ہنگامی حالات اور ہماری ذمہ داریاں

اگر آپ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں تو یقین جانیئے بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچ سکتی ہیں۔


محمد نعیم March 12, 2015
اگر آپ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں تو یقین جانیئے بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچ سکتی ہیں۔ فوٹو فائل

گاڑیوں کا تصادم، آتشزدگی، عمارتوں کا منہدم ہونا، پانی میں ڈوبنے کے واقعات، عوامی مقامات پر دہشت گردوں کے حملے اور بم دھماکے، یہ ایسے حادثات ہیں جو ہمارے سامنے آئے روز رونما ہوتے ہیں۔

اس نازک صورتحال میں سب سے اہم کام جائے حادثہ پر موجود انسانی جانوں کی حفاظت ہوتا ہے۔ کسی بھی ایسے حادثے کی صورت میں اردگرد موجود لوگوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ فوری طور پر امدادی کارروائیاں شروع کردیں۔ پاکستان میں عوامی سطح پر ہمدردی کا جذبہ تو بہت ہے۔ لیکن ہر بار حکومت کی جانب سے غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ ایک تو ایسے حادثات کی صورت میں جانی و مالی طور پر حفاظت کرنے والے سرکاری ادارے اس وقت پہنچتے ہیں جب وہاں بچانے کے لئے کچھ بھی نہیں بچتا۔

کچھ ماہ کے دوران پاکستان میں ہونے والے حادثات و سانحات کا ریکارڈ ہی چیک کرلیں۔ آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ آگ کی اطلاع ملنے پر فائر فائٹر کا عملہ کتنی دیر بعد پہنچا۔ بم دھماکے یا روڈ حادثے کی صورت میں زخمی افراد ایمبولینس اور ابتدائی طبی امداد کے انتظار میں کتنی دیرتک پڑے ایڑیاں رگڑتے رہے۔ کتنے ہی بدقسمت ایسے تھے جو بروقت اسپتال نہ پہنچنے کی بنا پر جان سے ہاتھ دھوبیٹھے؟

اگرآپ کسی ایسی جگہ موجود ہیں، جہاں آگ لگنے کا خطرہ ہے، تو فائربریگیڈ کو اطلاع کرنے کے بعد سب سے پہلے وہاں موجود لوگوں کے ساتھ مل کر آپ کو آگ بجھانے کے انتظامات کرنے چاہیں، اس طرح آپ ہونے والے نقصان کو کم کرنے یا روکنے کی موثر کوشش کرسکتے ہیں۔

یا اگر کسی تخریب کاری یا حادثے کی صورت میں کوئی زخمی ہوگیا ہے تو اگر آپ کو اس بات کا اندازہ ہو کہ زخم کس نوعیت کا ہے؟ فوری طور پر اس کے خون کا بہاو کیسے روکا جاسکتا ہے؟ بے ہوش ہے تو ہوش میں لانے کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا؟ ہڈی ٹوٹ گئی ہے تو اسپتال پہنچنے سے قبل اس کو کس انداز میں باندھ کر جوڑ دیا جائے کہ اسے مزید تکلیف نہ ہو۔ کوئی ڈوب گیا ہے تو اس کے اندر جمع ہونے والا پانی کیسے نکالا جائے؟ کوئی لاش ملی ہے تو اس کے متعلق کس کو اطلاع دینی چاہیئے؟ جائے حادثہ پر کون سی ایسی چیزیں جمع کرنا ضروری ہیں جن سے اس کی شناخت ہوسکتی ہے۔ اگر آپ یہ سب کچھ کرسکتے ہیں تو یقین جانیئے بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچ سکتی ہیں۔

دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جو اپنی عوام کو ان کاموں کی تربیت دیتے ہیں۔ لہذا شہریوں کی جانب سے رضاکارانہ طور پر ایسی تربیت حاصل کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے حادثات کی صورت میں بھی فوری مدد ملنے کے باعث نقصانات کی شرح کم ہوجاتی ہے۔

عوامی آگاہی کے لئے یہ تحریر لکھنے کا آئیڈیا گزشتہ دنوں کچھ رفاہی سرگرمیوں میں شرکت کے بعد آیا۔ گلشن اقبال کراچی میں ایک رفاہی و فلاحی ادارے نے عوام کو ہنگامی صورتحال اور حادثات کی صورت میں رضاکارانہ طور پر ریسکیو کی خدمات سرانجام دینے کی تربیت دی۔ دوروزہ ورکشاپ میں مختلف امور کے ماہرین اور ڈاکٹرز نے لوگوں کو بتایا کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال مثلاً آگ کا لگ جانا، ہڈی کا ٹوٹ جانا، گلے میں کسی چیز کا اٹک جانا، گرمی سے بیہوش ہوجانا، کرنٹ لگنا، سانپ کا کاٹ لینا، ہارٹ اٹیک ہونا، بلندی سے گرجانا، زہر نگل لینا اور سانس رُک جانے کی صورت میں متاثرہ شخص کو کس طرح کی ابتدائی طبی امداد دی جائے۔انہوں نے مختلف چیزوں کا عملی طور پر بھی مظاہرہ کیا۔

اس ورکشاپ میں خصوصی طور پر ''کسی بھی حادثے کی صورت میں ہم فوری طور پر کس کس ادارے سے مدد طلب کرسکتے ہیں'' کے موضوع پر خصوصی لیکچر بھی رکھا گیا۔ میڈیا سے کیسے رابطہ کیا جائے تاکہ اس کی خبر عام ہوتے ہی تمام اداروں کی توجہ اس جانب مبذول ہوجائے، اسپتال ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہوجائیں اور ایمبولینسں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بروقت یہاں پہنچ جائیں۔ ان تمام باتوں کی بھی اگاہی فراہم کی گئی۔

بلکل اسی طرح مختلف تعلیمی اداروں میں رینجرز اور پولیس کی جانب سے بھی طلبہ کو کسی بھی ناخوش گوار واقعہ سے نمٹنے کی تربیت دینے کے عمل کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔ میرے خیال میں رفاہی اداروں کی طرح اگر سرکاری سطح پر بھی تمام تعلیمی اداروں کی چھٹیوں یا تعلیم کے دوران نوجوانوں کو سول ڈیفنس کی بنیادی تربیت دی جائے تو ہمیں ہنگامی صورتحال میں بہت زیادہ تربیت یافتہ افرادی قوت مل سکتی ہے۔

یہ بلاگ بڑھنے والے تمام افراد سے التماس ہے کہ کسی بھی سرکاری یا نجی ادارے کی جانب سے کوئی ایسا پروگرام یا ورکشاپ منعقد ہو جہاں ہنگامی حالات میں امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے آگاہی و تربیت دی جائے، تو ضرور شرکت کریں اور کسی بھی حادثے کی صورت میں افسوس کرنے کے بجائے آگے بڑھ کر متاثرہ افراد کی مدد کریں۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جتنے زیادہ افراد اس نوعیت کی تربیت لیں گے، انسانیت کی اتنی ہی بھلائی ہو گی۔

کوشش کریں کہ خود بھی اپنے دفاع کی تربیت حاصل کریں اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں۔ اللہ ہم سب کے جان و مال کی حفاظت فرمائے۔ کسی بھی حادثے کی صورت میں اگر کوئی بھی ایسا فرد موجود ہو، جسے آپ نے دفاع کی تربیت دلائی ہوگی تو عین ممکن ہے کہ کل آپ کو بروقت ہنگامی امداد پہنچا کر محفوظ مقام پر پہنچانے والا وہی شخص ہو۔ بس بات صرف سوچنے کی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں