ہٹلر کے دیس آسٹریا میں دوسرا حصہ

ٹرینوں، ٹراموں اور بسوں میں صبح تا شام بڑا رش لگا رہتا ہے ایسا لگتا ہے کہ جیسے لوگ گھروں میں نہیں رہتے۔


Manzoor Razi March 10, 2015

لاہور: آسٹریا کے شہر لینزLinz میں ہی 20 کلومیٹر دورہٹلر کے بنائے گئے عقوبت خانے (ٹارچرسیل) جہاں وہ یہودیوں کو قید رکھتا تھا اور پھر انھیں اذیت ناک سزائیں دے کر زندہ بھٹیوں میں جلا دیا جاتا تھا جس کو بعد میں محفوظ کرلیا گیا ہے، ہم وہ مقام بھی دیکھنے گئے پہاڑوں کے اوپر شہر سے دور بڑی بڑی بیرکیں ان میں جیل خانہ، آگ میں جلانے والی بھٹیاں اور زہریلی گیس سے موت کی وادی میں ڈالنے والے بڑے بڑے پائپ، آگ جلانے والے چولہے، ان میں استعمال ہونے والے آلات دیکھے۔

کئی کلومیٹر پر پھیلی ہوئی 40 بیرکیں۔ ساتھ ہی ایک قبرستان جہاں گم نام وہ یہودی دفن ہیں جو قید کے دوران تشدد سے اپنی موت مر جاتے تھے۔ ایک دل ہلا دینا والا منظر؟ ہٹلر یہودیوں کا بڑا سخت سفاک، ظالم اور قاتل تھا اس نے آسٹریا اور جرمنی سے یہودیوں کا مکمل خاتمہ کردیا تھا۔لیکن بعد کی آنے والی حکومتوں نے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے اور ہٹلر کی اپنی موت کے بعد اس جگہ کو ایک ظالم کے نام سے محفوظ کرکے رکھ لیا ہے۔ جہاں دنیا بھر سے سیاح آکر دیکھتے ہیں اور ہٹلر کو برا بھلا کہتے ہیں۔

خیر اب آسٹریا اور جرمنی پرامن ملک کے طور پر ابھر کر دنیا میں امن کا گیت گا رہے ہیں اور عام لوگوں کو روزگار کے علاوہ تعلیم بھی دے رہے ہیں۔ اس وقت آسٹریا ایک پرامن ملک ہے جہاں تعلیم 100 فیصد، بڑی بڑی اسٹیل ملز موجود ہیں بجلی کبھی جاتی ہی نہیں ہے۔

ٹرینوں، ٹراموں اور بسوں میں صبح تا شام بڑا رش لگا رہتا ہے ایسا لگتا ہے کہ جیسے لوگ گھروں میں نہیں رہتے۔ ہر ایک ٹاؤن میں اسکول اور کالج اور ہر شہر میں بڑی بڑی یونیورسٹی جہاں غیر ملکی بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں یکم نومبر کو پورے آسٹریا میں قبرستانوں کا دن منایا جاتا ہے۔ جیسے ہمارے ملک میں شب برات منائی جاتی ہے۔ خواتین، بچے، بوڑھے اپنے پیاروں کو یاد کرنے صبح سے شام تک قبرستانوں کا رخ کرتے ہیں شمعیں روشن کرتے ہیں۔

پھولوں کے گلدستے قبروں پر چڑھاتے ہیں قبرستان بڑے خوبصورت بنے ہوئے ہیں۔ ہم نے بھی قبرستانوں کا دورہ کیا۔ اگلے دن ہم لینز سے بذریعہ ٹرین ویانا گئے۔ ویانا آسٹریا کا کیپٹل دارالخلافہ ہے۔ جہاں پاکستان کا سفارت خانہ پاکستان ہاؤس کے نام سے واقع ہے۔ ہم پاکستانی سفارت خانے بھی گئے اور اسٹاف سے ملاقاتیں کیں۔ پھر اسلامی سینٹر گئے جہاں ایک بڑی خوبصورت مسجد ہے ویانا میں اب یہودی بھی آباد ہیں۔ یہاں بھی نئی اور پرانی عمارتیں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

وہی خوبصورت لوگ، خوبصورت سڑکیں، خوبصورت شاپنگ سینٹر، بڑے بڑے پلازے اور پھر یہاں پر ملکہ اور پرنس کا بہت بڑا محل موجود ہے جہاں پرنس فرانس جوزف1830 سے 1916 تک حکمران رہا پھر ملکہ کا الگ محل جس میں ملکہ Kaise Rin Elisabeth قیصرین الزبتھ 1837 to 1898 تک رہیں جنھیں بغاوت میں قتل کردیا گیا تھا، بعد میں دوسری جنگ عظیم ہوئی۔اسی شہر ویانا میں آسٹریا کا سب سے بڑا چرچ ہے جس کا نام Staphondom اسٹوپن ڈم ہے دیکھا۔ بڑا خوبصورت بڑا طویل بڑا اونچا اور بڑا شاندار تھا۔ جہاں سیاح آئے ہوئے تھے مگر چرچ میں عبادت کے لیے کم ہی لوگ آتے ہیں۔

شہر بڑا خوبصورت ہے لوگ اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے تھے ہر طرف خواتین کی بڑی تعداد، مارکیٹوں، شاپنگ پلازوں میں بلا کا رش۔ پھر ہم مین چوک پر آگئے۔ جہاں کردوں نے داعش کے خلاف بڑا مظاہرہ کر رکھا تھا۔ سرخ اور سفید جھنڈے مختلف ترقی پسند لیفٹ کی تنظیمیں مظاہرے میں شریک تھیں، میں نے بھی وہاں کمیونسٹ پارٹی کے لیڈروں سے ملاقات کی اور نعرے لگائے۔

پولیس برائے نام تھی۔ مظاہرین امن کی حمایت اور دہشت گردی کے خلاف نعرے لگا رہے تھے اور تقریریں کر رہے تھے یہ زیادہ تر عربی کرد تھے جو داعش کے خلاف ویانا کی سڑکوں پر نکلے ہوئے تھے۔ مگر بڑے پرامن تھے جس میں خواتین بھی کثیر تعداد میں شریک تھیں۔رات گئے انڈر گراؤنڈ ٹرین میں بیٹھ کر واپس لینز آگئے۔

اگلے دن ہماری منزل ایک اور شہر (صوبے) Salz Burg سالز برگ جانا تھا۔ سو ہم 11:20 پر ٹرین پر سوار ہوگئے۔ یہ ٹرین جرمنی کی طرف جا رہی تھی۔ ٹرین وقت پر روانہ ہوئی ہر ٹرین میں فرسٹ کلاس اور سیکنڈ کلاس کے 10 ڈبے لگے ہوتے ہیں باہر 1 اور 2 لکھا ہوتا ہے جس کا مطلب 1st کلاس اور 2nd کلاس ہوتا ہے مکمل A.C ہوتی ہے آمنے سامنے 4 افراد بیٹھ سکتے ہیں درمیان میں میز ہوتی ہے۔

ہر سیٹ پر ٹرین کا ٹائم ٹیبل رکھا ہوتا ہے۔ ٹرین میں T.V پر اس کی رفتار اور آنے والے اسٹیشن کا نام درج ہوتا رہتا ہے ٹوائلٹ یا واش روم بڑا خوبصورت اور صاف ستھرا۔ ٹوائلٹ پیپر کے رول لگے ہوتے ہیں۔

ٹرین میں ایسا لگتا ہے جیسے ہم ہوائی جہاز میں سفر کر رہے ہیں۔ راستے میں کئی فیکٹریاں آتی ہیں گرین پہاڑ اور کہیں کہیں بجلی پیدا کرنے والے ونڈ ٹاور کافی دور تک پھیلے نظر آتے ہیں۔ ٹرین کی رفتار 180 تا 220 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ ہم 3 گھنٹے بعد Salz Burgسالز برگ پہنچ گئے۔ یہ ایک تاریخی شہر ہے۔ فنون لطیفہ اور آرٹ کا شہر ہے بڑے بڑے میوزیم ہیں۔

یہاں آرٹ کے دلدادہ لوگ اور سیاح آتے رہتے ہیں ایک گلی سے گزر کر ایک بہت بڑا احاطہ آتا ہے جس کے چاروں طرف فنکار بیٹھے ہوئے گٹار اور دیگر میوزک بجا رہے ہیں اور لوگ بنچوں پر بیٹھ کر اور کھڑے ہوکر ان کو دیکھ اور سن رہے ہیں۔ ایک عجیب کیفیت ہے لوگ مست ہیں۔ سامنے ہی عالمی شہرت یافتہ Mozart(میوزرٹ) کی بڑی تصویر آویزاں ہے اور اس کی میوزک کے حوالے سے ایک بڑی عمارت اور انسٹیٹیوٹ ہے۔ میوزرٹ کے حوالے سے دنیا بھر میں چاکلیٹ بھی ملتی ہے۔

جس پر Mozart کی تصویر بھی ہوتی ہے یہ سالزبرگ میں ہی رہتا تھا۔ یہاں پر ایک اور یادگار جگہ دیکھی۔ جہاں دو دو گھوڑے والی بگھیاں کھڑی اور ہیٹ اور سوٹ پہنے گھوڑے بان کھڑے ہوئے سگار پی رہے تھے لوگ ان بگھیوں میں بیٹھ کر سیر بھی کرتے ہیں۔ بڑا دلکش منظر تھا شام ہو رہی تھی پھر کافی ہاؤس گئے کافی پی اور پھر اسٹیشن کی طرف روانہ۔ ٹرین آئی وقت پر آئی اور چل پڑی۔ اور ہم رات 10 بجے پھر لینز پہنچ گئے۔

آتے اور جاتے وقت سرسبز پہاڑ، کھیت اور کھلیان آتے رہے مگر کسان کام کرتے نظر نہیں آئے۔ میں نے اقبال سے کہا کہ کسی دن مجھے کھیت اور کسان کو دکھاؤ اور ان کی زندگی کیسی گزرتی ہے ذرا اس کا مشاہدہ بھی ہوجائے۔ اقبال نے وعدہ کیا کہ دو چار روز کے بعد ہم دیہات میں جائیں گے اور کسانوں سے ملیں گے۔ گائے اور گھوڑے دیکھیں گے۔

یورپ میں بھینس نہیں ہوتی ہے وہاں زیادہ ترگائے ہوتی ہے ان کے فارم ہاؤس ہیں۔ اسی طرح سور (خنزیر) بھی پالتو ہوتے ہیں ان کے بھی فارم ہاؤس ہوتے ہیں۔ اسی طرح اعلیٰ نسل کے گھوڑے بھی ہوتے ہیں۔ سو وہ آیندہ ملاقات میں ذکر کریں گے۔

(جاری ہے )

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