پاکستان نے داعش کے بڑھتے خطرے سے نمٹنے کےلئے حکمت عملی تیارکرلی

سیکیورٹی ایجنسیزکوکہا گیا ہےکہ داعش سےروابط بڑھانے والی شدت پسند تنظیموں پرپوری طرح نظررکھیں،ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ


Zahid Gishkori March 09, 2015
وطن داعش کا متحمل نہیں ہوسکتا، اشرف قاضی، فوٹو: فائل

PARIS: داعش کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظرپاکستان نے اس فتنے کوملک میں پرورش پانے سے روکنے کے لیے نئی حکمت عملی بنالی ہے، دولت اسلامیہ کی ملک میں موجودگی کی حقیقت سے مسلسل انکار کے بعد بالآخر حکومت نے تسلیم کرلیا کہ کچھ ملکی جنگجوؤں کے اس سفاک تنظیم سے روابط ہیں۔

ذمے دارذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ ملک کی سرکردہ سیکیورٹی ایجنسیوں کو کہا گیا ہے کہ داعش کے ابھرتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے خاطرخواہ اقدام کیے جائیں۔ اتوار کو وزارت خارجہ کے ایک افسرنے بتایا کہ تمام سیکیورٹی ایجنسیز کو کہا گیا ہے کہ دولت اسلامیہ سے روابط بڑھانے والی شدت پسند تنظیموں پرپوری طرح نظررکھیں۔ اس ضمن میں امیگریشن حکام سے بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان سے کوئی بھی داعش میں شریک ہونے کے لیے نہ جانے پائے۔ اس حوالے سے ایجنسیاں مذہبی گروپوں اورجماعتوں پرکڑی نظررکھے ہوئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک اوردیگر مالیاتی اداروں کوبھی سختی سے تاکید کردی گئی ہے کہ فنڈزٹرانسفرز پرخصوصی نگاہ رکھیں کہ وہ داعش تک نہ پہنچ پائیں۔

حال ہی میں سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ اس سلسلے میں مختلف ممالک کے سفارتی حلقوں سے بھی رابطہ کیا گیا ہے کہ جنگجوگروپوں سے متعلق معلومات کاتبادلہ کریں۔ انھوں نے داعش کی مبینہ خلافت کوردکرتے ہوئے کہا کہ اس سے انتشارپھیلے گا۔ اس سلسلے میںسابق سفیراشرف جہانگیر قاضی کاکہنا ہے کہ اگر بیڈگورننس اور ناانصافی کا سلسلہ جاری رہاتو شدت پسندوں کو سرزمین پرپاؤں جمانے کا مزید موقع ملے گا۔ پاکستان پہلے ہی القاعدہ اور طالبان سے منسلک جنگجوؤں سے برسرپیکار ہے، وہ داعش کامتحمل نہیں ہوسکتا۔

ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کو عوام کا معیارزندگی بلند کرنا ہوگا۔ اگرعام لوگ تعلیم یافتہ اور خوشحال ہوں گے توکوئی جنگجو گروپ انھیں استعمال نہیں کرسکے گا۔ سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ حکومت کو داعش کے خطرے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ اس سلسلے میں ایک الگ انٹیلی جنس یونٹ قائم کیاجائے جو بین الاقوامی انسداد دہشت گردی کے اداروں سے رابطے میں رہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