کراچی کا اصل مسئلہ
کراچی کے حالات بہتر نہ ہونے کی ایک وجہ قانون نافذ کرنے والوں کی غفلت نااہلی اور ناقص کارکردگی بھی ہے۔
ISLAMABAD:
گزشتہ ہفتے وزیر اعظم نے پاکستان 2015 نمائش کی افتتاحی تقریب میں بطور مہمان خصوصی اپنے خطاب میں کراچی والوں کو دہشت گردی سے نجات دلا کر 2018 تک مکمل امن بحال کرنے، شہر کو ناجائز اسلحے سے پاک شہر بنانے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ''بندوق اب صرف ریاست کے پاس ہوگا'' کراچی میں جاری آپریشن کے سلسلے میں بھی ان کا کہنا تھا کہ اس کو ادھورا نہیں چھوڑا جائے بلکہ منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
یہ تمام وہ باتیں ہیں جن پر اہل کراچی کا دل باغ باغ اور امید کے چراغ روشن ہوگئے۔ کیونکہ یہی شہر قائد کبھی ایک پرامن، ثقافتی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا ہنر مند اپنے ہنر کا مظاہرہ کرنے اور باذوق اپنے ذوق کی تسکین کے لیے ایسی ادبی و ثقافتی تقریب کا رخ کرتے یہاں کی راتیں جاگتی تھیں۔ مرکز شہر کے علاوہ مضافات میں بھی مشاعرے اور ادبی نشستیں ہوتی تھیں جن میں لوگ شرکت کرتے اور خوشی خوشی رات گئے بحفاظت گھروں کو لوٹتے تھے۔
مگر آج اس شہر میں سرشام ضروری کام کے لیے نکلتے ہوئے بھی خوف محسوس ہوتا ہے۔ وجہ اس کی یہ بتائی جاتی ہے کہ یہاں سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے پر برتری اور مختلف علاقوں پر اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کے لیے قبضہ کرنا ہے۔ اس بات میں کس قدر صداقت ہے یہ تو سیاسی تجزیہ نگار ہی بتائیں گے کیونکہ ہمارا خیال ہے کہ صرف کراچی ہی نہیں ملک بھر میں خاص کر تمام بڑے شہروں میں تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی حد تک فعال ہیں۔
ہر شہر میں تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے دفاتر قائم کرنے،رکن سازی کرنے کے مواقعے حاصل ہیں۔ سب کے حمایتی اور مخالفین بھی موجود ہیں،صرف کراچی کے حالات کو محض سیاسی قرار دینا کہاں تک درست ہے؟
کراچی کے اصل مسائل کو بوجوہ نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں کا اصل مسئلہ بلکہ تمام مسائل کی جڑ پورے ملک سے روزگارکی تلاش میں غیر تعلیم یافتہ، بے ہنر افراد کی بڑے پیمانے پر آمد ہے۔ شہر کتنا ہی بڑا ترقی یافتہ اور باوسائل کیوں نہ ہو مگر وہ روزافزوں آبادی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا ایک مقررہ (چاہے وہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو) آبادی کے لیے مہیا کیے گئے وسائل پر اگر اس سے کئی گنا زائد بوجھ ڈال دیا جائے تو سارا نظام درہم برہم ہو ہی جائے گا۔
ان افراد نے یہاں آکر چھوٹے موٹے کام کرکے اپنی گزر اوقات کا بندوبست تو کرلیا مگر شہر قائد کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہر طرف بلا منصوبہ بندی کچی آبادیاں جن میں تمام ضروریات زندگی مثلاً پانی، بجلی، گیس سب ہی درکار ہو تو وہ پہلے سے رہائش پذیر افراد کے حصے سے ہی تو حاصل کی جائے گی جب کہ وسائل میں اضافہ اس رفتار سے نہ ہو جس تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہو۔ لہٰذا گنجائش سے زیادہ آبادی کے لیے وسائل میں اضافہ نہ ہونا بھی اس شہرکے حسن اور امن دونوں کو غارت کرگیا۔
بڑھتی ہوئی آبادی کو رہائش مہیا کرنے کے لیے بڑے بڑے پررونق پارکوں کی جگہ بلند و بالا عمارتیں، کھیل کے میدان، تفریحی مقامات آہستہ آہستہ ختم ہوگئے جو رہ گئے ان میں ایسے افراد کا رش جن کی موجودگی میں شرفا اپنی بہو بیٹیوں اور خواتین کو لانے سے گریز کرنے لگے۔
ایک زمانہ تھا کہ پورے خاندان کے بچے خواتین شام کو ہل پارک یا کبھی کسی اور پارک میں جاکر دن بھر کی تھکن دور کرتے بچے دل کھول کر کھیلتے دوڑتے بڑے بے فکری سے آپس میں ایک جگہ بیٹھ کر اپنی دلچسپی کی باتیں کرتے اچھے اچھے اشعار سنائے جاتے کتابوں کا ذکر ہوتا، بچے دور دور تک دوڑ رہے ہیں کوئی فکر نہ ہوتی۔ مگر آج اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا گھر کے سامنے گلی میں کھیلتے بچے تو بچے نوجوان لاپتہ ہوجاتے ہیں اور پھر ان کی لاشیں ہی ملتی ہیں۔
کراچی کے پرانے شہری اس گھٹن کو اچھی طرح محسوس کرسکتے ہیں۔ بچوں اور نوجوانوں کو اپنی صلاحیتیں آزمانے کے مواقعے نہ تعلیمی اداروں میں میسر ہیں نہ شہر بھر میں۔اس صورتحال میں جرائم میں اضافہ اس لیے ہو رہا ہے کہ بلا کسی صلاحیت کے بڑے شہر میں رہائش اختیارکرنے والے تمام شہری سہولیات تو چاہتے ہیں مگر ان کے پاس وہ ہنر و صلاحیت تو ہے نہیں جو انھیں اعلیٰ عہدہ اور زیادہ مشاہرہ دے سکے تو وہ جرائم میں ملوث ہوکر اپنی ضروریات زندگی پوری کر رہے ہیں۔
واردات کے بعد کچھ عرصے کے لیے اپنے آبائی علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور معاملہ ٹھنڈا پڑنے پر دوبارہ کراچی کا رخ کرتے ہیں اور پھر اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ذمے داران اور حکومتی اداروں نے کبھی شہرکے مسائل پر اس زاویے بلکہ کسی بھی پہلو سے غور و فکر کیا ہی نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے اعلیٰ عہدوں پر مقامی کے بجائے دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے افراد قابض ہیں، جنھیں اس شہر سے ذاتی و جذباتی لگاؤ تو ہے نہیں۔
جس شہر میں نہ آنے والوں اور نہ یہاں سے چلے جانے والوں کا کوئی اندراج نہ ہو تو وہاں جرائم کرکے فرار ہونے کے مواقعے تو خود فراہم کردیے جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں کراچی کے نجی اسپتال میں اپنی ایک رشتے دار کی عیادت کے لیے جانا ہوا تو دیکھا کہ پورا اسپتال افغان مہاجرین سے بھرا ہوا ہے۔ اب ان کی آڑ میں کتنے جرائم پیشہ افراد یہاں واردات کرتے ہوئے اگر زخمی ہو جائیں تو باآسانی اپنا علاج کرا لیتے ہیں کیونکہ اسپتال والوں کو بھی پیسہ کمانے سے مطلب ہے۔ اس صورت میں کیسے دہشت گردی پر قابو پایا جائے گا اور کیسے حالات معمول پر آئیں گے؟
کراچی کے حالات بہتر نہ ہونے کی ایک وجہ قانون نافذ کرنے والوں کی غفلت نااہلی اور ناقص کارکردگی بھی ہے۔ گزشتہ دنوں کتنے ہی کیسز سامنے آئے جب پولیس کے اہل کاروں نے ڈرا دھمکا کر گواہوں کو ان کے بیانات سے منحرف کردیا۔ مجرموں سے بھاری رقم لے کر انھیں عدالت میں پیش کرنے سے گریز کیا گیا۔ معرکا لیاری کا بدنام زمانہ عذیر بلوچ دبئی میں گرفتار ہوا۔ آج پاکستان کے حوالے کیے جائے گا پرسوں تک فیصلہ ہوجائے گا۔
مگر بعض اطلاعات کی رو سے خود سندھ کی کئی اعلیٰ شخصیات اس سلسلے میں بے حد فعال ہو رہی ہیں کہ کسی طرح عذیر بلوچ پاکستان کے حوالے نہ ہونے پائے شاید اس میں بڑے بڑے پردہ نشینوں کا پردہ چاک ہونے کا خطرہ ہے۔ ادھر عذیر بلوچ نے دبئی میں مہنگے ترین وکیل کی خدمات حاصل کرلی ہیں جس کا معاوضہ پاکستانی کئی کروڑ روپے بنتا ہے۔
یہ رقم اس کو کون مہیا کرے گا وہ اس مقدمے کے اخراجات کیسے ادا کرے گا۔ کیا یہ باتیں پرامن شہریوں کے لیے باعث تشویش نہیں؟راہ چلتے لوگوں کو سادہ لباس والے پولیس کی گاڑیوں میں اٹھا کر لے جاتے ہیں اور پھر ان کی رہائی کے عوض بھاری رقم وصول کی جاتی ہے۔
جگہ جگہ چیکنگ کے نام پر لوگوں سے لوٹ مار کی جاتی ہے۔ غرض بے شمار واقعات ہیں جو آئے دن ذرایع ابلاغ کی زینت بنتے رہے ہیں کون کون سے واقعات کا ذکر کیا جائے سب پڑھتے اور جانتے ہیں۔
اسٹریٹ کرائم کے خلاف مقدمات درج کرانے والوں کو پولیس تنگ کرتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ آپ کا کیا خیال ہے کیا ان تمام وارداتوں میں ملوث ملزمان کیفر کردار تک پہنچیں گے؟ کوئی ہے جو ان بنیادی بدعنوانیوں کا سدباب کرسکے۔ جوکرسکتے ہیں وہی تو خود ملوث ہیں پھر بھلا کراچی تو کیا پورا ملک بھی کبھی امن کا گہوارہ بن سکتا ہے؟