خواب بکھر نہ جائیں
شادی کی تقریبات سے فرصت پا کر اخبارات کے چیدہ چیدہ مضامین کا مطالعہ کیا،
ISLAMABAD:
گزشتہ دنوں خاندان میں ماشا اللہ پے در پے دو شادیوں اور ان کی تقریباً آٹھ تقریبات جن سے کم از کم دو ڈھائی بجے رات فراغت، رشتہ ایسا کہ ہر تقریب میں آخر وقت تک شریک رہنا ناگزیر، لہٰذا اس صورت میں گھر آ کر بستر تک پہنچتے پہنچتے تین ساڑھے تین بج جانا گویا معمول بن گیا تھا۔
ویسے عام حالات میں عشا کے بعد کھانا اور پھر کچن سمیٹ کر ہی مطالعے کا وقت ملتا ہے تو ڈھائی بجے تک جاگنا تو معمول ہے ہی۔ مگر جب سے ہوش سنبھالا ہے غیر ضروری رسومات و تقریبات سے ہمیشہ نالاں ہی رہے وجہ اس کی یہ ہے کہ اس روز روز کے آنے جانے سے اپنے پسندیدہ مشاغل میں خلل پڑتا ہے اسی لیے ایسی تقریبات میں بیزاری ہی طاری رہتی ہے۔
بقول منیر نیازی عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی جس شہر کی جگہ اگر میں لکھوں جس تقریب میں بھی جانا اکتائے ہوئے رہنا۔ ہاں ادبی محافل اور مشاعروں میں ہم رات بھر جاگ کر بھی صبح دم تازہ دم رہتے ہیں۔ مگر کیا کیا جائے کہ دین سے دنیا بھاری کے مصداق ان تمام تقریبات میں شرکت بھی فرض عین سمجھتے ہیں۔
بہرحال اس طویل تمہید کا مقصد یہ بتانا تھا کہ اس روزانہ آنے جانے کی مشقت سے ذہنی اور جسمانی طور پر اس قدر تھک گئے کہ جن کاموں سے کسی بھی صورت مفر نہیں کے علاوہ کسی اور کام پر دل اور دماغ کسی طرح آمادہ ہی نہ ہوئے، حتیٰ کہ اخبارات سرہانے رکھے رہ جاتے اور ہم نے صرف عادتاً سرخیوں پر نظر ڈالی اور نیند نے غلبہ پا لیا۔ مضامین تو اس دوران بالکل بھی نہ پڑھ سکے۔ ایسے میں لکھنے پر خود کو آمادہ کرنا بے حد دشوار لگ رہا تھا۔
اس مصروف اور ہنگامہ خیز دور ہی میں ایوان بالا کے انتخابات ہوئے، عالمی یوم خواتین منایا گیا۔ شادی کی تقریبات سے فرصت پا کر اخبارات کے چیدہ چیدہ مضامین کا مطالعہ کیا، عالمی یوم خواتین پر کئی مضامین بہت عمدہ تھے (کئی اخبارات میں) اگرچہ سب کا تذکرہ کالم کی طوالت کا باعث ہو گا مگر پھر بھی روزنامہ ایکسپریس میں شامل زاہدہ حنا کے کالم کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جس میں خواتین سے متعلق امتیازی رویے اور درست اعداد و شمار کو پیش کر کے یہ ثابت کیا گیا کہ اگرچہ خواتین کے لیے کچھ قوانین بنے ضرور مگر اول تو ان کی مخالفت کی گئی اور دوئم ان پر عملدرآمد کو یقینی بھی نہیں بنایا گیا۔
اسی سلسلے میں رئیس فاطمہ کے کالم میں ہمارے معاشرے میں خواتین سے وابستہ صورتحال کی بہترین عکاسی کی گئی اور تمام تر نمائشی کوششوں کو کاوشِ لاحاصل قرار دیا گیا، ایک طرح سے یہ بھرپور کالم ہے۔ تیسرا قابل ذکر مضمون (کالم) محمد عارف شاہ کا ہے۔
انھوں نے عالمی یوم خواتین کے حوالے سے محض قومی سطح پر نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر خواتین کے ساتھ مردوں کے رویے اور خواتین کی عالمی سطح پر بہترین کارکردگی پر موثر انداز میں روشنی ڈالی ہے ساتھ ہی پاکستانی معاشرے میں خواتین کو اپنا آپ منوانے کے لیے جس صورتحال سے دوچار ہونا پڑا ہے اس کو بھی حقیقی انداز میں پیش کیا ہے۔ ایک مرد کے قلم سے اتنی موثر تحریر قابل قدر ہے۔
ایوان بالا کے لیے جس جوڑ توڑ اور گھوڑوں کی تجارت کا ایک شور برپا تھا اور کئی کالم نگاروں کی رائے میں خوب زور و شور سے کی گئی مگر بعض کا کہنا (لکھنا) تھا کہ ''بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا ''مگر ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ تمام جماعتوں نے اپنے اپنے حساب سے نشستیں حاصل کر کے ثابت کر دیا کہ کوئی ووٹ خریدا نہیں جا سکا (حالانکہ اطلاعات اس کے متضاد بھی ہیں) انتخابات سے قبل سابق صدر کافی متحرک رہے ہر پارٹی سے اپنی مشہور زمانہ مفاہمتی پالیسی کے تحت ہاتھ ملاتے رہے۔
سابق صدر اور پی ٹی آئی کے چیئرمین کے درمیان ٹیلی فونک رابطے کا بھی چرچا رہا، لمبی بحث چلی کہ کس نے کس سے پہلے رابطہ کیا۔ بالآخر نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ فون تو پہلے پی ٹی آئی چیئرمین نے ہی زرداری صاحب کو کیا مگر رابطہ رحمان ملک نے یہ کہہ کر شروع کرایا کہ آپ زرداری صاحب کو فون کر لیں۔
لہٰذا رحمان ملک کی رابطہ کاری سے متاثر ہو کر یہ رابطہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ تمام سیاسی قائدین اپنی اپنی جماعت کے مفاد اور نظریات ہی کے لیے کام کرتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں، مخالفت کا مطلب دشمنی سمجھ لینا بھی غلط طرز فکر ہے۔ لہٰذا سب جماعتوں کے درمیان روابط ہونا جمہوری عمل کے لیے نیک فال ہے۔ کیونکہ یک نکاتی ایجنڈے پر تو تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی صفحے پر ہوتی ہیں اور وہ ہے حب الوطنی۔ بہرحال یہ مرحلہ بھی طے ہو گیا۔
ادھر ایم کیو ایم کے رؤف صدیقی نے کہا ہے کہ ہم ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور مختلف مناصب کے لیے اپنے امیدوار بھی سامنے لا سکتے ہیں۔ نتیجہ جو کچھ بھی ہو یہ سب سیاستدانوں کا درد سر ہے عوام کے لیے اس میں کوئی کشش ہے نہ سود و زیاں ہاں یہ ضرور ہے کہ اس طرح ملک میں سرگرمیاں جاری رہتی ہیں اور قوم خاص کر خود سیاستدانوں اور حکمرانوں پر جو نیند یا غنودگی طاری رہتی ہے کچھ نہ کچھ اس کا سدباب ہو جاتا ہے۔
کچھ ہلچل کچھ ہوتا ہوا نظر آتا ہے تو امید بندھ جاتی ہے کہ شاید ہوتے ہوتے واقعی ملکی مسائل پر بھی کچھ ہو جائے اور شاید کسی کی نظر مفلوک الحال عوام پر بھی پڑ جائے۔
مئی2013ء کے انتخابات سے کچھ پہلے اور بعد جیسے پنجاب کو پڑھا لکھا پنجاب، ترقی یافتہ پنجاب، غریبوں کا ہمدرد پنجاب وغیرہ وغیرہ بنانے کا شور ہوا تھا اب تھر میں سیکڑوں اموات، کراچی کو اندرون سندھ یا پنجاب کا پسماندہ دیہات بنانے کے علاوہ سندھ بھر کو کچرے کا ڈھیر، بدعنوانی کا گڑھ بنانے کے بعد سندھ کے صاحبان اقتدار کو بھی ہوش آ گیا کہ موجودہ حکومت کا آدھے سے ذرا کم وقت تو گزر چکا ہے اور آیندہ ان کی باری ہے تو اس کے لیے کچھ تیاری تو کرنا چاہیے۔
لہٰذا کچھ کریں نہ کریں کم ازکم شور تو مچایا جا سکتا ہے کچھ نمائشی دعوے تو کیے جا سکتے ہیں کہ ''ہم کراچی کا امن بحال کر کے دوبارہ روشنیوں کا شہر بنا کر دم لیں گے، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے، بھتہ خوری کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہو گی، بدعنوانی کا خاتمہ بہت جلد کر دیا جائے گا، تعلیم کے دروازے ہر بچے پر کھولے جائیں گے۔
سندھ کے چھوٹے سے چھوٹے دیہات میں اسکول، اسپتال اور سڑکوں کا جال بچھا دیا جائے گا'' ان تمام دعوؤں میں ایک بات کام کی گئی ہے کہ کسی بھی کام کے مکمل ہونے کا حتمی وقت کا تعین نہیں کیا گیا۔ لہٰذا عوام جہاں گزشتہ 67 برسوں سے خوش گوار خواب دیکھ رہے ہیں مزید چند سال اور سہی یعنی بقول فیض چند روز اور میری جاں! فقط چند ہی روز ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم۔
غرض کارکردگی کے لحاظ سے سب سے بدتر صوبہ ہونے کا اعزاز بھی کوئی معمولی اعزاز تو نہیں کہ ''بدنام نہ ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا؟'' فرزند کراچی بلکہ فرزند سندھ ہمارے بے حد ہر دلعزیز وزیر بلدیات و اطلاعات ان تمام اعلانات میں بڑے پرجوش اور فعال نظر آتے ہیں۔ جوان خون ہے شاید واقعی جوش میں آ جائے اور کچھ نہ کچھ کر ہی دکھائیں۔
سب وعدے تو خیر پورے کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں مگر دو چار یا کچھ تو اب اس ''کچھ تو'' میں اگر صرف شہر کراچی میں امن قائم ہو جائے اور اہل کراچی کو دہشت گردی سے نجات مل جائے تو سمجھیے کہ گویا کراچی ہی نہیں بلکہ پورے سندھ کے لوگوں پر احسان عظیم ہو گا بلکہ ان کا دل جیتنے کا بہترین موقع بھی مل جائے گا اور پھر اگلے انتخابات میں آوے ہی آوے۔ کچھ کریں یا نہ کریں مگر آ تو جائیں گے کیونکہ اب ان ہی کی باری ہے۔ رہ گئے مسائل تو اگر وہ حل ہو جائیں تو پھر سیاست کس بات پر کی جائے گی؟ لہٰذا عوام کو تھپک تھپک کر سلانے دو کہ کہیں نیند ٹوٹ نہ جائے اور خواب بکھر نہ جائیں۔ خیریت اسی میں ہے۔