محنت کشوں پر یلغار

آج پی آئی اے کے پاس 24 طیارے ورکنگ کنڈیشن میں موجود ہیں اور تقریباً اتنے ہی طیارے خراب پڑے ہیں۔


Zuber Rehman March 06, 2015
[email protected]

عالمی سرمایہ داری اپنے انتہائی انجام کو پہنچ چکی ہے۔ اس کی عالمی طور پر گروتھ ریٹ یعنی شرح نمو اوسطاً دو فیصد پر آن پہنچی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ عالمی طور پر نجکاری کی شکل میں اس سنگینی سے بچنا چاہتی ہے۔ مگر اب اس کی یہ تمام تدبیریں اکارت جائیں گی، اس کی بھیانک شکل آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے طور پر سامنے آئی ہے۔

افریقہ، جنوبی امریکا اور ایشیا، یورپ سے زیادہ ترقی یافتہ تھے اور قرضوںسے نابلد، آج قرضے تلے ایسے دبے ہوئے ہیں کہ ملکوں کو بیچنے کی نوبت آگئی ہے۔ اب آئی ایم ایف کے ان براعظموں کے ملکوں پر اتنے قرضے چڑھ گئے ہیں کہ وہ اپنے بجٹ کا بیشتر حصہ قرضوں اور سود کی ادائیگی میں ادا کرنے پر پابند ہوچکے ہیں۔

دوسری جانب سامراجیوں نے ریاستوں کو ایک دوسرے کے خلاف اس طرح برسرپیکار کر رکھا ہے کہ وہ ان سے اسلحہ خریدیں اور اس کا انبار کرلیں۔ آج امریکا کی صنعتی پیداوار میں 70 فیصد اسلحے کی پیداوار ہے۔ اسے انھیں استعمال کرنے کے لیے میدان جنگ چاہیے، اسی لیے وہ کبھی ہند چین، کبھی مشرق وسطیٰ، کبھی جنوبی افریقہ، کبھی شمالی افریقہ، کبھی بلقا ، کبھی کوہ قاف،کبھی افغانستان اور کبھی یوکرین کو میدان جنگ کے لیے تیار کرتا ہے۔

آئی ایم ایف پسماندہ ملکوں پر یہ حکم صادر کرتا ہے کہ وہ اپنے ملکوں میں عوام کو دی جانے والی سبسڈیز (رعایتیں) واپس لیں اور عوام پر ٹیکس لگا کر یعنی مہنگائی بڑھا کر انھیں قرضے اور سود واپس لوٹائیں۔ اسی سلسلے کی سب سے بڑی کڑی عوام کی دولت کی نجکاری ہے۔

حال ہی میں حکومت نے آئی ایم ایف کے حکم پر عوام کو بجلی پر دی جانے والی رعایت واپس لے کر بجلی کے نرخوں میں 5.15 روپے فی یونٹ کا اضافہ کردیا ہے۔ اس کے بعد اس حکومت نے فوری طور پر 36 بڑے اور موثر اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ان میں سب سے پہلے پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ ہوا ہے۔

اربوں روپے کے اثاثے رکھنے والا یہ ادارہ جو دنیا کی بہترین ائیر لائن میں شمار ہوتا تھا، جس نے دنیا کی 20 ائیر لائنز کو منظم کیا، کم ترین کرائے اور اعلیٰ معیار کی سروس مہیا کرنے والا قومی ادارہ آج زوال پذیر ہوکر خسارے میں جاچکا ہے۔ آج اس کے مسائل کے حقیقی اسباب پر پردہ ڈال کر تمام تر ذمے داری محنت کشوں پر ڈال دی گئی ہے۔

پی آئی اے کے زوال کی داستان کافی پرانی ہے۔ آج پی آئی اے کے پاس 24 طیارے ورکنگ کنڈیشن میں موجود ہیں اور تقریباً اتنے ہی طیارے خراب پڑے ہیں، جن کو مزدوروں کے مطابق انتہائی کم لاگت سے ریپئر کیا جاسکتا ہے لیکن ایک لمبے عرصے سے حکومت میٹریل ہی نہیں مہیا کررہی جب کہ عالمی مارکیٹ سے ایسے جہاز خریدے جارہے ہیں جن کا سیٹ اپ پی آئی اے کے پاس موجود نہیں ہے، حالانکہ عالمی مارکیٹ میں ایسے جہاز مناسب ریٹس پر دستیاب ہیں جو ہمارے سیٹ اپ کے مطابق ہیں۔ حال ہی میں ایک طیارہ اے 320 لیا گیا ہے جو 10 سال پرانا ہے اور اب تک دو دفعہ ریپئر ہوچکا ہے۔

اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت اور انتظامیہ پی آئی اے کو چلانے میں کتنی سنجیدہ ہے۔ پی آئی اے کے زوال کی ذمے دار نوکر شاہی اور سرمایہ دار اشرافیہ ہے، جن کی بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ نے ادارے کی یہ حالت کردی، جس کو جواز بنا کر آج پی آئی اے کو بیچا جارہا ہے۔

پی آئی اے کے خساروں کی تمام تر ذمے داری محنت کشوں کی اضافی تعداد پر ڈالی جارہی ہے۔ اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پی آئی اے ایک بڑا ادارہ ہے جس کا مقصد عوام کو سستی سفری سہولت مہیا کرنا ہے۔ پی آئی اے کے پاس آپریشن، انجنئیرنگ، سروسز، ٹرانسپورٹ، کچن، کیٹرنگ، مارکیٹنگ، اسٹورز، ہوٹلز، ریپئر اور مینٹیننس، تمام شعبہ جات اپنے ہیں، جب کہ پرائیوٹ ائیرلائنز یہ تمام کام ٹھیکے پر کرواتی ہیں۔

پی آئی اے میں تقریباً 24 ہزار ملازمین ہیں جن میں 6 ہزار ڈیلی ویجز ملازمین بھی شامل ہیں، جن کی حالت زار بہت دگرگوں ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مزدور ادارے پر بوجھ ہیں۔ تمام ایئر لائنز اپنی آمدن کا 30 فیصد ملازمین پر خرچ کرتی ہیں جب کہ پی آئی اے تمام تر سہولیات اور تنخواہیں ملا کر اپنی آمدن کا صرف 18 فیصد ملازمین کو دیتی ہے۔

اگر اتنے مزدور اور بھی بھرتی کرلیے جائیں تب بھی نقصان نہیں ہوسکتا۔مزدوروں کا کہنا ہے کہ اگر پی آئی اے کے پاس جہاز ہوں، تمام سیکشنز کو ٹولز اینڈ ایکوئپمنٹ دیے جائیں، اسپیئر پارٹس مہیا کیے جائیں، اپنے انجینئرز اور پارٹس سیٹ اپ کے مطابق طیارے لیے جائیں، ادارے سے نوکر شاہی کو بے دخل کیا جائے تو پی آئی اے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرکے منافع بخش ادارہ بنایا جاسکتا ہے۔

ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی اور اسٹیٹ لیس سماج میں ہی ممکن ہے، اگر اس سماج میں رہتے ہوئے مندرجہ بالا تجویزوں پر عملدرآمد کیا جائے تو مسئلے کا ایک حد تک حل نکل سکتا ہے۔ اس ادارے کی نجکاری کے خلاف لڑتے ہوئے ایک اشتمالی یا امداد باہمی کے معاشرے کی جانب پیش قدمی کی جاسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں