عقل سے دشمنی کا نتیجہ

سمجھ میں نہیں آتا آیا اسے عقل کی شکست کہا جائے یا اسے ہٹ دھرمی اور ماضی سے چمٹے رہنا کہنا جائز ہے۔


Aftab Ahmed Khanzada March 04, 2015

پانچویں صدی ق م میں ایتھنز میں کچھ ایسی سماجی تبدیلیاں رونما ہوئیں جنہوں نے فکر کا دھارا طبعی فلسفے سے انسان اور انسانی سماج میں ہونیوالی تبدیلیوں کی طرف موڑ دیا۔ پانچویں صدی ق م کے آخری نصف میں ایتھنز کی شہری ریاست میں زبردست صنعتی، زرعی اور تجارتی ترقی ہوئی یہ ایک معاشی انقلاب تھا جہاں قانون اور فرد کا نئے طور پر سامنا ہوا جہاں فرد کو اپنے حق کے لیے کچھ کہنا تھا اس کے لیے ایک نئے اظہار، لغت، منطق اور زبان کی ضرورت تھی اور ساتھ ساتھ پرانے طور طریقوں، سوچ اور اقدار پر کاری ضرب لگانے کی ضرورت تھی۔

مسئلہ ایسی فکر سامنے لانے کا تھا جو پرانے دقیانوسی فکر کی جگہ آس پاس رواں دواں زندگی کا ترجمان ہو جو انسانی تعلقات اور سماج میں پیدا ہونیوالے نئے روابط کا احاطہ کر سکے اور انھیں آگے بڑھا سکے اس لیے سقراط اور دیگر فلسفیوں نے آ کر تمام پرانے نظریات اور اقدار کو چیلنج کر دیا اور انھیں عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی طرف راغب کیا۔

اسی زمانے میں چین، ہندوستان، ایران اور فلسطین میں بھی بیک وقت انسا ن کی نئی ارتقائی منزلیں تشکیل پا رہی تھیں چین میں کنفیو شس اور لاوزے اور ان کے بعد موزلے اور چوانگ زلے نے پورے چینی فلسفے کا تارو پود تیار کیا، ہندوستان میں یہ اپشندوں اور بدھ مت کا زمانہ تھا۔ یہاں بھی چین کی طرح نئے رحجانات پیدا اور پروان چڑھ رہے تھے ایران میں زرتشت نے نیکی اور بدی کی ازلی پیکار کا تصور پیش کیا۔

فلسطین میں بنی (ایلیجاہ، حرمیاہ، اشعیا) پیدا ہوئے، اس عہد کی سب سے بڑی بات یہ تھی کہ انسان کو پہلی بار اپنی عظمت کا احساس اور شخصیت کے لامحدود امکانات کا علم ہوا ہندوستان کے رشی چین کے جہاں گرد راہب، اسرائیلی بنی اور یونانی فلسفی اپنے باہمی امتیازات کے باوجود دنیا کو ایک ہی پیغام دیتے سنائی دیے کہ انسان اپنی ذات میں سمٹ کر اور نفس کی پنہائیوں میں کھو کر کائنات کے رازوں کا امین بن سکتا ہے اور نور باطن اور فکر و وجدان ہی و ہ مشعل راہ ہے۔

جس کی روشنی میں چل کر اس مسرت لازوال کو پا سکتا ہے جس کی جستجو وہ ازل سے کرتا آیا ہے اس کے بعد سے تقریباً پوری دنیا میں رجعت و قدامت پسند نظریات، عقل دشمن باتوں، بوسیدہ روایات کو عبرتنا ک شکست کا سامنا کرنا پڑا اور آج پوری دنیا پر نئے نظریات، نئی روایات اور عقل کا راج قائم ہے لیکن اس کے برعکس ہمارے ملک میں آ ج تک عقل کو فتح نصیب نہیں ہو سکی ہے اور آج بھی ہمارے سماج میں وہ ہی صدیوں پر انے نظریات اور بوسیدہ روایات کی اجارہ داری قائم ہے اور عقل آج بھی ہمارے سماج میں چھپتی پھرتی ہے اور اس کے سامنے بنیاد پرست خیالات دندناتے پھرتے ہیں حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب اچھے خاصے پڑھے لکھے حضرات بھی اپنے بوسیدہ خیالات اور رجعت پسند روایات کو ترک کرنے سے انکار کرتے نظر آتے ہیں اور اپنی باتوں اور رہن سہن میں اس کا اظہار کرتے پھرتے ہیں۔

