لیس للانسان الا ما سعی

محنت سر فہرست ہے کیونکہ یہ تو مسلمہ قانون ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔


اویس حفیظ March 09, 2015
محنت سر فہرست ہے کیونکہ یہ تو مسلمہ قانون ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ فوٹو کرک انفو

پہلے زمبابوے کے خلاف میچ میں فتح پر پاکستانی قوم کی جانب سے خوشی کے شادیانے بجائے جارہے تھے اور اب تو جنوبی افریقہ کو ہرانے کے بعد ایک بار پھر ٹیم سے بھاری توقعات وابستہ کر لی گئی ہیں۔



https://twitter.com/lasharis21/status/574033748200554496



بھارت اور ویسٹ انڈیز سے ہارنے کے بعد زخم خوردہ پاکستانی قوم یکایک اپنے سب غم بھلا بیٹھی، وہی لوگ جو کرکٹ کے علامتی جنازے نکال رہے تھے اور کھلاڑیوں کے مقبرے بنوانے کا مطالبہ کررہے تھے، اب انہی کھلاڑیوں کے مجسمے بنوانے کا مطالبہ کرتے نہ تھکیں گے، وطن واپسی پر وہ انہی کھلاڑیوں کو کاندھوں پر اٹھائے خوش آمدید کہیں گے۔





اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بحیثیت قوم ہم سب جذباتی واقع ہوئے ہیں اور کرکٹ کے بارے میں تو یہ جذباتیت اپنی حدوں کو چھونے لگتی ہے۔ شاید اسی لئے اس خطے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ''یہاں کرکٹ کو مذہب کی طرح کا درجہ دیا جاتا ہے''



ابھی تو ہم اونچی ہواؤں میں اُڑ رہے ہیں اور شاید کوارٹر فائنل کے لئے کوالیفائی بھی کرجائیں لیکن زمینی حقائق کو مدِنظر رکھا جائے تو بہت جلد یہ اونچے خوابوں کی عمارت ریت کا محل ثابت ہوگی۔ بحیثیت قوم ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگا کہ کھیل کے میدان میں محض دعاوں سے فتح نصیب نہیں ہوتی۔ اس کیلئے دوا دارو کا بھی مناسب انتظام کرنا پڑتا ہے مگر حقائق سے نظریں چرا کراگر پوری قوم مصلے پر بیٹھ جائے تو اس سے فتح نصیب نہیں ہوسکتی۔

اگر حقائق کی تیز سرچ لائٹ میں پاکستانی ٹیم کا جائزہ لیا جائے تو بخوبی علم ہوجائے گا کہ چند ایک سینئر کھلاڑیوں کے علاوہ ٹیم اب تک بالکل امیدوں کے مطابق کھیل رہی ہے، کیونکہ اس ٹیم اسکواڈ میں شامل 9 کھلاڑی پہلی بار ورلڈ کپ کھیل رہے ہیں، کپتان سمیت 11 کھلاڑیوں کو آسٹریلیا میں ون ڈے کھیلنے کا یا تو بالکل بھی تجربہ نہیں اور اگر کسی کو ہے تو آٹے میں نمک کے برابر۔ ٹیم کے کپتان کے کھاتے میں اب تک ایک بھی ون ڈے سنچری اسکور نہیں ہے، پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ موجودہ ٹیم آسٹریلیا، نیوزی لینڈ کے حالات سے بالکل نابلد ہے۔

https://twitter.com/zaarasikandar/status/574230499423469568



1987ء، 2007ء اور 2011ء کے ورلڈ کپ میں بھی ٹیم میں بیشتر کھلاڑی پہلی بار ورلڈ کپ کھیل رہے تھے، مگر 87ء اور 11ء میں کھلاڑی ورلڈ کپ کھیلے جانے والے ممالک کی پچ اور حالات سے واقف تھے جس کے باعث دونوں بار سیمی فائنل تک رسائی ممکن ہوسکی، مگر 2007ء میں جب حالات بالکل نئے تھے، تب ٹیم پہلے ہی مرحلے میں باہر ہوگئی تھی۔ اس بار بھی ٹیم اگر ٹورنامنٹ سے آؤٹ ہوجاتی ہے تو اس میں قصور وار ٹیم نہیں ہوگی بلکہ الزام سلیکشن، پچ اور موسم سمیت دیگر عوامل پر جانا چاہئے۔

یہ تو عیاں از روزِ روشن ہے کہ اب تک پاکستان صرف ایک بار ورلڈ کپ یعنی 1992ء میں جیت سکا۔ اگرچہ اس وقت بھی پاکستان کی ٹیم ایک آئیڈیل ٹیم نہیں تھی، مگر یہ ایک مضبوط اور متوازن ٹیم تھی۔ اس وقت بلاوجہ ذرا ذرا سی بات پر ٹیم کا موازنہ 1992ء کی ٹیم کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اُس وقت عمران خان، وسیم اکرم، جاوید میانداد، عاقب جاوید، رمیز راجہ اور عامرسہیل جیسے بڑے نام ٹیم کے ساتھ منسلک تھے جنہوں نے ابتدائی شکستوں کے بعد اپنا رنگ دکھایا اورمحنت و لگن سے قوم کو ورلڈ کپ کا تحفہ دیا۔

https://twitter.com/InzamamulPAK/status/574307092238102529

بالکل ایسا ہی 2009ء کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی دیکھنے میں آیا جب ٹیم پاکستان ایک متوازن ٹیم تھی۔ لیکن پہلے میچ میں شکست کے بعد ٹیم پاکستان کو ٹورنامنٹ سے آؤٹ ہونے کے لالے پڑ گئے، مگر بعد میں اپنے بہتر رن ریٹ کی بنیاد پر ٹیم سپر8 مرحلے میں پہنچنے میں کامیاب ہوئی، جہاں ٹیم نے اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا اور اکلوتا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اپنے نام کیا۔

