انسان اور چوہا
جینیاتی طور پر چوہا ایک ایسا جانور ہے جو انسانوں سے بہت قریب ہے۔
گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں خوفناک اور بھیانک چوہوں کا تذکرہ سامنے آیا کہ موٹے موٹے چوہوں نے پارلیمنٹ لاجز کے ٹاپ فلور کر یرغمال بنایا ہوا ہے۔
حکومتی رکن رجب علی بلوچ نے نکتہ اعتراض پر پارلیمنٹ لاجز میں چوہوں کے راج کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ لاجز کے بالائی فلور کو چوہوں نے یرغمال بنا رکھا ہے،اتنے خوفناک اوربھیانک چوہے زندگی میں نہیں دیکھے، صورت اس قدر گمبھیر ہوچکی ہے کہ ٹاپ فلورکے مکین لاجز سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ڈپٹی اسپیکر نے تسلی دے کر چپ کرا دیا اورکہا کہ لاجز کی چھتوں کی سیلنگ کا ماسٹر پلان بن گیا ہے جلد یہ معاملہ حل کرلیا جائے گا۔
جینیاتی طور پر چوہا ایک ایسا جانور ہے جو انسانوں سے بہت قریب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس دان جب انسانی بیماریوں پرتحقیق کرتے ہیں تو بالعموم چوہوں کو تختہ مشق بناتے ہیں۔ ان میں بیماریوں کے جراثیم داخل کیے جاتے ہیں اور پھر مختلف تجرباتی دوائیں اور ویکسین دے کر ان کے نتائج دیکھے جاتے ہیں۔
اگر یہ تجربات کامیاب رہتے ہیں تو پھر انسانوں کو یہ دوائیں دی جاتی ہیں، تاکہ حتمی نتائج کی جانچ کی جاسکے۔ شاید یہ اسی جینیاتی مماثلت کا نتیجہ ہے کہ چوہے گھروں میں گھس کر انسانی غذائیں مثلاً روٹی وغیرہ شوق سے کھاتے ہیں اور دیگر کارآمد اشیا بھی کتر جاتے ہیں۔ اس لیے انسان انھیں سخت ناپسند کرتے ہیں اور ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔
یہ عجیب سانحہ ہے یا شاید یہ بھی جینیاتی مماثلت کا اثر ہے کہ اتنی ہوشیاری سے چوہوں کا شکار کرنے والا انسان خود بھی اکثر ایک ''چوہا'' ثابت ہوتا ہے۔ جنس اور پیٹ کے تقاضے، اولاد کی محبت، مال کی حرص، شہرت کا نشہ، اقتدارکی ہوس، معاشرے میں بلند اسٹیٹس کی تمنا، وسیع بینک بیلنس، بڑی بڑی جائیدادیں، ترقی کرتے ہوئے کاروبار، چلتے ہوئے کارخانے، نئے ماڈل کی چمکتی دمکتی گاڑیاں، عالی شان گھر، فارن ٹرپس اور نہ جانے کیا کچھ، یہ سب آدمی کے لیے اکثر اوقات چوہے دان ثابت ہوتے ہیں، جنھیں اس کا شکاری، ابلیس، اس کی راہ رکھ دیتا ہے۔
ان کی کشمکش میں انسان پیغمبروں سے انگلی چھڑا کر دیوانہ وار ان کی طرف بھاگتا ہے۔ حکم الہی پیچھے سے آواز دیتا ہے کہ ''یہ تو دنیا کی زندگی کا سازو سامان ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر ٹھکانہ ہے۔'' مگر کون پلٹ کر دیکھتا ہے،صرف بے حس اور طمع میں مبتلا ہی ایسا کرتے ہیں۔انسانوں کا حال یہ ہے کہ وہ ایک کے بعد ایک اس ''ٹریپ'' میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ پہلا ''چوہا'' بھی وہاں مزے کر رہا ہے۔ اس کے دیکھا دیکھی وہ بھی اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے اس دوڑ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ بالآخر سب کا ایک ہی انجام ہوتا ہے۔ البتہ جو لوگ خواہشات کے اس جال سے بچ کر نکل جائیں،ان کا استقبال عالم کا پروردگار خود یوں کرے گا۔ ''اے نفس مطمئنہ، لوٹ چل اپنے رب کی طرف اس طرح کہ تُو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔ پھر داخل ہو جا میرے بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں۔'' چوہوں کو پکڑنے والو! اپنے چوہے دان کو پہچانو۔تمہارے شکاری ابلیس نے اس دور میں نت نئے چوہے دان بنا لیے ہیں۔
