بجلی کا بحران حکمران بے نقاب
پلا ننگ کمیشن کےسابق ڈپٹی چیئرمین ندیم الحق نےایک اخباری انٹرویو میں بتایا کہ موجودہ نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔
پلا ننگ کمیشن کے سابق ڈپٹی چیئرمین ندیم الحق نے ایک اخباری انٹرویو میں بتایا کہ موجودہ نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ نظام سے مراد ہے سر ما یہ دارانہ نظام۔اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ توانائی کا ہے۔
توانائی کی پریشانیوں سے عوام بلبلا اٹھے ہیں،ادھر لوگ عدم توانائی سے دوچار ہیں تو دوسری طرف توانائی منصوبوں کے لیے16 ارب ڈالرکے بین الاقوامی فنڈز استعمال نہ ہو سکے۔ سول نوکر شاہی کی نااہلی کے باعث عالمی اداروں کی جانب سے توانائی منصوبوں کے آغاز کے لیے فراہم کیے گئے16ارب ڈالر کے فنڈز استعمال نہیں کیے جاسکے۔
وزارت خزانہ کے شعبہ مالی معاملات کی تیارکردہ تجزیاتی رپورٹ میں چونکا دینے والے انکشافات میں بتایا گیا ہے کہ16ارب ڈا لرکی یہ رقم عالمی ڈونرزکی طرف سے منظورکردہ18ارب80 کروڑ ڈالرکی مجموعی رقم کا85فیصد بنتی ہے۔ جس سے نہ صرف بجلی کی پیداوار بلکہ ٹرانسمیشن نظام کی بہتری کے منصوبے شروع کیے جانے تھے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے فنڈزکے استعمال میں ناکامی سے ٹیکس دہندگان پر سالانہ21ملین ڈا لرجرمانے کا بوجھ پڑے گا جس میں سے صرف چین کو15ملین ڈا لر کی دستیابی کے باوجود ابھی بجلی کے34منصوبوں پرکام شروع ہونا باقی ہے۔ ان میں سے24 منصوبے زرداری حکومت، تین مشرف حکومت اور سات نواز حکو مت کے تجویزکردہ ہیں ۔
اگر ان منصوبوں پرکام شروع ہوچکا ہوتا تو اب تک نہ صرف چار ہزار میگا واٹ بجلی حاصل ہوچکی ہوتی بلکہ بجلی کے ترسیلی نظام اور تقسیمی گرڈز میں بھی بہتری آچکی ہوتی۔ یہ مسئلہ وزیراعظم نواز شریف کو حالیہ بریفنگ میں اٹھایا گیا لیکن بریفنگ میں شریک وزارت پانی و بجلی کے حکام نے فرائض سے پہلوتہی پرکسی کو ذمے دار نہیں ٹھہرایا تھا۔
ان غیر ملکی قرضوں میں سے نصف سے زائد معاہدے وزارت پانی، بجلی نے کیے اور نو ارب ڈالر یا نوے فیصد فنڈزکو ابھی تک ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔ اس وزارت کے ایک سے زیادہ سیا سی سربراہ ہیں اور مبینہ طور پر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف براہ راست اس وزارت کو مانیٹر کرتے ہیں ،بجلی کی پیداوارکے سولہ منصوبے جو وزارت پانی و بجلی کی طرف سے شروع کیے جانے تھے اس میں سے سات ارب سترکروڑ یا بانوے فیصد فنڈز ابھی بھی استعمال نہیں کیے جا سکے۔
اسی طرح پاور ڈسٹری بیوشن کی مد میں اسی فیصد قرضے تاحال استعمال ہونے کے منتظر ہیں۔ نوکرشاہی کی نااہلی کی بدترین مثال ایشیائی بینک کی طرف سے ایک ارب تیس کروڑ ڈالر فنڈ سے بجلی کے عام میٹروں کی جگہ اسمارٹ میٹر نصب کرنے کا ہے۔ ایشیائی بینک نے اس پروجیکٹ کے لیے 990 ملین ڈالر قرضہ فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
منصوبے کا پی سی ون بر وقت مکمل نہ ہو نے کی وجہ سے مینیلا سے آئی بینک کی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کا درجہ ' تیکنیکی بات چیت تک گھٹانا پڑا۔ ایشیائی بینک نے توانائی کے شعبے کے لیے مجموعی طور پر دو ارب چالیس کروڑ فراہم کیا ہے اور اس میں سے چھیاسی فیصد کا کوئی استعمال نہیں ہوسکا۔
عالمی بینک نے باون ارب ڈالرکا وعدہ کیا اور اس میں سے اٹھانوے فیصد کا ابھی کچھ نہیں سوچا جا سکا۔چین نے8.5 ارب ڈالر کا قرضہ دینے کا ارادہ کیا ہے اور اس کا 80 فیصد ابھی استعمال کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا۔یورپی یونین نے جتنی رقم دینے کا وعدہ کیا ہے اس کا ایک فیصد بھی استعمال نہیں کیا جاسکا۔
وزیراعظم کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ ان رقوم کے استعمال نہ ہونے کی وجوہ میں حکومت کی منظوری کا سست عمل قرضوں کے لیے مذاکرات میں تاخیر، پروکیورمنٹ کی تفصیل کو حتمی شکل دینے کے لیے حکومتی اداروں میں تعاون کا فقدان، بڈنگ کے عمل کی طوالت اور عملدرآمد کے ذمے داروں میں صلاحیت کی کمی شامل ہیں۔
ہرکیس کے پیچھے منصوبوں پر عمل درآمد کے ذمے دار نوکر شاہی کی نااہلی دکھائی دیتی ہے۔ادھرکرا چی میں واٹربورڈ اور کے الیکٹرک انتظامیہ نے شہریوں کی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے،عیسیٰ نگری کے سامنے بجلی اور پانی کے ستائے ہوئے علاقہ مکینوں نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے سڑک بلاک کرکے ٹائروں کو نذرآتش کیا۔غریب آباد حسن اسکوائر، فلائی اوور،یونیورسٹی روڈ اوراسٹیڈیم فلائی اوور سمیت ملحقہ علاقوں میں بدترین ٹریفک جام ہوگیا اورگاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں، ڈاکو شہریوں کو لوٹتے رہے، اس احتجاج میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان برملا کہتے ہیں کہ' عوام کو تحفظ دینے کا موجودہ نظام ناکام ہو چکا'۔ جسٹس صاحب نے مزیدکہا کہ پولیس سیاست زدہ ہو چکی ہے، سیاسی بنیادوں پر پولیس اہلکاروں کے تقرروتبادلے ہوتے ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ ہر طرٖف سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے سے جرائم ختم نہیں ہونگے، مجرم پکڑنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جائے، ملک میں آ ج تک فنگر پرنٹس ٹیکنالوجی پرسنجیدگی سے نہیں سوچا گیا، اگر ہم ٹائی اور سوٹ درآمد کرسکتے ہیں تو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹیکنالوجی کیوں نہیں؟جب اس ملک کے جسٹس یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ یہ نظام (یعنی سرمایہ داری) ناکام ہوچکا ہے تو پھر ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب یہ نظام کیسے چل سکتا ہے۔
محنت کشوں کا خون کب تک نچوڑتے رہیں گے۔ بجلی کا مسئلہ ہو یا بھوک کا، بے روزگاری ہو یا افلاس ایک روز محنت کش ان اذیتوں اور ذلتوں سے تنگ آکر اس نظام کا تختہ الٹ دیں گے۔ پھر محنت کشوں کا راج قائم ہوگا۔کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ارب پتی۔