مغربی تہذیب اقبال اور مغربی مفکرین
اقبال نے مغربی فلسفہ وفکر کے بارے میں جو خیالات پیش کیے ہیں ان میں وہ شدت ہرگز نہیں۔
اگرچہ علامہ محمد اقبال کے مغرب کے تہذیبی، فکری اورفلسفیانہ حوالوں سے پیش کیے گئے خیالات اس نوعیت کے ہرگز نہیں تھے کہ جن کو پڑھ کر حتمی تسلیم کرلیا جائے اور اس کے بعد براہِ راست مغربی مفکروں کی کتابوں کو پڑھنے کی ضرورت ہی نہ رہے، مگر اس کے باوجود اقبال کا شمار جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ان چند مفکرین میں ہوتا ہے کہ جو مغرب کے تہذیبی،فکری اور فلسفیانہ افکار کا معقول علم رکھتے تھے۔
جہاں تک عہد حاضر کے آزاد خیالوں کا تعلق ہے تو ان کی جانب سے کوئی ایسی کتاب تحریر نہیں کی ہے کہ جس میں مغربی تہذیب، فلسفہ وفکر کا جامع انداز میں تجزیہ پیش کیا گیا ہو۔البتہ بعض آزاد خیال تحقیق واستدلال سے یکسر محروم مفروضات کو ہی تجزیات سمجھنے لگتے ہیں اور یہی ان کی سب سے سنگین غلطی ہے۔ دوسری انتہاء پر اقبال پرستوں کا یہ مبالغہ پرست دعویٰ ہے کہ اقبال نے تمام مغربی فلسفے کا نچوڑ پیش کردیا تھا، لٰہذا مغربی فلسفے کو سمجھنے کے لیے مغربی فلسفیوں کو پڑھنے کی بجائے صرف اقبال پر ہی تکیہ کیا جائے۔
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اقبال کے بعد فلسفے کی ضرورت نہیں رہی اوراگر یہ دعویٰ درست ہوتا تو مغربی فلسفہ وفکر اکیسویں صدی کے آغاز تک نہ پہنچتا۔اس تناظر میں ایڈمنڈ ہسرل، وٹگنسٹائن، مارٹن ہائیڈیگر، ژاں پال سارترے، تھیودور ادورنو ، ہربرٹ مارکوزے، مثل فوکو اور ژاک دریدا سمیت کئی اور اہم مفکرین کو مغرب کی فلسفیانہ زندگی سے نکال باہرکرنا ہوگا جو کہ درست رویہ نہیں ہے۔
اقبال نے اپنے چند اشعار میں مغربی تہذیبی، ثقافتی اور فکری زندگی کی جو تنقید پیش کی ہے وہ اس تنقید کے مقابلے میں بہت معمولی ہے کہ جو مغربی فلسفیوں اور ناقدین نے خود مغربی فکری وعلمی رجحانات کے بارے میں پیش کی ہے۔
اقبال نے مغربی فلسفہ وفکر کے بارے میں جو خیالات پیش کیے ہیں ان میں وہ شدت ہرگز نہیں کہ جو اسی مغربی تہذیب کے بارے میں ایڈمنڈ ہسرل، مارٹن ہائیڈیگر، ژاں پال سارترے،میکس ہورکہیمر، تھیوڈوراڈورنو،والٹر بینجمن اور ژاک دریدا جیسے فلسفیوں کے خیالات میں دکھائی دیتی ہے۔
ہمارے ہاں اقبال پر جو بعض آزاد خیال تنقید پیش کرتے ہیں، ان میں سے بیشتر مغربی علوم و فنون کی تاریخ سے یکسر نابلد ہیں اور جو تھوڑا بہت جانتے ہیں وہ اقبال کو اسلام پسند سمجھتے ہیں اور اگر کوئی اسلام پسند ہو تو لبرل حضرات اسے رجعت پسند اور قدامت پسند کہنے میں بھی دیر نہیں لگاتے، جب کہ رجعت پسندی کی سب سے بھیانک شکل موجود حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا ہوتا ہے اور آزاد خیال ایسی کسی بھی حقیقت کا انکار کرکے اتنے ہی رجعت پسند بن جاتے ہیں جتنا وہ اپنے مخالفین کو سمجھتے ہیں۔
آزاد خیالوں کا اقبال کو رجعت پسند یا قدامت پسند کہنے کا واحد محرک اقبال کی' اسلام پسندی' ہے، جب کہ اقبال کے ساتھ قدامت پسندی کا لاحقہ کچھ اس شدت سے ان کی مخالفت کا محرک بن جاتا ہے کہ مغربی تہذیب میں مضمر انحطاط پذیر اور گھناؤنے پہلوؤں کو دیکھنے والی نظریں بھی چندھیانے لگتی ہیں۔ میں نے اس مختصر تحریر میں یہ کوشش کی ہے کہ مغربی تہذیب میں مضمر دہشت و بربریت، ظلم و استبداد اور فکری و علمی اعتبار سے ان تنزل پذیر پہلوؤں کو بالکل ویسے ہی پیش کروں کہ جیسا کہ مغربی مفکرین نے انھیں دیکھا ہے۔
مغربی تہذیب انحطاط پذیر ہے یا نہیں؟اس میں دہشت وبربریت اور ظلم و استبداد کا کیا کردار رہا ہے؟ تہذیبوں کی خود کشی کے کیا مفاہیم ہیں اور ان معنوں میں مغربی تہذیب نے کبھی خودکشی کی ہے یا کہ نہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں کہ جن کے جوابات مغربی فلسفیوں نے کہیں زیادہ جامعیت اور قطعیت سے پیش کیے ہیں۔لبرل حضرات کے نزدیک مغربی تہذیب وتمدن میں شاید کوئی یک رخے اور تضادات سے ماورا ایسے پہلو موجود ہیں کہ جو مرحلہ وار ارتقا کی منازل طے کرتے جارہے ہیں،اور جہاں کہیں معاشی، سیاسی اور سماجی سطح پر تضادات نمایاں ہوتے ہیں، وہاں مغربی روشن خیال عقلیت آگے بڑھتی ہے اور ان تضادات کو اپنی فکری قوت سے تحلیل کردیتی ہے۔ تاریخ اس کے برعکس گواہی فراہم کرتی ہے۔
حقیقت کی گواہی یہ ہے کہ صرف بیسویں صدی کی مغربی تہذیب نے ظلم وتشدد،دہشت وبربریت اورقتال وسفاکیت کے ایسے نمونے پیش کیے ہیں کہ جن کی مثال تلاش کرنا ماضی قریب میں شاید ممکن نہ ہو۔لبرل حضرات پنجاب میں ہونے والی قتل و غارت کی ذمے داری 1947 کی تقسیمِ ہند کی آئیڈیالوجی پر بہت آسانی سے ڈال دیتے ہیں، مگر 1914 کی پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں ساڑھے تین کروڑ لوگوں کی موت کا ذمے دار سرمایہ دارنہ نظام کو نہیں سمجھتے کہ جس پر مغربی تہذیب ماضی کی باقیات کو منہدم کرتے ہوئے پروان چڑھ رہی تھی۔
یہی وہ دور تھا کہ جہاں مغربی تہذیب نے پہلی ''خودکشی'' کی تو اس کے فوراََ بعد روشن خیالی کے اس پروجیکٹ کا انہدام عمل میں آیا جسے انسانی 'نجات' کا واحد راستہ تصور کرلیا گیا تھا۔ مغربی تہذیب کی پہلی خود کشی کو اس بحران سے قبل ہی مغرب کے اہم مفکروں نے دیکھ لیا تھا۔ فریڈرک اینگلز نے 1885 میں یہ پیشین گوئی کردی تھی کہ اگر سرمایہ داری نظام کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہ کی گئی تو انسانیت کا مستقبل مخدوش ہوجائے گا۔ اینگلز کی پیشین گوئی پہلی جنگِ عظیم کی صورت میں درست ثابت ہوئی۔
یہی وہ خیالات تھے کہ جن کو کئی مغربی مفکرین نے وسیلۂ رہنمائی گردانا۔ جرمن فلسفی مارٹن ہائیڈیگر نے 1927 میں اپنی کتاب ''وجود اور زمان'' لکھی، اور اس میں جرمنی کے تہذیبی و فکری پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے فریڈرک ہیگل کے تفکری فلسفے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ بنیادی مقدمہ یہی تھا کہ ''کلیت'' کا جو تصور ہیگل کے فلسفے میں تشکیل پاچکا ہے،اس کے عملی اظہار کا یہی ایک طریقہ تھا جو پہلی جنگِ عظیم کی شکل میں سامنے آچکا ہے۔ہائیڈیگر نے ہیگل کے کلیت پسندانہ تعینات کو توڑکر ان میں توسیع کی۔
ہائیڈیگر سے پہلے اس کا استاد ایڈمنڈ ہسرل مغربی سائنس کے ان تصورات کے بحران کو ثابت کرچکا تھا جو ان ''کلیت پسندانہ'' رجحانات کی عکاسی کررہے تھے کہ جن پر مغرب دنیا کی فکری و فلسفیانہ زندگی استوار تھی۔ ہسرل کی کتاب ''مغربی سائنس کا بحران'' پہلی بار 1936 میں شایع ہوئی جس میں مغربی تہذیب کے تصوراتی خاکے کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا تھا، ان کی صداقت 1939 میں شروع ہونے والی دوسری جنگِ عظیم کی صورت میں ثابت ہوئی۔
دوسری جنگِ عظیم مغربی تہذیب کی دوسری خود کشی تھی،جس میں 6 کروڑ انسان لقمہ اجل بن گئے۔یہ ایسی تباہی تھی کہ جس کے ذرایع کہیں باہر سے نہیں مغربی تہذیب کے اندر سے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔دوسری جنگ عظیم کے دوران میں ہی 'ہولوکاسٹ' کا واقعہ پیش آیا، جس میں مغربی تہذیبی دانش کا ایک بار پھر سفاکانہ استعمال کیا گیا اور چالیس لاکھ یہودیوں کو صرف اس وجہ سے قتل کردیا گیا کہ ان کا تعلق ایک مختلف نسل سے تھا۔ یہودی ایسے لوگ نہیں ہیں کہ جو خود پر ظلم بھی کروائیں اور اس کا ذمے دار بھی خود کو ہی سمجھیں۔
یہودیوں نے مغربی روشن خیالی پروجیکٹ کو منہدم کرنے کا فیصلہ کیا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی کے فرینکفرٹ اسکول میں ایسے خیالات پیش کیے کہ جس سے مغربی روشن خیالی کے عقلیت پسند اور طاقت پر مبنی فلسفوں کی ان بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا کہ جن پر ان کے خیال میں تشدد و دہشت اوربربریرت و سفاکیت جیسے پہلو استوار تھے۔
اس سلسلے کی پہلی کتاب ''روشن خیالی کی جدلیات'' 1943 میں شایع ہوئی۔ اس کتاب میں عقلیت پسند فلسفوں کے اندر ایسے شگاف اور تضادات دکھائے گئے کہ جس کے بعد مغربی تہذیب کی فکری و فلسفیانہ زندگی سے متعلق تشکیک کے پہلوؤں پر غالب آنا عہد حاضر تک ممکن نہیں ہوسکا۔