ایک دن ایک چوہا بیمار ہوگیا، علاج کے لیے حکیم الو کے پاس گیا، الو نے چوہے کے طبی معائنے کے بعد کہا کہ تمہیں تو ''مرض الموت'' ہے، بس اب تمہاری زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں۔ یہ سن کر چوہا افسردہ ہوا۔ حکیم الو نے اسے ڈھارس دلائی۔ ''میاں چوہے! فکر مت کرو، موت تو ہر نفس کو ایک دن آنی ہے۔
تم تو خوش قسمت ہو کہ تمہیں پتہ چل گیا کہ تمہارے جانے کا وقت قریب ہے، ورنہ کتنے ہی چوہے آخری وقت تک خواب غفلت میں پڑے رہتے ہیں اور ایک دن اچانک ہی فرشتہ اجل ان کی روح قبض کرلیتا ہے، ان کو اپنی دنیوی مصروفیت میں اس بات کا موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ کوئی اچھائی اپنے نام کرتے اور خلق خدا کے لیے کچھ نیک کام کرتے جاتے، تم تو خوش قسمت ہو کہ تمہیں اپنی زندگی کا اختتام نظر آرہا ہے، چاہو تو اس موقعے سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنا نام چوہوں کی تاریخ میں سنہری حروف سے رقم کردو۔''چوہے نے یہ سنا تو اس کی عقل میں کچھ بات آگئی اور وہ الو کا شکریہ ادا کرکے واپس پلٹا۔ راستے میں اس کی مڈبھیڑ ایک جنگلی بلی سے ہوگئی۔
بلی نے جوں ہی منہ کھولا چوہے کو کھانے کے لیے چوہے نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ایک لکڑی کی چھڑی اٹھاکر لگا بلی کو پیٹنے۔ بلی اس کایا پلٹ کو دیکھ کر بھونچگی رہ گئی، جو چوہا کل تک اس کی آواز سے خائف رہتا تھا آج وہی چوہا اس کی یہ درگت بنا رہا ہے۔ بلی نے سوچا پتہ نہیں کیا معاملہ ہے۔ چوہا پاگل ہوگیا ہے یا اس کو کہیں سے بہت طاقت مل گئی ہے۔ بلی نے سوچا کہ کچھ بھی لگتا ہے کہ میری خیر اسی میں ہے کہ میں یہاں سے بھاگ جاؤں۔
بلی کے اس طرح دم دبا کر بھاگ جانے پر چوہا بڑا خوش ہوا۔ سوچا آج تک میں بلا وجہ اس کم بخت سے ڈرتا رہا، یہ تو میرے آگے کچھ بھی نہیں ہے۔ حوصلہ بڑھا تو سینہ چوڑا کرکے آگے چلنا شروع کیا۔ دیکھا کہ آسمان سے ایک باز اس کو پکڑنے کے لیے جھپٹ رہا ہے، یہ دیکھتے ہی چوہے نے ایک پتھر اٹھایا اور دے مارا باز کے منہ پر۔ پتھر لگنے سے باز کی ایک آنکھ پھوٹ گئی اور وہ تکلیف سے چلاتا ہوا اڑ گیا۔ اب تو چوہا شیر ہوگیا۔
اس نے سمجھ لیا کہ آج تک کی زندگی تو بیکار گزری۔ اس نے سوچا کہ میں تو صرف قد میں ہی چھوٹا ہوں ورنہ میری ہمت کے آگے کیا مجال ہے کسی کی کہ مجھ سے ٹکر لے سکے۔ چوہا اب تک ساتویں آسمان پر چڑھ چکا تھا۔ اس کی نظر میں اب جنگل کا بادشاہ شیر بھی بکری بن چکا تھا۔راستے میں اچانک پیر پھسلا تو ایک گہرے گڑھے میں جا گرا، سر ایک پتھر سے ٹکرایا تو خون بہنے لگا۔ فوراً واپس پلٹا تاکہ حکیم الو سے پٹی کروالے۔
حکیم الو کے پاس پہنچا تو سورج غروب ہوچکا تھا۔ حکیم نے زخم پر دوا لگائی اور چوہے کو بغور دیکھا تو اس کو سمجھ آیا کہ دوپہر میں جو تشخیص کی تھی وہ غلط تھی۔ چوہے کو تو معمولی بخار ہے جو دوا کی دو خوراک سے ٹھیک ہو سکتا ہے۔ حکیم الو کو افسوس ہوا اور وہ چوہے سے یوں گویا ہوا ''مجھے افسوس ہے کہ تمہیں یہ گہرا زخم لگا، اس کو بھرنے میں کم ازکم ایک ہفتہ تو لگ ہی جائے گا اور اس دوران تم کم سے کم حرکت کرنا تاکہ یہ اچھی طرح مندمل ہوجائے۔'' چوہا یہ سن کر افسردہ ہوگیا کہ ایک تو موت قریب ہے اوپر سے اس زخم کی وجہ سے میں ایک ہفتے تک کچھ کر بھی نہیں سکتا۔
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ حکیم الو بولا: ''میاں چوہے! تم دل چھوٹا مت کرو، میرے پاس تمہارے لیے ایک بہت ہی اچھی خبر ہے، تم تو جانتے ہو میں سورج کی روشنی میں ٹھیک سے دیکھ نہیں پاتا اور یہی وجہ ہے کہ میری دوپہر کی تشخیص غلط تھی، تمہیں ''مرض الموت'' نہیں ہے بلکہ معمولی سا بخار ہے، جو دو ایک روز میں ٹھیک ہوجائے گا۔'' چوہا یہ سن کر بہت خوش ہوا، شکریہ ادا کرکے واپس پلٹا، رات کافی ہوچکی تھی راستے میں اسے ایک چھوٹا سا بچھو نظر آیا۔
چوہے نے ایک لمحے کے لیے سوچا کہ اس موذی کیڑے کو مار بھگائے مگر فوراً ہی اسے بچھو کا خطرناک زہر اور نوکیلا ڈنک یاد آگیا۔ خوف کی ایک سرد لہر چوہے کی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی اور وہ سکتے کے عالم میں آگیا۔ بچھو خراماں خراماں پاس آیا اور بڑے اطمینان سے چوہے کو ڈنک مار کر اسے آناً فاناً ختم کردیا۔ اس قصے میں سبق یہ ہے کہ غلط وقت پر یا غلط ماحول میں قابل سے قابل انسان بھی حقیقت حال سمجھنے میں غلطی کرسکتا ہے۔
انسان کو اپنے اہم فیصلوں پر کسی دوسرے اور بہتر وقت نظر ثانی ضرور کرلینی چاہیے۔انسان کو اپنے اندر تبدیلی کے لیے آخری وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ جس شخص کے پاس کھونے کو کچھ نہ ہو اس سے زیادہ دبنگ انسان دنیا میں کوئی نہیں ہوتا۔ جو لوگ ایسے جذباتی لوگوں کی باتوں پر یقین کرلیتے ہیں یا ان باتوں کے بھرم میں آجاتے ہیں انھیں اکثر مایوسی ہوتی ہے۔
انسان کے کردار کی پختگی اس وقت پتہ چلتی ہے جب اس کے پاس ہار جانے کے لیے سب کچھ ہو مگر وہ پھر بھی حق کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے پر آمادہ ہو۔ زندگی میں وہی انسان کامیاب ہوتا ہے جس کو اپنی خوبیوں، خامیوں اور اپنی شخصیت کے کمزور پہلوؤں کا بالکل صحیح ادراک ہو۔ جو انسان اپنی کمزوریوں کو جانتا ہے وہی انھیں دور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یوں وہ بتدریج بہتر انسان بنتا ہے۔ اور اگر وہ اپنی کمزوری دور نہیں بھی کر پاتا تو کم ازکم اس کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ وہ کہاں سے مار کھا سکتا ہے۔
دوسری طرف جب کوئی انسان اپنی شخصیت کے مضبوط پہلو کو صحیح وقت اور صحیح جگہ استعمال میں لاتا ہے تو کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔ جو انسان اپنے آپے اور اوقات سے باہر ہوجائے وہ آخر کار نقصان اٹھاتا ہے۔ بزدلی ایک طاقت ور انسان کو اپنے سے نسبتاً کمزور حریف سے بھی شکست دلوا دیتی ہے اور اگر انسان حوصلہ کرے تو طاقت ور دشمن کو بھی زیر کرسکتا ہے۔