من موجی شاعر موج لکھنوی
کراچی کی فلمی صحافت سے گہرا تعلق رکھنے والے موج لکھنوی ایک من موجی شاعر تھے۔
کراچی کی فلمی صحافت سے گہرا تعلق رکھنے والے موج لکھنوی ایک من موجی شاعر تھے۔ شاعری بھی کرتے تھے نثر بھی لکھتے تھے اورلطیفے بھی بہت اچھے سناتے تھے پر جس محفل میں ہوتے تھے۔
اس محفل کو زعفران زار بنا دیتے تھے خوش گفتار ہونے کے ساتھ ساتھ بال کی کھال نکالنے کے بھی ماہر تھے یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ریڈیو میں نوجوانوں کے پروگرام بزم طلبا میں لکھا کرتا تھا اور فری لانس کے طور پرہفت روزہ نگار میں مضامین بھی لکھتا تھا ان دنوں کراچی کی فلم انڈسٹری اپنے جوبن پر تھی، ایسٹرن اور ماڈرن دو اسٹوڈیوز تھے اور تسلسل کے ساتھ دونوں فلم اسٹوڈیوز میں فلموں کی شوٹنگیں ہوا کرتی تھیں اور ان دنوں فلمی نغمہ نگاروں میں جہاں دکھی پریم نگری اور صہبا اختر کے چرچے تھے وہاں شبی فاروقی اور موج لکھنوی کی بھی بڑی دھوم تھی۔
میری پہلی ملاقات موج لکھنوی سے ایک فلمی تقریب میں ہوئی تھی اس وقت ان کے ساتھ ہفت روزہ نورجہاں کے سینئر ایڈیٹر شبنم جبل پوری بھی تھے شبنم جبلپوری بہت ہی جید اور مشہور فلمی صحافی تھے۔ شبنم جبلپوری حسب عادت اس وقت بھی پان کھا رہے تھے۔ کسی سے بات بھی کرتے جا رہے تھے تو پان کی گلوری کے مزے بھی لیتے جا رہے تھے اور مجھے اس وقت وہ اپنے انداز گفتگو سے جبلپوری کم لکھنوی زیادہ نظر آرہے تھے۔
شاید یہ موج لکھنوی کی دوستی اور محبت کا اثر تھا، کیونکہ یہ دونوں شخصیتیں نہلے پر دہلا تھیں دونوں کی گفتگو بڑی دلنشیں ہوتی تھی۔ جملہ کہنے میں دونوں ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ موج لکھنوی کا گھریلو نام سید انتظار حسین زیدی تھا۔ 1948 میں اپنے والدین کے ساتھ لکھنو سے ہجرت کرکے کراچی میں آن بسے تھے۔جب انھیں شاعری کا شوق ہوا تو مجروح سلطان پوری کے گیتوں نے انھیں بڑا متاثر کیا اور شاعری میں یہ مجروح سلطان پوری کو ہی اپنا روحانی استاد کہتے تھے۔
موج لکھنوی کے والدین کی بھی یہ خواہش تھی کہ ان کا بیٹا ایک انجینئر بنے اور اسی غرض سے انھوں نے میڈیکل ڈرافٹس مین کا ڈپلومہ بھی حاصل کرلیا مگر یہ اپنے ڈپلومے سے مطمئن نہیں تھے۔
انھیں اطمینان اور سکون شاعری ہی سے ملتا تھا اور اس طرح شعر و ادب سے اپنا رشتہ جوڑتے چلے گئے شاعری کے ساتھ ساتھ عملی طور پر صحافت کے شعبے کو بھی اپنایا، مختلف اخباروں سے کچھ عرصہ وابستگی رہی پھر فلمی صحافت کی طرف اپنی توجہ مبذول کی تو کئی فلمی اخبارات کے شعبہ ادارت میں شامل رہے جن میں فلمستان، تیر و نشتر جیسے ماہناموں سے تعلق رہا پھر کراچی کے ہفت روزہ شاہجہان کے بعد مستقل طور پر ''نورجہاں'' ویکلی سے وابستہ ہوگئے ۔ نورجہاں خالص فلمی اخبار تھا اور فلمی دنیا میں نگار ویکلی کے بعد نورجہاں ویکلی کی بھی بڑی اہمیت تھی۔
اسی دوران فلمی حلقوں میں ان کا آنا جانا بڑھتا رہا فلمی لوگوں سے دوستیاں ہوتی گئیں اور اس دوران ہدایت کار حبیب سرحدی نے فلم ''تم نہ مانو'' کا جب آغاز کیا تو موج لکھنوی نے پہلی بار مذکورہ فلم کے مکالمے تحریر کیے مگر دل میں تو شاعری کا شعلہ سلگ رہا تھا۔ ان ہی دنوں فلموں میں فائٹر کا کردار ادا کرنے والے ایک کہنہ مشق اداکار غفار کو ایک سرمایہ دار میسر آگیا اور پھر وہ فائٹ ڈائریکٹر سے فلم ڈائریکٹر بھی بن گئے اور انھوں نے ایس۔اے غفار کے نام سے بطور فلمساز و ہدایت کار فلم ''مسٹر ایکس'' کا آغاز کیا جو اپنے نام اور کہانی کے اعتبار سے بھی ایک ایکشن فلم تھی، موج لکھنوی کو پہلی بار فلم ''مسٹر ایکس'' میں گیت لکھنے کا موقع ملا۔ اور ان کا لکھا ہوا پہلا گیت ریڈیو کی اس وقت کی مشہور گلوکارہ نسیمہ شاہین کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔
جس کی موسیقی ریڈیو ہی کے ایک موسیقار جوڑی لال محمد اقبال نے مرتب کی تھی۔ گیت کے بول تھے: ''میں دل کے تار چھیڑوں اور جھوم جھوم گاؤں'' فلم کے دیگر گیت بھی لکھے مگر فلم ایکشن تھی۔ کہانی نام کی کوئی چیز نہیں تھی یہ 1962 میں نمائش کے لیے پیش ہوئی مگر کامیابی حاصل نہ کرسکی یہ فلم تو پیچھے رہ گئی مگر شاعر موج لکھنوی آگے بڑھتے چلے گئے۔
پھر کئی اور فلموں کے لیے گیت لکھے جن میں جوش، ہیڈ کانسٹیبل، وقت کی پکار، مانگ میری بھردو، پیار کا موسم مگر ''ہیرا اور پتھر'' جو وحید مراد نے بنائی تھی اس کے لکھے ہوئے ایک گیت نے موج لکھنوی کو کافی شہرت دی جس کے بول تھے:
آج مجھے کیا ہوا کیسی یہ ہلچل مچی
دل نے میرے چھیڑ دی میٹھی سی راگنی
یہ گیت زیبا اور وحید مراد پر فلمایا گیا تھا۔ اور اس گیت کو نجمہ نیازی نے گایا تھا اور موسیقی سہیل رعنا نے مرتب کی تھی۔ ''ہیرا اور پتھر'' وحید مراد کی کراچی کی پہلی سپرہٹ فلم تھی اس گیت کی شہرت نے موج لکھنوی کو بھی مزید شہرت عطا کی اور پھر ہدایت کار منور رشید نے اپنی فلم ''نئی لیلیٰ نیا مجنوں'' کے لیے موج لکھنوی کو شاعر منتخب کرلیا۔
یہ فلم اپنی کہانی اور منظرنامے کے اعتبار سے انڈیا کی فلم کی ہو بہوکاپی تھی اس دور میں انڈیا کی مشہور فلموں کی پاکستان میں کاپی کرنے کا رواج کافی زور پکڑچکا تھا۔تجارتی اعتبار سے یہ فلم ہٹ ہوئی تو ہدایت کار منور رشید نے ''روڈ ٹو سوات'' کے نام سے ایک اور فلم میں موج لکھنوی سے گیت لکھوائے ''روڈ ٹو سوات'' بھی اچھی خاصی کامیاب رہی اس کے بعد چند گیت بڑے مشہور ہوئے خاص طور پر ایک گیت مالا اور احمد رشدی کی آواز میں گایا ہوا بہت ہٹ ہوا جس کے بول تھے:
یہ ادا یہ ناز یہ انداز آپ کا
''روڈ ٹو سوات'' کے ساتھ ساتھ ''نئی لیلیٰ نیا مجنوں'' کے بھی چند گیتوں نے بڑی مقبولیت حاصل کی تھی خاص طور پر احمد رشدی اور مالا کی آوازوں میں گائے ہوئے مندرجہ ذیل گیت بڑے ہٹ ہوئے تھے:
دل سے دل ملے پھول کھلے' پیار ملا رے
او میری محبوبہ بتلا تو کیا ہوا
ان گیتوں کی مقبولیت میں ان کی دھنوں کو زیادہ دخل تھا وہ انڈین فلم کے گیتوں کی دھنوں کا چربہ تھیں۔ لیکن موج لکھنوی کو ان کے لکھے ہوئے ان گیتوں سے کافی شہرت ملی تھی کیونکہ کاپی کا الزام موج لکھنوی سے زیادہ موسیقار تصدق حسین پر لگتا تھا کیونکہ انھیں نے اپنی فلموں میں کاپی دھنیں ہی پیش کی تھیں جب کہ موج لکھنوی کو نثار بزمی، خلیل احمد، دبیو بھٹا چاریہ اور سہیل رعنا جیسے باصلاحیت موسیقار میسر آئے تھے۔ اس کے باوجود بھی موج لکھنوی لاہور کی فلم انڈسٹری میں اپنی جگہ نہ بنا سکے اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو وہاں کے ماحول میں ایڈجسٹ کرسکے تھے۔
صرف ہدایت کار منور رشید کی گڈ بک ہی میں رہے ہدایت کار منور رشید ایک متوسط درجے کے ہدایت کار رہے ان پر کاپی فلمیں بنانے کا بھی الزام رہا۔ لیکن ایک خوبی ہدایت کار منور رشید کی بہت خوب تھی وہ لاہور فلم انڈسٹری کے پہلے اللہ لوکی ہدایت کار تھے جو باقاعدگی سے پانچوں وقت کے نمازی تھے چاہے شوٹنگ کا ٹیمپو کتنا اچھا چل رہا ہو جیسے ہی کسی نماز کا وقت ہوتا تھا وہ گھڑی پر نظر رکھتے تھے اور پھر نماز کی ادائیگی کے لیے شوٹنگ روک دیتے تھے۔
ہدایت کار منور رشید کا ایک صاحب زادہ ہارون رشید تھا جسے فلموں سے کوئی شوق نہ تھا اسے صرف کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی اس کا کرکٹ کا شوق بھی بڑھتا چلا گیا اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ قومی کرکٹ ٹیم میں وہ منتخب ہوگیا اور پھر ایک کامیاب کھلاڑی کی حیثیت سے بڑا نام کمایا ہے۔
ہدایت کار منور رشید بھی جلد ہی فلمی دنیا سے ریٹائر ہوکر کراچی آگئے اور مستقل پھر کراچی ہی میں انھوں نے سکونت اختیار کرلی پھر وہ پلٹ کر فلمی دنیا میں نہیں گئے اور انھوں نے اپنی رہائش گاہ نارتھ ناظم آباد ہی میں قریب ہی ایک مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا اور آخر وقت تک وہ اپنی اسی مسجد سے وابستہ رہے اور شاعر موج لکھنوی بھی لاہور کو خیرباد کہہ کر کراچی آگئے اور انھوں نے بھی فلمی دنیا سے کنارہ کشی کرلی تھی۔