اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے

بالآخر چاروں صوبوںمیں سینیٹ کے انتخابات ہوگئے مگر جس طرح ہوئے سب کے سامنے ہے۔


Muqtida Mansoor March 12, 2015
[email protected]

بالآخر چاروں صوبوںمیں سینیٹ کے انتخابات ہوگئے۔ مگر جس طرح ہوئے سب کے سامنے ہے۔ فاٹا میں کب ہوں گے؟ فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ حکومتیں جس انداز میں ایڈہاک فیصلے کرتی ہیں، وہ خود ان کے مسائل میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ بہرحال سینیٹ انتخابات بھی سابقہ انتخابات کی طرح بے شمار سوالات اور تہمتیں اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔

جن کے جوابات حکمران اشرافیہ اور سیاستدان کو جلد یا بدیر دینا پڑیں گے۔ سیاست، جس میں کبھی مڈل کلاس کے سیاسی دانشور اور کارکن سرگرم ہوا کرتے تھے، مگر آج دولت کی چکاچوند نے اس کے پورے کلچر کو بدل کرکے رکھ دیا ہے۔ اگر دیہی علاقوں میں جاگیردار اور قبائلی سردار سیاست پر حاوی ہیں، تو شہروں میں دولت مند ساہوکار اورمختلف مافیائیں قابض ہوچکی ہیں۔یوں دولت کی ریل پیل نے عام آدمی کے لیے سیاسی عمل میں حصہ لینے کا راستہ عملاً بند کردیا ہے۔

سقوط ڈھاکا دراصل مغربی پاکستان میں مڈل کلاس سیاست کے خاتمے کا نقطہ آغاز تھا۔ ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھیں تو ربع صدی پہلے تک سیاسی منظر نامہ کچھ اور ہوا کرتا تھا، 1967ء میں جب آنکھوں میں ایک منصفانہ اور شائستہ معاشرے کے خواب سجائے ہم جیسے ان گنت ساتھی طلبہ سیاست کا حصہ بنے، تو اس وقت ملک کی سیاست پر مڈل کلاس کے رہنماؤں کے نقوش خاصے گہرے تھے۔

اس میں دائیں اور بائیں بازو کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ اگر ایک طرف بائیں بازو کی جماعتوں کی قیادت متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے رہنماؤں کے ہاتھوں میں تھی، تو وہیں جماعت اسلامی سمیت دائیں بازو کی بیشتر جماعتوں کی قیادت اور رہنماؤں کی پوری کھیپ مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی۔ جماعت اسلامی میں تو آج بھی مڈل کلاس کی اکثریت ہے۔ مگر 48برس قبل مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے روشن خیال سیاسی دانشوروں کی کاوشوں کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پیپلز پارٹی البتہ مکمل طور پر فیوڈل مفادات کی نگہبان جماعت بن چکی ہے۔

اس ملک میں دوسرا المیہ یہ ہوا کہ چار دہائی قبل تک ترقی پسند سیاست کی علامت سمجھی جانے والی نیشنل عوامی پارٹی(NAP)بھی سیاسی منظر نامے سے غائب ہوچکی ہے۔ سقوط ڈھاکا کے بعد NAP کے بھاشانی گروپ کا وجود اس حصے میں ختم ہوگیا، جب کہ NAPولی گروپ پیپلز پارٹی کے ایڈونچرازم کا شکار ہو کر پابند سلاسل ہوگیا۔ افغان ثور انقلاب کے باعث جب ولی خان مرحوم اور میر غوث بخش بزنجو مرحوم میں اختلافات شدید ہوئے تو میر صاحب مرحوم نے ماضی میں قائم کی گئی پاکستان نیشنل پارٹی بحال کرلی، جو ترقی پسندی اور روشن خیالی کی علامت کے طور پر سامنے آئی۔

مگر1989ء میں ان کے انتقال کے بعد یہ جماعت ان کے خونی اور نظریاتی وارثوں کے درمیان اختلافات کی نذرہوگئی۔ اسی طرح ولی خان اور ترقی پسند سیاستدانوں نے 1986 میںNDPسے الگ ہو کر جب عوامی نیشنل پارٹی (ANP)قائم کی تو توقع پیدا ہوئی کہ ترقی پسند سیاست کو ایک نئی جہت ملے گی۔ کیونکہ ولی خان مرحوم جیسے بالغ النظر سیاستدان کی صدارت کے علاوہ سندھ سے تعلق رکھنے والے رسول بخش پلیجو اس کے مرکزی جنرل سیکریٹری اور حاکم علی زرداری نائب صدر تھے۔

ساتھ ہی پورے ملک کے ترقی پسند سیاسی دانشور اور کارکن اس میں شامل ہوئے تھے مگر جلد ہی اس نے ملک گیر سیاست کو خیرباد کہہ کر خود کو صرف پختون قوم پرست سیاست تک محدود کر لیا۔ لہٰذا آج بائیں بازو کی عوامی قبولیت رکھنے والی کوئی جماعت سیاسی منظر نامے میں موجود نہیں ہے۔ ترقی پسند سیاست کی البتہ دو جماعتیں دعویدار ہیں۔ جن میں سے ایک نیشنل پارٹی صرف بلوچستان تک محدود ہے۔ جب کہ دوسری عوامی ورکرز پارٹی ابھی تک عوامی توجہ حاصل کرنے میں ناکام ہے۔

اب ایک دوسرے پہلو کی طرف آیے۔ ایک زمانہ تھا جب ٹریڈیونین اور طلبا سیاست قومی سیاست کی سمت کا تعین کیا کرتی تھی۔ ڈاکٹر سرور مرحوم اور ان کے ساتھیوں نے1953ء میں طلبہ تحریک کے ذریعے قومی سیاست کے لیے جن اہداف کا تعین کیا تھا، انھیں حسین نقی سے علی مختار رضوی اور معراج محمد خان تک، امیر حیدرکاظمی، ڈاکٹر رشید حسن خان اور راجہ انور سے کنور مومن خان نے پوری آب وتاب کے ساتھ حکومت وقت کی سختیاں جھیلتے ہوئے جاری رکھا۔

مگر جنرل ضیاء کی جابرانہ آمریت کے دور میں طلبہ سیاست پر جس سفاکانہ انداز میں شب خون مارا گیا، اس نے پاکستان کی سیاست میں مڈل کلاس کیڈر کی آمد کا راستہ روک دیا۔ جس کے بعد مڈل کلاس سیاست میں فیصلہ کن کردار سے محروم ہوگئی۔ خاص طور پر ترقی پسند سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، جس کی بنیاد ہی مڈل اور ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے نوجوان کے کیڈر پر ہوا کرتی ہے۔ دوسری طرف ٹریڈ یونین تحریک جسے پہلے دائیں اور بائیں بازو کے نام پر تقسیم کیا گیا۔

پھر 1969ء میں ائیر مارشل نور خان کی لیبر اصلاحات کے نتیجے میں مزید تقسیم کا شکار ہو گئی۔ کیونکہ اس پالیسی میں سودا کار ایجنٹ کے لیے ریفرنڈم کے تصور نے ایک ہی صنعتی یونٹ میں کئی یونینوں کے قیام کا دروازہ کھول دیا۔ اس کے بعد ہر سیاسی جماعت میں بننے والے لیبر بیوروز نے مزدور اتحاد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

جنرل ضیاء نے طلبا سیاست کے علاوہ قومی سیاست کو تباہ کرنے کا بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ انھوں نے 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے سیاسی عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اول، سیاست قومی سوچ کے دھارے سے نکل کر برادری کے چنگل میں پھنس گئی اور آج تک پھنسی ہوئی ہے۔ دوئم، انتخابات کے بعد بکھرے ہوئے ایوان کو ایک بینر تلے اکٹھا کرنے کے لیے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو ترقیاتی فنڈ کی رشوت دی گئی۔

یہ وہ فنڈ ہے، جو بلدیاتی اداروں کا حق ہوتا ہے۔ یوں ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی اور صوبائی اراکین اسمبلی کو قانون سازی کے بجائے گلی محلے کی سیاست تک محدود کردیا گیا۔ یہ کرپشن کا ایک ایسا جال ہے، جس میںقومی سیاست کو پھنسادیا گیا ہے۔ آج اسی فنڈ کے لالچ میں مقامی حکومت کا نظام رکاوٹوں کا شکار ہے۔

افلاطون نے ڈھائی ہزار برس پہلے کہا تھا کہ تاجروں اور فوجیوں کو کبھی اپنا حکمران مت بنانا۔ کیونکہ فوجی سیاست کی نزاکتوں اور باریک بینیوں سے عاری ہوتا ہے، جب کہ تاجر اپنے ذاتی مفادات کی خاطر قومی مفاد کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ کیونکہ اس کی سوچ کا محور ہر جائز و ناجائز طریقہ سے اپنے کاروبارکا پھیلاؤ ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس کی سیاسی بصیرت انتہائی محدود اور ناقص ہوتی ہے۔ اس نے فلسفی بادشاہ کاجو تصور پیش کیا تھا، اس کا مقصد ایسا حکمران تھا، جو معاملات و مسائل کی نزاکتوں کو سمجھنے کی صلاحیت کے ساتھ انھیں دور اندیشی اور سیاسی عزم کے ساتھ مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ مگر ہمارا المیہ ہے کہ ہم پر یہی دو طبقات یکے بعد دیگرے مسلط چلے آرہے ہیں۔

لہٰذا پاکستان میں حکمرانی خواہ آمرانہ ہو یا سیاسی جماعتوں کی کسی نے بھی نظم حکمرانی میں بہتری لانے پر توجہ نہیں دی۔ آج پورا ریاستی نظام تباہی کی جس راہ پرگامزن ہے، اس کا سبب اس میں پیدا ہونے والی خامیوں، خرابیوں اور کمزوریوں کا مسلسل نظراندازکیا جانا ہے۔ آج ایسی کوئی جماعت نہیں جس کے بارے میں وثوق سے کہا جاسکے کہ یہ ملک میں جاری حکمرانی کی فرسودگی کو سیاسی عزم و بصیرت سے دور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ پیپلز پارٹی فیوڈل مفادات کی نگہبان جماعت بن چکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) ایسے کاروباری حلقوں کی جماعت ہے، جنھیں موجودہStatus quo ہیSuitکرتا ہے۔ ANP نے خود کو قوم پرستی تک محدود کرلیا ہے۔ ایم کیو ایم مڈل کلاس کی جماعت ہونے کے باوجود اپنی مخصوص طرز سیاست کی وجہ سے شہری سندھ تک محدود ہے۔

تحریک انصاف جس کی جانب اربن مڈل کلاس کے نوجوان جانب متوجہ ہوئے۔ وہ عمران خان کی سیمابی طبیعت اور سیاسی بلوغت سے عاری عجلت پسندی کے علاوہ مختلف جماعتوں سے آنے والے مختلف النظر سیاستدانوں کے باعث خود بھی Status quo کی سیاست کا حصہ بن گئی ہے۔ قومی ایشوز پر کوئی واضح موقف اختیار کرنے کے بجائے مسلسل کنفیوژن کا شکار ہے۔ جس کی وجہ سے اس سے وابستہ توقعات کا پورا ہونا ممکن نظر نہیں آرہا۔

اگر پاکستانی سیاست کا غیر جانبداری کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو ملک کے سیاسی و سماجیFabric کو بائیں بازو کی جماعتوں نے وہ نقصان نہیں پہنچایا، جو دائیں بازو کی جماعتوں کی پالیسیوں اور سیاست کے نتیجے میں پہنچا ہے، جنھیں ریاستی اسٹبلشمنٹ کی مسلسل سرپرستی حاصل رہی ہے۔اس کے برعکس بائیں بازو کی جماعتیں گزشتہ نصف صدی سے جن خیالات کا اظہار کرتی رہی ہیں، وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئے ہیں۔

اگر بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو بھی اسی طرح کھل کر سیاست کرنے کا موقع دیا جاتا، جیسا کہ دائیں بازو کی جماعتوں کودیا گیا ، تو یقینی طور پر وطن عزیز کا سیاسی منظر نامہ قطعی مختلف ہوتا اور نظم حکمرانی اس طرح بحرانوں میں نہ گھری ہوتی، جیسی آج ہے۔ مگر تاریخ کے تلخ تجربات کے باوجود ریاستی منصوبہ ساز آج بھی دائیں بازو کی انھی سیاسی قوتوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں، جنہوں نے اس ملک کو سوائے مسائل اور پریشانیوں کے کچھ اور نہیں دیا ۔ بقول راز الہ آبادی:

اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے
اب رہائی ملی بھی تو مرجائیں گے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں