دہشت گردی کا جائزہ اور اہم فیصلہ
وطن عزیز میں دہشت گردوں نے بڑے منظم طریقے سے پاکستان کی ریاست کوکھوکھلا کیا ہے۔
وطن عزیز میں دہشت گردوں نے بڑے منظم طریقے سے پاکستان کی ریاست کوکھوکھلا کیا ہے۔اس کی بنیاد اس وقت شروع ہو ئی جب 5جولائی 1977 کو جنرل ضیا الحق نے غیر ضروری طور پر مارشل لاء نافذ کیا اور اس وقت سب سے بڑی سیاسی جماعت پی پی پی اور اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے اس ملک کو مزید ٹوٹنے سے بچایا جنہوں نے پختونستان اورگریٹر بلوچستا ن کی تحریک کو ختم کیا جنہوں نے کراچی میں ایشیا کی سب سے بڑی اسٹیل مل لگوائی جو کہ ڈھاکہ میں لگائی جانی تھی۔
90ہزار پاکستانی قیدیوں کو اور مقبوضہ علاقوں کو ہندوستان سے آزاد کروایا ، دنیا کے پہلے اسلامی ملک پاکستان کو جوہری قوت بنایا ان سے ضیاء الحق نے اس طرح بدلہ لیا جس طرح امریکا کے صدر جمی کارٹر اور سیکریٹری خارجہ ہنری کسنجر چاہتے تھے۔صرف بھٹو کی مخالفت میں ملاُ ازم کو فروغ دیا جس سے ملک میں فرقہ وارنہ کشیدگی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا اور لسانی سیاست کا فروغ ہو اورہیروئن کلچر اورکلاشنکوف کے ذریعے ریاست کو کمزور کیا گیا۔
لاکھوں افغانیوں کو پاکستان میں آنے کی اجازت دی گئی جس سے ہمارے ملک کی معیشت تباہ ہو گئی۔ کراچی جیسا تجارتی حب دن بدن برباد ہوتا رہا۔ اب گزشتہ دودہائیوں سے اس شہرکراچی کے لوگوں پر دہشت گردی کا خوف چھایا ہوا ہے۔ اب نہ یہاں تعلیم نہ صحت نہ علاج و معالجے کے مرکز محفوظ ہیں۔ نہ کسی تاجر کا کاروبار نہ یوٹیلٹی کی وہ سہولتیں ہیں جو اس شہرکا خاصہ رہی ہیں۔
اب دہشت گرد، ملک دشمن،بھتہ خور اور ٹارگٹ کلر اور نا سمجھ ملک وقوم کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے والے نام نہاد علماء نام نہاد تنظیمیں نام نہاد مذہبی جماعتیں یہ سب ملکر دہشت گردوں کی پشت پناہی اس لیے کرتی رہیں کہ وہ ریاست پر قبضہ کر کے اپنے نظریے کو بزورقوت پوری ملت پر نافذ کرسکیں اور ہماری بدقسمتی یہ ہے ملک کی چند سیاسی جماعتوں اور چند بڑی جماعتوں نے ان ملک دشمن عناصر کو کسی نہ کسی انداز میں پروان چڑھنے کا موقع دیا۔
یہانتک کہ ان ملک دشمنوں نے پہلے ہمارے سیکیورٹی اداروں خاص طور پر پولیس اور رینجرز کو اپنے نشانے پر رکھا اور پھر اتنا آگے بڑھ گئے کہ ہماری اہم عسکری مراکز پر حملے کیے حالانکہ اس حد تک وہ کسی حال میں نہیں پہنچ سکتے تھے۔ اگر انھیں مذہبی جماعتوں کی آشیر باد حاصل نہ ہوتی۔ کاش 2013 کے انتخابات میں ساری سیاسی قوتیں ان کے خلاف اس طرح متحد ہوتیں، جس طرح 16دسمبر کے وحشیانہ بربریت کے واقعے کے نتیجے میں ہوئیں تو شاید آج فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں نہ آتا۔ 21ویں ترمیم کے تحت صرف فوجی عدالتوں کے دائرہ کار میں اضافہ ہوا اور فوجی عدالتیں وقت کی اہم ضرورت ہیں ۔
ان عدالتوں کے قیام سے عوام میں ایک اطمینان پیدا ہوا ہے اور جو 60ہزار سے زائد بے گناہ لوگ شہید ہوئے جن میں سب سے بڑے شہید وہ معصوم بچے تھے جو پشاور کے اسکول میں حصول تعلیم کے لیے آئے تھے اور دوسر ے بڑے شہید وہ مسلمان ہیں جہنیں حالتِ نماز میں اس وقت شہید کیا جب وہ اللہ کے گھروں میں حالت قیام حالت رکوع اور سجد ے میں تھے۔ ان تمام شہداء کے لواحقین ان کے وارثین کی آنکھوں سے بسنے والے آنسو جب رکیں گے جب انھیں یہ دیکھنے کو ملے گا کہ فوجی عدالتوں نے ان ملک و قوم و ملت کے دشمنوں کوکیفر کردار تک پہنچایا ہے۔
