہونے کے بعد اپنی پسند کے پروگرام والے ہال میں اپنی نشستوں پر بیٹھ رہے تھے۔ الحمرا کے مرکزی لان میں مجھے ان عمارتوں کے آرکیٹکٹ نیئر علی دادا کھڑے مل گئے۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ اپنے اردگرد اتنی بڑی تعداد میں چلتی پھرتی نوجوان Elite Class کو دیکھ کر ششدر رہ گئے ہوں۔
لاہور لٹریری فیسٹیول کا پرنٹڈ تین دن کا پروگرام جو پانچ ہال کمروں کے لیے تھا صرف لٹریری موضوعات تک محدود نہ تھا جو متنوع تو تھے لیکن ان میں اردو ادب یا پاکستانی ثقافت پر توجہ کی کمی کا احساس ضرور ہوتا تھا۔ تین دن کے فیسٹیول میں کم و بیش دو درجن کتب کی لانچ کے پروگرام تھے اور یہ کتب بھی اکثر لاہور اور پاکستانی ادب و کلچر سے بیگانہ تھیں۔
ان پر اظہار خیال کرنے یا تعارف کروانے والے ادیب البتہ اچھی تیاری کے ساتھ تشریف لائے تھے جن کی رواں انگریزی دانی پر کوئی کلام نہ تھا۔
تقریب میں غیر ملکی مندوبین کی اکثریت تھی جب کہ فیسٹیول کے شریک مرد و زن میں ملک کی اشرافیہ کے نمائندوں کی تعداد بکثرت تھی یہاں تک کہ بعض اوقات شک ہوتا تھا کہ ہم لاہور کی بجائے کسی یورپی ملک کے شہر میں ہیں۔
فیسٹیول کی جگہ الحمرا میں یعنی لاہور کے مرکز میں تھی اور سیکیورٹی کے انتظامات فول پروف تھے۔ الحمرا کے باہر اور اندر بہترین ڈسپلن نظر آتا تھا جو قابل ستائش تو بہرحال تھا لیکن سوچ بچار پر ملکی حالات پر افسوس کے احساسات اجاگر کرتا تھا۔ ایک بات باعث حیرت ہی رہے گی کہ کراچی میں 6 فروری سے 8 فروری کے تین دن منعقدہ لٹریچر فیسٹیول میں میری ملاقات جتنے لاہور سے تعلق رکھنے والے ادیبوں، شاعروں اور اہل قلم سے ہوئی لاہور کے فیسٹیول میں اتنی تعداد مقامی اہل علم و قلم سے نہ ہوئی۔ البتہ بیگم عابدہ حسین، اعتزاز احسن اور عاصمہ جیلانی کو دونوں جگہ دیکھا اور جو بے تکلفی، اپنائیت اور زندہ دلی کا ماحول کراچی میں پایا وہ لاہور میں مفقود تھا۔
اتفاق سے جس مال روڈ پر الحمرا میں تین دن تک لاہور لٹریری فیسٹیول برپا رہا اسی سڑک پر NCA یعنی نیشنل کالج آف آرٹس کی عمارت بھی ہے جس کی پیشانی پر شیخ سعدی کے شعر کا مصرع تحریر ہے
کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی
NCA وہ ادارہ ہے جس کا نام اور مقام کسی تعارف کا محتاج نہیں کیونکہ اس کے حوالے سے پاکستان کی پہچان ساری دنیا میں مسلّم ہے اور اس سے منسلک رہنے والی شخصیات آرٹ اور مصوری میں یکتا رہی ہیں۔ ان کا قلم اور برش اور ان کے رنگین شاہکار مانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ اس آرٹس کدے کے حوالے سے چند ایک نام حاجی شریف، شیخ شجاع اللہ، شاکر علی، سعید اختر، خالد اقبال، احمد خاں، شازیہ سکندر، مرتضیٰ جعفری، نیئر علی دادا، اعجاز انور (ننھا)، ساجدہ ونڈل اور سلیمہ ہاشمی کے گنوائے جا سکتے ہیں۔
نیشنل کالج آف دی آرٹس ہی سے فارغ التحصیل ہونے والے منی ایچر پینٹنگ کے پروفیسر بشیر احمد جنھوں نے 39 سال تک اسی ادارے میں بحیثیت استاد خدمات انجام دیں، آج بھی پنسل، قلم اور برش تھامے ہوئے شہکار تخلیق کرنے میں مشغول نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں گورمانی فاؤنڈیشن کے ہال کمرے میں انھوں نے اپنی 55 منی ایچر پینٹنگز کی نمائش سجا رکھی تھی جس کا افتتاح بیگم عابدہ امین اللہ ممبر بورڈ آف گورنرز گورمانی فاؤنڈیشن نے کیا۔ استاد بشیر نے نمائش دیکھنے آئے افراد کو اپنی پینٹنگز کا راؤنڈ لگواتے ہوئے ان کو چھ کیٹگریز میں تقسیم کر کے متعارف کروایا جو کچھ اس طرح تھا۔
(1) منی ایچر پینٹنگز، (2) گریفائٹ ڈرائنگز، (3) ایکریلک پینٹنگز، (4) مکسڈ میڈیا پینٹنگز، (5) میٹل پینٹنگز، (6) لینڈ سکیپ
نمائش میں رکھی ہوئی 55 پینٹنگز میں سے کسی پر اس کی قیمت کا اندراج نہیں تھا جو ایک غیر معمولی بات تھی کیونکہ ایک پینٹر کی روزی روٹی اس کی پینٹنگز کی فروخت ہی سے وابستہ ہوتی ہے۔
دریافت پر استاد بشیر احمد نے بتایا کہ ان کی ہر پینٹنگ برائے فروخت ہے لیکن چونکہ نمائش کا اہتمام گورمانی فاؤنڈیشن میں کیا گیا ہے جو کہ ایک ٹرسٹ عمارت ہے لہٰذا اس جگہ کو سیل پوائنٹ بنانے سے گریز کیا گیا ہے لیکن خریداری میں دلچسپی رکھنے والے حضرات اپنی پسند کی پینٹنگ ان کی رہائش گاہ پر آ کر خرید سکتے ہیں۔