اب تک صرف 1999ء کا ورلڈ کپ ایسا تھا جب پاکستان کی جانب سے سب سے مضبوط ٹیم میدان میں اتری، جسے ''کرکٹ ڈپلومیسی'' کے تحت صرف بنگلادیش کے ہاتھوں شکست کا منہ دیکھنا پڑا، باقی تمام میچز میں یہ ٹیم ناقابل شکست رہی۔ البتہ فائنل میچ میں اسے آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست ہوئی اور بدترین شکست ہوئی۔

اُس وقت بھی آسٹریلیا کی ٹیم ورلڈ کپ میں اگرچہ ایک مضبوط ٹیم تھی مگر یہ کسی بھی طور ورلڈ کپ کیلئے ''فیورٹ'' نہیں تھی۔ سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کے خلاف میچ برابر ہوجانے پر آسڑیلیا کو حادثاتی طور پر فائنل میں داخلہ نصیب ہوا، اُس وقت بھی پوری پاکستانی قوم کی دعا یہی تھی کہ فائنل میں آسٹریلیا پہنچے کیونکہ یہ ٹیم جنوبی افریقہ کی نسبت ایک آسان ہدف محسوس ہورہی تھی اور پاکستان پول میچز میں آسٹریلیا کو شکست سے دو چار کر چکا تھا، مگر فائنل میں پاکستان کا وقتِ زوال آسٹریلیا کیلئے صبحِ عروج کا نقطہِ آغاز ثابت ہوا، کیونکہ اس کے بعد آسٹریلیا نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

اگلے ورلڈ کپ یعنی 2003ء میں آسٹریلیا کی ٹیم میدان میں اتری تو ابتدائی میچز میں ہی ان کی کارکردگی دیکھ کر سب کو علم ہوگیا تھا کہ ورلڈ کپ کا فاتح کون ہوگا۔ پہلے میچ سے آخری میچ تک آسٹریلیا نے لگاتار فتوحات سمیٹیں اور ناقابل شکست رہنے کا ریکارڈ بھی قائم کیا۔ فائنل میں آسٹریلیا نے بھارت کی مضبوط ٹیم کو باآسانی شکست دے کر ثابت کیا کہ وہ واقعی کرکٹ کا بادشاہ کہلانے کا حقدار ہے۔

2007ء کے ورلڈ کپ میں بھی آسٹریلیا کی ٹیم پرعزم ہوکر میدان میں اتری اس کی ''باڈی لینگوئج'' اس بات کی خوب غمازی کررہی تھی کہ اس بار بھی آسٹریلیا کسی کو اپنی جیت کی راہ میں حائل نہیں ہونے دے گا اوریہی ہوا۔

اس بار بھی ورلڈ کپ میں اب تک بھارت اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں ناقابل شکست ہیں اور ان ٹیموں کے میچز دیکھ کر یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ میچ محض دعاؤں سے نہیں بلکہ محنت سے جیتے جاتے ہیں۔ اگر ہمیں بھی اپنی ٹیم کو کرکٹ کے میدانوں میں تاجِ حکمرانی سر پر سجائے دیکھنا ہے تو دعاؤں کے ساتھ ساتھ دواؤں پر توجہ دینا ہوگی۔

اِس وقت انگلینڈ اور آسٹریلیا میں بہترین کرکٹ ماڈل نافذ ہیں جس میں کھلاڑی کلب کی سطح سے کھیلنا شروع کرتا ہے اور آخر میں ایک تراشے ہوئے ہیرے کی طرح قومی ٹیم میں شامل ہوجاتا ہے، مگر ہمارے ہاں تو ڈومیسٹک کرکٹ ویسے ہی آخری دموں پر ہے۔ انفرادی حیثیت میں کلب کرکٹ جاری ہے مگرشاید ہی کوئی کلب کا کھلاڑی ہوگا جو قومی ٹیم کی جانب سے کھیلنے کا خواب ''خریدنے'' کی سکت رکھتا ہو۔

اب بھی اگر ہمیں کرکٹ کے کھیل کو دوبارہ زندہ کرنا ہے تو اس کی بنیادوں پر توجہ دینا ہوگی تا کہ اچھے کھلاڑی ایک خودکار نظام کے تحت شفافیت کے مراحل سے گزر کر قومی ٹیم میں شامل ہوں، اس کے لئے ہمیں ٹیم سلیکشن کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔ جن ممالک میں ورلڈکپ کا انعقاد کیا جاتا ہے وہاں کی پچز اور موسم سے آشنائی حاصل کرنا ہوگی، ہھر اس کے بعد باقی معاملات کے لئے دعا کا سہارا لیا جاسکتا ہے، لیکن محنت سر فہرست ہے کیونکہ یہ تو مسلمہ قانون ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔

[poll id="304"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں