مثبت سوچ
کہتے ہیں الفاظ گردش کرتے ہیں، جو خیال بار بار آئے وہی ہو جاتا ہے۔
SWAT:
تیمور لنگ جنگ میں مسلسل شکست کھانے کے بعد ایک غار میں مایوسی کی حالت میں پناہ لیے ہوئے تھا، سلطنت کا وسیع حصہ دشمنوں کے قبضے میں چلا گیا تھا، جو دوست تھے وہ دشمن بن چکے تھے، غرضیکہ چاروں طرف مایوسی کے بادل چھائے ہوئے تھے، اسی مایوسی کی حالت میں بیٹھے بیٹھے اس نے دیکھا کہ ایک چیونٹی دیوار پر چڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
باقی چیونٹیاں دیوار پر چڑھ چکی ہیں مگر یہ چیونٹی بار بار چڑھنے کی کوشش میں گر جاتی ہے مگر اس نے اپنی کوشش ترک نہ کی اور آخر کار منزل مراد کو آنے میں کامیاب ہو گئی۔
یہ دیکھ کر تیمور لنگ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی اور اس نے اپنے دل میں کہا کسی نے صحیح کہا ہے کہ مایوسی کفر ہے، میں یہاں اپنی فوج سے بددل ہو کر جان بچا کر چھپ کر کیوں بیٹھا ہوں، مجھے ایک کوشش اور کرنی چاہیے۔ پھر اس نے اپنی بچی کچھی فوج کو اکٹھا کیا اور دشمن پر بھرپور حملہ کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فتح اس کا مقدر ٹھہری۔
کسی بھی شخص کی زندگی میں وہ دن اہمیت کا حامل ہوتا ہے جس دن اسے اس حقیقت کا علم ہو جاتا ہے کہ اس کی ساری زندگی میں ناکامی یا کامیابی کا تعلق زیادہ تر جذبات پر اس کے کنٹرول کے معاملے میں ہے۔ ہماری والدہ کہا کرتی تھیں کہ ہمیشہ مثبت سوچ کو اپناؤ۔ انشاء اﷲ سب اچھا ہی ہو گا اور اکثر ایسا ہی ہوتا تھا خیالات کو اپنے طابع کرنے انسان ہر وہ چیز حاصل کر سکتا ہے۔
جس کی تمنا دل میں رکھتا ہے۔ اکثر لوگ اپنے حالات کا رونا روتے ہیں کہ حالات نہیں بدلتے، فلاں آدمی کہاں سے کہاں چلا گیا، یہ منفی سوچیں پھر اس قدر گردش کر جاتی ہیں کہ کوئی بھی اچھا کام نہیں ہو پاتا، مایوسی انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔
کہتے ہیں الفاظ گردش کرتے ہیں، جو خیال بار بار آئے وہی ہو جاتا ہے، اس لیے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ ہم مسلسل سوچتے ہیں اور کرتے ہیں وہی ہو جاتا ہے، اگر برا ہو تو ہم سارا الزام قسمت پر ڈال کر خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں، ورنہ قسمت کو سنوارنا ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہوتا ہے، کیوں کہ جہاں کوئی شدید خواہش ہوتی ہے وہاں یقین کی پختگی ہی سب کچھ ہوتی ہے۔
بینجمن اسرامی کو اکثر لوگ انگلینڈ کا عظیم وزیراعظم سمجھتے ہیں، اس نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک مصنف کی حیثیت سے کیا لیکن وہ اس میدان میں زیادہ کامیابی حاصل نہ کر سکا، کیوں کہ اس کی کسی کتاب نے عوامی مقبولیت حاصل نہیں کی، اس میدان میں ناکام ہونے کے بعد اس نے بغیر دل برداشتہ ہوئے اپنی صلاحیتوں کو دوسرے میدان میں آزمانے کا فیصلہ کیا اور اپنے اندر یہ سوچ پیدا کی کہ وہ انگلینڈ کا وزیراعظم بنے گا۔
1837ء میں میڈاسٹون سے پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا لیکن پارلیمنٹ میں اس کی پہلی تقریر کو مکمل طور پر ناکام تصور کیا گیا، اس نے بددل ہونے کے بجائے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور اس کے نتیجے میں وہ دارالعوام کا لیڈر بنا، پھر محکمہ مالیات کا چانسلر منتخب ہوا اور آخرکار ملک کا وزیراعظم بن گیا۔ اپنی کامیابی کو اس نے ایک جملے میں بیان کیا کہ ''کامیابی کا دارومدار مقصد پر ثابت قدم رہنا ہے''۔ اگر کوئی مقصد ذہن میں ہو تو راہ میں آنے والی تمام تر مشکلات کے باوجود بھی ہر مقصد کو حاصل کر لیا جاتا ہے۔
آج پاکستان میں عوامی سطح سے لے کر ایلیٹ کلاس تک میں مایوسی کے بادل چھا گئے ہیں۔ خوش امیدی نظر نہیں آتی، پاکستان کو ایک ناکام ریاست تصور کر لیا گیا ہے کیوں کہ ہماری نظریں تمام تر منفی پہلوؤں کا ہی احاطہ کرتی ہیں، اگر ہم مثبت پہلوؤں کو مدنظر رکھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہر کام اچھا ہونے لگے گا۔ منتخب حکومت اگر اپنے دل میں تہیہ کر لے کہ ہمیں پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ کر کے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے آپ کو منوانا ہے، لاء اینڈ آرڈر کو درست کرنا ہے، اصل بات مثبت سوچ اور پھر اس پر عمل درآمد کرنے کی ہے۔
اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا اچھی بات ہے مگر اس ناکامی کے نتیجے میں مایوس ہو کر مقصد سے آنکھیں چرانا بزدلی اور موت ہے۔ مقصد کی پایہ تکمیل تک جدوجہد کرنا اور اصولوں پر سودے بازی نہ کرنا ہی مقصد کے حصول کو ممکن بنا سکتا ہے۔ آج اگر دیکھا جائے تو ہر سیاست دان یہ کہتا نظر آتا ہے کہ ہم ہی ملک کے سچے خیر خواہ ہیں، ہماری پالیسیاں ہی ملک کو شاہراہ ترقی پر ڈال سکتی ہیں مگر جب ہم ان کے عملی اقدام کی طرف دیکھتے ہیں تو نہ ان میں جوش نظر آتا ہے نہ ولولہ، بلکہ کہیں کہیں تو اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے لیے بھی مشکوک نظر آتے ہیں۔
سینیٹ کے انتخابات پر ہر شخص، ہر لیڈر ہارس ٹریڈنگ کے خلاف بڑھ چڑھ کر بول رہا ہے مگر عملی تصویر یہ ہے کہ بھرے ہوئے بریف کیس ادھر سے ادھر ہو رہے ہیں، یقین ہی متزلزل ہو تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے، جب اعتماد ختم ہو جاتا ہے تو بے یقینی کی صورت حال ایسے ہی کام کرواتی نظر آتی ہے، جسمانی، ذہنی آزادی اور معاشی تحفظ اس ذاتی پیش قدمی کے نتیجے ملتے ہیں جو اپنے اندر سے انسان کو مضبوط بناتی ہے ورنہ ایک کشتی سے دوسری کشتی اور پھر تیسری کشتی میں چھلانگ لگانے والا کیسے کامیاب ہو سکتا ہے۔
آج اکثریت کا یہی حال ہے کہ ذاتی مقاصد، ذاتی مفادات کو پیش نظر رکھ کر اپنی وفاداریاں تبدیل کر لی جاتی ہیں ایک پارٹی سے دوسری اور پھر تیسری چوتھی پارٹی کا سفر اتنی جلدی جلدی طے کیا جاتا ہے کہ ملکی مفادات کہیں دور رہ جاتے ہیں۔