ہمارے عوام میں اتنی ہمت نہیں رہی کہ وہ ملک دشمنوں کے خلا ف جاری آپریشن کی ناکامی برداشت کریں ۔ وہ تو اب اس یقین کے سا تھ اپنی پاک افواج کے شانہ بشانہ مل کر چل رہے ہیں کہ ہرحال میں کامیابی حاصل کرنی ہے۔ اور انھیں اب صرف اور صرف اپنی فوج پر اعتماد ہے کہ کوئی ملک دشمن کوئی دہشت گرد کوئی بھتہ خور کوئی ٹارگٹ کلر ان کی گر فت سے نہیں بچ سکتا ۔ ہماری پاک افواج کے ماتحت ایجنسیاں مشترکہ تعاون کر رہی ہیں جس کے ذریعے خفیہ معلومات سے بڑے بڑے دہشت گرد، ملک دشمن ان کی حرکات وسکنا ت زیر نگرانی ہیں۔ انھیں چاہیے ان لوگوں کی بھی گرفت کریں جو ان جرائم کر نے والوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں، ان کو حکم دے رہے ہیں۔
مجھے تو یہ یقین ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسیوں کے پاس پہلے ہی بڑی معلومات کا ذخیرہ موجود ہو گا۔ان خفیہ معلومات کو فوجی عدالتوں میں بطور شہادت ضرور پیش کر سکتے ہیں۔ ہماری عدالتوں میں عدم ثبوت اورگواہوں کے سامنے نہ آنے کی بنیاد پر ہزاروں ملک دشمن اور فرقہ واریت کا زہر پھیلانے والے ، بھتہ خور ٹارگٹ کلر رہا ہوچکے ہیں۔
اس لیے موجودہ حالات کا تقاضہ ہے کہ حکومت دہشت گردی، فرقہ واریت،بھتہ مافیا اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ملوث افراد کے کیس ہر حال میں فوجی عدالتوں میں بھیجیں اور باقی لاکھوں مقدمات جو عدالتوں میں گزشتہ کئی دہائیوں سے زیر التواء ہیں ان کا فیصلہ سنانے میں تیزی سے کام کریں۔عدالتوں میں جج صاحبان کی کمی پہلے ہی ہے اس لیے سنگین نوعیت کے جرائم کے مقدمے فوجی عدالتوں میں جانے سے ان پر بوجھ کم ہوگا، فوجی عدالتیں، متوازی عدالتیں نہیں ہیں ، بلکہ یہ معاونت کر رہی ہیں اس میں نہ کسی وکیل کو پریشان ہونے کی ضرورت ہے نہ کسی جج کو ۔
کتنے ظالم قاتل،دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے رہا ہوتے رہے کم سے کم فوجی عدالتوں سے ان کو اس طرح کی کوئی رعایت نہیں ملے گی۔ ہمیں امید ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اور تمام صوبو ں کے وزرائے اعلیٰ ان معاملات پر صرف قومی اور عوامی مفاد کو مد نظر رکھ کر ہی فیصلہ کریں گے۔بلکہ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ پورے پاکستان کی وزارت داخلہ چاہے قومی ہو یا صوبائی اسے فوج کے حوالے کردیا جائے اتنی مدت کے لیے جتنی مدت کے لیے فوجی عدالتیں کام کریں اس طرح ان شکایات کا ازالہ ہوجائے گا۔ جو کراچی میں وزیراعظم کو فوجی اور رینجرز حکام نے کی ہیں۔
کیونکہ اگر یہ وزارت سویلین حکومت کے پاس رہی تو وہ مفاہمت کی بنیاد پر انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکے گی اور اس طرح خدانخوستہ آپریشن کو ناکام بنا کر سارا ملبہ فوج پر نہ ڈالا جائے۔صرف وزارت داخلہ کو فوج کے حوالے کرنے سے بڑے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