ہٹلر کے دیس آسٹریا کی سیر
مسلمان کم تعداد میں ہیں البتہ ویانا میں کچھ زیادہ ہیں کھانے پینے کے لیے زیادہ تر Macdonald کی عمارتیں موجود ہیں۔
ایک عرصے سے خواہش تھی کہ مغربی یورپ کے بعد مشرقی یورپ کی بھی سیر کر لی جائے گو کہ اس سے قبل لندن، بھارت، نیپال، بنگلہ دیش (ڈھاکہ) کو دیکھ چکا تھا یورپ کی ایک جھلک برطانیہ میں دیکھ چکا تھا مگر چونکہ انگلینڈ ابھی تک یورپی یونین کا حصہ نہیں بن سکا تھا سو میں یورپ دیکھنے کی خاطر چل پڑا۔
اس کا سہرا میرے بچپن کے دوست اقبال (بالے) کے سر رہا جو گزشتہ 45 برس سے آسٹریا کے شہر لینز (Linz) میں رہائش پذیر ہے اس کی دعوت پر ترکش ایئرلائن کے ذریعے براستہ استنبول آسٹریا کے دارالخلافہ ویانا کے لیے روانہ ہوا، اس سے قبل ویزہ حاصل کرنے کے لیے اسلام آباد کے چکر بھی لگائے۔ خیر ویزہ پورے یورپ کے ممالک (Schengener Staaten) کا 4 ماہ کا ویزہ مل گیا اور میں یورپ چلا گیا۔
ویانا جسے (Wine) بھی کہتے ہیں ایئرپورٹ پر میرے دوست اقبال اپنی بیگم یاسمین اور بیٹی صائمہ کے ساتھ میرے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ویانا ایئرپورٹ بڑا کشادہ، بڑا خوبصورت اور تین منزلوں پر مشتمل ہے۔ ایئرپورٹ سے باہر ایک عجیب دنیا ہے سب طرف گورے چٹے لوگ، خوبصورت خواتین، بچے، بوڑھے خوش و خرم باہر نکل رہے تھے۔ میں بھی اپنے دوست کے ہمراہ ان کی کار میں ویانا سے لینز کی طرف روانہ ہوا۔ ویانا سے لینز کا فاصلہ 190 کلومیٹر تک کا ہے۔
ہم تین گھنٹے کی مسافت کے بعد گھر پہنچ گئے۔ راستے میں میکڈونلڈ (Mcdonald) میں کافی اور چائے پی، بڑی کشادہ سڑکیں، دو طرفہ ٹریفک رواں دواں تھا۔ راستے میں ہر طرف سبز پہاڑیاں بھی آئیں۔ صاف شفاف سڑکیں بلند اور دیگر عمارتیں آتی رہیں میرا دوست مجھے بتاتا رہا کہ وہاں جرمن زبان بولی جاتی ہے اور بہت سارے افراد کی طرح میں بھی ایڈولف ہٹلر کو جرمنی کا شہری سمجھتا تھا۔ مگر جانے سے قبل معلوم ہو گیا تھا کہ ہٹلر پیدائشی طور پر آسٹرین تھا وہ آسٹریا کے شہر بروناؤ (Buronio) میں پیدا ہوا تھا۔ اس وقت آسٹریا کے ماتحت کئی ایک ممالک آتے تھے جن میں جرمنی بھی شامل تھا۔
آسٹریا کی سلطنت بہت بڑی تھی اور وہاں بادشاہت قائم تھی پھر بعد میں ہٹلر جرمنی آ گیا پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا مگر اپنی شکست کے بعد گمنامی میں روپوش ہو گیا یا خودکشی کر لی آج تک معلوم نہ ہو سکا؟ خیر بات آسٹریا کی ہو رہی تھی ہم نے اگلے دن شہر کی سیر کی۔ ٹرام میں سفر کر کے لینز ریلوے اسٹیشن گئے۔ بڑا خوبصورت اسٹیشن یہاں کی ریلوے کا نام OBB ریلوے ہے ہمارے تو ایئرپورٹ بھی ایسے نہیں ہیں جیسے یورپ کے ریلوے اسٹیشن ہیں۔
انڈر گراؤنڈ ٹرین، ٹرام بھی انڈر گراؤنڈ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر رکتی ہے اور پھر ٹرام سے اتر کر اسٹیشن پر اور پھر اسٹیشن سے کسی دوسرے شہر یا پھر کسی دوسرے ملک بھی جا سکتے ہیں جہاں ریل کا نظام آٹو میٹک اور الیکٹرک سسٹم کے تحت چل رہا ہے ریل گاڑیاں منٹوں کے حساب سے چلتی ہیں اگر دن ہو یا رات ٹرین نے 10 بج کر 12 منٹ پر آنا ہے تو وہ ٹھیک 12 منٹ پر آئے اور 14 منٹ پر چل پڑیگی۔ اسی طرح ٹرام کے اسٹاپ پر بورڈ لگا ہوا ہے جس پر ٹرام کی آمد کا لکھا ہوتا ہے اور وہ ٹائم پر آ کر ٹائم پر ہی چلی جاتی ہے جو پورے شہر لینز کا چکر لگاتی رہتی ہے۔ لینز شہر کی آبادی تقریباً ڈھائی لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔
جب کہ پورے آسٹریا کی آبادی ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ویانا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی 20 لاکھ ہے آسٹریا کے 8 صوبے ہیں ہر صوبے میں ایک گورنر اور چیف پولیس آفیسر ہوتا ہے۔ پورے آسٹریا کے شہروں میں ایک ہی دریا ہے جس کا نام ڈینوب (Danaub) جو ہر شہر میں بہتا ہے۔ دریا کے کنارے ہی اقبال کا گھر ہے۔
ہم ہر روز سیر کو نکلتے اور شام کو واپس گھر آ جاتے۔ وہاں ایک بات تو بتانا بھول گیا جس دن میں آسٹریا آیا اس کے دوسرے روز ہی میرے دوست اقبال نے میری آسٹریا اور Linz آمد کی اطلاع دینے اور میری رجسٹریشن کرانے کے لیے حکومتی دفتر لے گئے جہاں میری آمد کا اندراج کیا گیا اور آسٹریا چھوڑنے سے قبل اطلاع دینے کے لیے ایک لیٹر مجھے دے دیا گیا۔ پھر اگلے دن ٹرام کا ایک ماہ کا ٹکٹ لے لیا گیا پھر اگلے دن آسٹریا ریلوے OBB پورے آسٹریا کے شہروں کا ایک ماہ کا ٹرین کا ٹکٹ بھی لے لیا گیا وہاں 65 سال کے بعد بزرگوں کو رعایتی ٹکٹ دیے جاتے ہیں۔
مگر ایک عجیب مسئلہ زبان کا تھا وہاں انگریزی اور اردو کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بس جرمن زبان میں کام چلتا ہے صرف نوجوان لڑکے اور لڑکیاں وہ بھی کالج یا یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں تھوڑی بہت انگلش جانتے ہیں باقی سب جرمن زبان میں اخبارات، کتابیں، ریلوے اسٹیشن کے نام بس اور ٹرام کے اسٹاپ کے نام روڈ، بینک، بلڈنگ، شاپنگ مال، اسکول، کالج، یونیورسٹی، پارک، قبرستان سب کچھ جرمن زبان میں ہوتے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے یورپ کا دورہ کرنے کے لیے جرمن زبان ضرور سیکھنی چاہیے ورنہ بڑی مشکل پیش آتی ہے خیر میرے ساتھ میرا دوست تھا جو میری ترجمانی کیا کرتا تھا جس شہر میں وہ تھا وہاں پاکستانی، انڈین 40 تا 50 افراد ہوں گے۔ البتہ ترکی کے لوگ کچھ زیادہ ہیں اور انھوں نے حلال کھانے اور گوشت کی دکانیں کھولی ہوئی ہیں اور انھوں نے ہی ایک عمارت میں مسجد بھی بنائی ہوئی ہے۔ البتہ سکھوں کا گوردوارا بھی موجود ہے۔
مسلمان کم تعداد میں ہیں البتہ ویانا میں کچھ زیادہ ہیں کھانے پینے کے لیے زیادہ تر Macdonald کی عمارتیں موجود ہیں۔ شراب اور بیئر بے پناہ ہے۔ بڑے بڑے شاپنگ مال، کھانے پینے کے بڑے بڑے اسٹور، جہاں تازہ سبزیاں، گوشت، مچھلی، بریڈ (ڈبل روٹی) دودھ، مکھن کئی قسم کی دہی، آئس کریم، چاکلیٹ، بسکٹ، صابن، ٹوتھ پیسٹ، میوہ جات، پھل اور فروٹ دستیاب ہیں جس پرایکسپائری تاریخ لکھی ہوتی ہے۔ آسٹریا سمیت پورے یورپ میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے بلکہ60 فیصد خواتین اور 40 فی صد مرد حضرات ہیں ہر شخص مصروف ہے۔
بچہ پیدا ہونے سے لے کر تعلیم، صحت، روزگار، رہائش مفت اور معمولی فیس کے ساتھ لازمی ہے۔ ہر شخص کے پاس گھر اور کار موجود ہے۔ ٹیکسوں کا نظام بہت بہتر ہے۔ جو ہر کام کرنے والے سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین سمیت دکاندار، کمپنی ہولڈر، ہوٹل مالکان، مارکیٹ مالکان سے لیا جاتا ہے پورا معاشرہ بڑا مہذب اور پڑھا لکھا ہے، ٹرین اور ٹرام یا بس میں سوار ہونے کے لیے (Q) لائن میں لگنا ضروری ہے۔ کتے اور بلیاں پالنا بھی ان کے مزاج میں شامل ہے۔ ایسا لگتا ہے وہاں سوشلزم آ چکا ہے ہر انسان کو بنیادی ضرورت کی اشیا ہر وقت میسر ہے۔ خوشحالی ہے، خوش اخلاقی ہے۔
(جاری ہے۔)