سمجھ میں نہیں آتا آیا اسے عقل کی شکست کہا جائے یا اسے ہٹ دھرمی اور ماضی سے چمٹے رہنا کہنا جائز ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں یہ وہ انسانی المیہ ہے جس پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ حالت حاضرہ پہ تبصر ہ کرتے وقت جو شخص اپنا بلڈ پریشر اور گالی پر قابو رکھ سکے وہ یا تو ولی اللہ ہے یا پھر خود حالات کا ذمے دار ہے جب کہ افلاطون نے کہا تھا ''کسی شخص پر اس سے بڑی اور کوئی مصیبت نا زل نہیں ہو سکتی کہ وہ عقل و خرد کی مخالفت کرنے لگے''۔ ذہن نشین رہے کہ آج جو عذاب اور مسائل ہمیں درپیش ہیں یہ نہ تو آسمان سے ٹپکے ہیں اور نہ ہی زمین پھاڑ کر باہر نکلے آئے ہیں اور نہ ہی یہ پاکستان بننے کے بعد ہمارے ملک میں پھینک دیے گئے تھے۔

ان تمام مسائل اور عذابوں کے خالق ہم خود ہیں کیونکہ ہماری دشمنی عقل سے ہو گئی تھی اسی لیے ہماری ان تھک محنت، جدوجہد، کا وشوں، چاہتوں اور ارمانوں کے نتیجے میں یہ سب عذاب ہمارے نصیب میں آ گئے ہیں یہ انتشار، انتہاپسندی، دہشتگردی، فرقہ واریت، تعصب، نفرت ہمارے اعمال اور فکر و سو چ کی پیداوار ہیں۔

ظاہر ہے جب آپ کی عقل سے دشمنی ہو جائے گی تو عقل انتقام تو لے گی اور یہ عقل کا ہی انتقام ہے جو ہمارے سامنے ہم پر منہ پھاڑے قہقہے لگا رہا ہے جب یہ سب کچھ ہمارا اپنا کیا دھر ا ہے تو پھر اس پر چیخنا چلانا کیسا، رونا کیسا، دہائیاں دینا کس لیے کر پشن، لوٹ مار، انتہاپسندی، دہشت گردی پر غم و غصہ کس لیے؟ ظاہر ہے جو آپ بوئیں گے وہ ہی تو کاٹیں گے جب آپ محبت اخوت، رواداری، مساوات، برداشت، احترام کے بجائے نفرت، تعصب، تنگ نظری، جہالت کے بیج ڈالیں گے تو وہ ایک دن دیو بن کر زمین پھاڑ کر ہی تو نکل آئینگے اور جب نکل آئے ہیں تو رونا دھونا چھوڑیں آئیں مل کر جشن منائیں کہ ہم کامیاب ہو گئے سرخرو ہو گئے ہماری خود کی وجہ سے آج شرافت ایک گالی بن چکی ہے۔

ایمانداری قابل نفرت جرم بن کے رہ گئی ہے سچائی کی ہر چوراہے پر بے حرمتی ہو رہی ہے اخلاقی اقدار، تہذیب و تمد ن اور اصولوں کو گلی گلی برہنہ گھسیٹا جا رہا ہے رواداری اور برداشت کی لاش کو نوچ نوچ کر ادھیڑا جا رہا ہے۔ ہم سب کو ایک دوسرے کو رشک، تعریف اور تحسین کی نگاہوں سے دیکھنا چاہیے کہ ہم نے اپنا حال کیا سے کیا کر دیا ہے اور کیا معصومیت ہے ہماری کہ ہم اپنی ساری خرابیوں اور برائیوں کا ملبہ اپنے آپ پر ڈالنے کے بجائے غیر ملکیوں پر ڈال دیتے ہیں اور بڑی ہی بے شرمی سے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک غیر ملکی سازش کے تحت ہو رہا ہے۔

ساری دنیا ہماری دشمن بن گئی ہے ہمیں مٹانے پہ تلی بیٹھی ہے ہمارے خلاف دن رات سازشیں کر رہی ہے۔ معاف کیجیے گا عقل سے دشمنی کا نتیجہ اس کے علاوہ کوئی اور نکل ہی نہیں سکتا تھا۔ اگر آپ اب بھی اپنے حالات کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور پوری دنیا کی طرح خوشحال، پرامن، ترقی سے بھرپور زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آئیں آج ہی عقل سے دوستی کر لیں، بوسیدہ، رجعت اور قدامت پرست خیالات کو کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیں اور روشن خیالی کو اپنا لیں اور پوری دنیا کے ہمسفر بن جائیں پھر دیکھیں کس طرح راتوں رات آپ کے نصیب بدلتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں