بھیڑ شیر اور انسان
اگر شادی میں کھانا دیر سے یعنی سوا نو یا ساڑھے نو بجے شروع ہو تو رہی سہی کسر بھی نکل جاتی ہے
صوبہ پنجاب میں شادی بیاہ کا اختتامی وقت رات دس بجے تک مقرر ہونے کے علاوہ کھانے کی ون ڈش کی پابندی کی وجہ سے بجلی اور خوراک کی بچت کا اہتمام ہو جانے کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔
اگر کھانا دیر سے یعنی سوا نو یا ساڑھے نو بجے شروع ہو تو رہی سہی کسر بھی نکل جاتی ہے اور تیز کھانے کا مقابلہ بھی شادی ہال یا پنڈال میں بغیر ٹکٹ خرچے دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ اسی لیے ایک دعوت بارات پر جب راؤنڈ ٹیبل کے گرد بیٹھے مہمانوں میں سے ایک منچلے نے نعرہ بلند کیا ''مہمانو، مہربانو، بزرگو، نوجوانو کھانا کھل گیا ہے۔ اٹھو اور کھانے کی پراتوں پر ٹوٹ پڑو'' پھر جو ہوا وہ طوفانی منظر دیدنی تھا۔ میں نے دیکھا کہ نعرہ لگانے والا مہمان اسی جگہ بیٹھا رہا ہے تو اس نے مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے خود ہی کہہ دیا ''میں گھر سے کھانا کھا کر آیا ہوں''
یہ حقیقت ہے کہ بہت سی ایسی شادی پارٹیوں میں جہاں ہجوم ہو کئی لوگ جو خوراک کے لیے دھینگا مُشتی سے اجتناب کرنا بہتر سمجھتے یا سیکڑوں مہمانوں کے لیے تیار ہونے والے کھانے کے پکوان کے مراحل نزدیک سے بچشم خود دیکھ چکے ہوں اور لکڑ ہضم پتھر ہضم معدہ نہ رکھتے ہوں گھر کا کھانا کھا کر ایسی دعوتوں میں شریک ہو جاتے ہیں یا پھر میزبان کو دکھانے کے لیے پلیٹ میں دہی کا رائتہ لے کر کارروائی ڈالنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔
ہمارے لوگوں کی بے صبری و عجلت پسندی صرف خوراک پر ہلہ بولنے تک محدود نہیں ہے روزمرہ کی بیرون خانہ کسی بھی ایکٹویٹی پر کسی بھی شخص کو دس پندرہ منٹ فوکس میں رکھ کر دیکھیں یا اس کی ویڈیو بنا کر اسی کو دکھا دیں بجائے شرمندگی کا اظہار یا معذرت خواہ ہونے کے موصوف داد وصول کرنے کا انداز دکھاتا ملے گا۔
یہ ایک فرد واحد کا ذکر نہیں، ہم سب کو بشمول میرے اپنی انفرادی اور اجتماعی روش زندگی کے حوالے سے اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر اصلاح کرنے کی اشد ضرورت ہے کسی دوسرے پر تنقید کرنے سے پہلے اپنے کردار کو مثالی بنا کر پیش کرنے ہی سے بہتری ممکن ہو سکے گی۔
بات چلی تھی تقریبات خورونوش میں طوفان بدتمیزی کی۔ سیاسی جلسوں میں جن کا اختتام اجتماعی کھانوں پر ہوتا ہے بہت سے لوگوں نے وہاں موجود ہوتے ہوئے اور اکثریت نے ٹی وی چینلز پر گھر بیٹھے ہوئے نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر کے ناظرین نے ایک سے بڑھ کر ایک شرمناک تماشا دیکھا ہے۔
ابھی چند ہفتے قبل ملک کی ایک محترم مرحوم شخصیت کی یاد میں بہت بڑا کیک کاٹنے کی تقریب میں جس طرح لوگوں نے دونوں ہاتھوں سے کیک کے ٹکڑے لوٹ کر ہاتھوں سے منہ پر پلستر کیے وہ محترم مرحوم شخصیت کی روح کو تڑپا دینے والا شرمناک منظر تھا۔ ایسے فنکشنز کے کرتا دھرتا لیڈر حضرات کو اپنے مرحوم لیڈروں کو تماشا بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔
بھیڑوں کے بارے میں عام تاثر ہے کہ بڑا بیوقوف جانور ہے اپنی عقل استعمال کرنے سے عاری ہے۔ ہر بھیڑ اپنے سے آگے جانیوالی بھیڑ کے پیچھے انجام سے بے خبر چل پڑتی ہے۔ جدھر آگے والی نے موڑ کاٹا یہ پیچھے والی بھی اس کے پیچھے اور وہی سست رفتاری نہ آگے نکل جانے کی خواہش نہ رفتار میں تیزی، نہ لیڈر بننے کی خواہش، نہ پھرتی و چالاکی لیکن وہ چرواہے کی حسب خواہش منزل پر پہنچ کر ہی دم لیتی ہے اور چرواہا بھی نہ خود بے راہ رو ہوتا ہے نہ اپنی بھیڑوں کو بھٹکنے دیتا ہے اور نہ ہی انھیں کسی اندھے خشک و بے آب کنویں میں گراتا ہے۔
ان معصوم بے ضرر بھیڑوں کے مقابلے میں کبھی انسانوں کے پاکستانی جلوس کو کسی خاص مقصد سے اپنے لیڈر کی رہنمائی میں جاتا دیکھیے کچھ دیر کے بعد جلوس کے شرکاء بے قابو ہو کر کبھی سڑک کو فوری بلاک کر کے ٹریفک جام کر دیں گے یا پھر رستے میں آنے والی ہر شے کو درہم برہم کر کے موقع پا کر لوٹ مار کا بازار گرم کرنے کے ساتھ توڑ پھوڑ سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
اس دوران ان کا رہنما خود اپنا مقام اور اپنی منزل کھو کر لیڈ کرنے کی بجائے ہجوم کا پیچھا کرتے ہوئے مشرق کی بجائے مغرب کی سمت جا نکلے گا اور بالآخر وہاں ڈیوٹی پر موجود پولیس لاٹھی چارج کرنے پر مجبور ہو جائے گی اور جلوس کے شرکاء دائیں بائیں کی گلیوں میں پناہ لیتے ہوئے جوابی پتھراؤ کرنے لگیں گے۔ اب آپ خود ہی بھیڑوں اور انسانوں کے ڈسپلن کا مقابلہ و موازنہ کر لیں۔
بھیڑوں کے اِجڑ اور انسانوں کے جلوس کے دونوں مناظر فرضی نہیں لوگوں نے اکثر ایسے مشاہدے کیے ہوں گے اور کف افسوس ملا ہو گا کہ انسانوں کے برعکس بھیڑوں کا ڈسپلن بہتر تھا۔ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اشرف المخلوقات کیوں گراوٹ میں مبتلا اور ڈسپلن سے عاری ہوا۔ کیا ان کی خصلت ہی ایسی ہے اور وہ بھیڑوں سے بھی گئی گزری مخلوق ہیں۔
میرے وہ دوست جو یورپ امریکا برطانیہ اور دوسرے کئی سویلایزڈ ممالک میں نقل مکانی کر چکے لیکن اپنی فیملیز اور رشتہ داروں سے ملنے آتے رہتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ یہی بظاہر غیر مہذب پاکستانی جب غیر ملک کے ساحل سمندر یا ہوائی اڈے پر اترتے ہیں تو ان کے ذہن کا کمپیوٹر انھیں فی الفور اور اچانک نہایت مہذب، بااصول اور ڈسپلنڈ بنا دیتا ہے اور اس کی دو بڑی وجوہات ہیں پہلی یہ کہ ان کے اردگرد ہر مقامی شخص مہذب بااصول اور ڈسپلن کا پابند ہوتا ہے اور اگر وہ ان اصولوں سے روگردانی کریں تو ہر دوسرا شخص اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے فوراً تادیبی کارروائی کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں وہاں امیر غریب، عوام اور حکمران کالا گورا چھوٹا بڑا القصہ قانون ہر کسی کے ساتھ برابر کا سلوک کرتا ہے لیڈر عوام کے لیے خود نمونہ پیش کرتا ہے، وہاں حکمران اور عوام ہر دو کے لیے صرف ایک قانون ہے اور ہر شخص حقوق اور فرائض میں یکساں حیثیت کا حامل و پابند ہے۔ کوئی شہری پدرم سلطان بود کی Plea لے کر کسی قسم کی رعایت کلیم نہیں کر سکتا۔
ہمارے ہاں جس روز بھیڑ اور شیر کے حقوق و فرائض میں یکسانیت اور برابری آ گئی پاکستان مثالی ملکوں کی صف میں کھڑا نظر آئے گا۔