زراعت اور روزمرہ کے دیگر مسائل
میرا کالم اکثر ان موضوعات پر ہوتا ہے جو بین الاقوامی معاملات سے متعلق ہوتے ہیں۔
www.facebook.com/shah Naqvi
میرا کالم اکثر ان موضوعات پر ہوتا ہے جو بین الاقوامی معاملات سے متعلق ہوتے ہیں۔ ان پر لکھنا آسان نہیں۔ قارئین کی ایک تعداد گلہ کرتی ہے کہ آپ عوامی مسائل پر بھی لکھیں۔ ان کی شکایت بجا ہے۔ آج کا کالم عوامی موضوعات پر مشتمل ہے جو کسی حد تک ان کا گلہ دور کر سکے گا۔
سب سے پہلے تو کاشتکاروں کے مسائل کو لیتے ہیں جو ہماری زرعی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں لیکن یہ ریڑھ کی ہڈی آج کل سخت تکلیف میں ہے۔ برا وقت تو اس پر ہمیشہ سے ہی رہا ہے لیکن اس دفعہ درد کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔ ملکی معیشت میں زراعت کا حصہ ایک چوتھائی ہے تو افرادی قوت کی کھپت چالیس فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ زراعت کے حوالے سے ٹیلیفون تو مسلسل آتے ہی رہتے ہیں لیکن پچھلے کچھ عرصے سے اس میں شدت آ گئی ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ کپاس اور چاول کا کاشتکار تباہ ہو چکا ہے۔
اب آلو کا کاشتکار مر رہا ہے اور گندم اور مکئی کا کاشتکار مرنے کے قریب۔ یہ وہ فصلیں جو پاکستان کو قیمتی زرمبادلہ کما کر دیتی ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ پچھلے سال کی گندم ابھی تک اسٹوروں میں پڑی ہوئی ہے جب کہ نئی گندم کی کٹائی ہونے والی ہے۔ چاول کا بھی یہی حال ہے۔ چاول کے کاشتکار کے لیے وزیراعظم نے 5 ہزار فی ایکڑ سبسڈی کا اعلان کیا لیکن اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ جب کہ فاسفیٹ کھادوں کے لیے 15 ارب روپے کی امدادی رقوم کا اعلان کیا لیکن یہ وعدہ بھی ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔
خالد محمود کھوکھر پاکستان کسان اتحاد کے مرکزی صدر ہیں۔ انھوں نے فون کیا تو باتوں باتوں میں بھارت اور پاکستان کی زراعت کا تقابلی جائزہ سامنے آیا۔انھوں نے بتایاکہ بھارت میں زراعت کے لیے بجلی مفت ہے جب کہ پاکستان میں انتہائی مہنگی۔ غور فرمائیں کہاں مفت اور کہاں انتہائی مہنگی بجلی جس نے نہ صرف کسانوں بلکہ عوام کے بھی ہوش اڑا دیے ہیں۔ ڈی اے پی بھارت میں گیارہ سو روپے بوری جب کہ یہی چیز یہاں فی بوری ساڑھے تین گنا زیادہ قیمت پر اور ملاوٹ شدہ ملتی ہے۔ یوریا سرحد پار پانچ سو روپے فی بوری جب کہ یہاں چار گناہ زیادہ مہنگی، بیج ناقص اور مہنگا۔
بھارت میں آسان قرضوں کی سہولت جب کہ یہاں بغیر رشوت زرعی قرضہ ملنا ناممکن، سہولتیں تو بھارتی کسانوں کو اور بھی میسر ہیں لیکن گنجائش نہیں۔ اس تقابلی جائزے کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ان تفصیلات کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستانی عوام کو بھی اندازہ ہو جائے کہ وہ گڈگورننس جس کا چرچا ہے اس کی حقیقت کیا ہے۔ اس حوالے سے آخری بات کہ کاشتکاروں کو دی گئی ان سہولتوں کی بنا پر بھارتی پنجاب ایک ارب 25 کروڑ افراد کو غلہ فراہم کرتا ہے۔ کیونکہ ان کی فی ایکڑ گندم کی پیداوار 60 من ہے۔ جو کہ پاکستان سے تین گنا زیادہ ہے۔
8 مارچ کو کسانوں نے ساہیوال میں مظاہرہ بھی کیا جس پر پولیس نے لاٹھی چارج اور گرفتاریاں کیں۔ کسان رہنماؤں کا مطالبہ تھا کہ ان کی وزیراعظم سے ملاقات کرائی جائے تا کہ وہ وزیراعظم کو زرعی مسائل سے آگاہ کر سکیں ۔ زراعت کی بحالی کو فوقیت دینی چاہیے جس سے ملک کی 70 فیصد آبادی کا روزگار وابستہ ہے۔ ملک کی اتنی بڑی آبادی کی خوش حالی کا مطلب ان کی قوت خرید میں اضافہ ہے۔ جس سے ملک کی صنعتی سیکٹر کی تیار کردہ اشیا کی فروخت میں اضافہ ہوگا تو اس طرح ملکی معیشت کا پہیہ پوری قوت سے حرکت میں آ جائے گا۔ جس کے نتیجے میں بے روزگاری میں کمی آئے گی۔ جب اس میں کمی آئے گی تو ہر طرح کے جرائم، ڈاکے، چوری، قتل و غارت بھی کم ہو جائیں گے۔
خالد محمود نے انکشاف کیاکہ صورتحال اس قدر تشویشناک ہے کہ پچھلے سال فالتو گندم کا ذخیرہ ہونے کے باوجود غیر ملکی ناقص گندم کو قیمتی زرمبادلہ خرچ کر کے درآمد کیا گیا۔ بہرحال کسانوں کے مطالبات پر غور کے لیے ایک چار رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے، یہ کمیٹی دس دن میں رپورٹ پیش کرے گی۔ اب وقت ہی بتائے گا کہ یہ کمیٹی مطالبات کا حل دے گی یا یہ صرف طفل تسلی۔ یہ مسائل ایسے نہیں جو حل نہ ہو سکیں۔ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت اس کی بہترین مثال ہے۔ ان مسائل کا حل آسان ہے۔ صرف ترجیحات کو بدلنے کی ضرورت ہے کہ سڑکوں، پلوں، میٹرو پر توجہ دینے کے بجائے زراعت پر توجہ دی جائے۔
حال ہی میں ایک انتہائی اہم سرکاری ادارے نے وارننگ دی ہے کہ فوری طور پر جی ہاں فوری طور پر تمام ترقیاتی منصوبوں پر مختص کردہ تعمیراتی فنڈز کو روک کر اس رقم کو ڈیموں اور آبپاشی کے منصوبوں پر استعمال کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پینے کا پانی بھی دستیاب ہونا مشکل ہو گا۔ وفاقی وزیر آبپاشی و بجلی پہلے ہی وارننگ دے چکے ہیں کہ بہت جلد پانی کا بہت بڑا بحران آنے والا ہے اور قوم اگلے پچھلے تمام بحرانوں کو بھول جائے گی۔ اگر یہ سب کچھ ہوا تو پاکستان کو خدانخواستہ ایتھوپیا، صومالیہ بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔کس کس مسئلے کا ذکر کیا جائے، پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے فیسوں کے ضمن میں انت مچا رکھی ہے۔
حال ہی میں پنجاب اسمبلی نے پرائیویٹ تعلیمی اداروں پر فیس بڑھانے پر پابندی لگائی ہے۔ لیکن اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا۔ یہ صرف پنجاب نہیں پورے ملک کا یہی حال ہے۔ لاہور کے بڑے اسپتالوں میں مریضوں کے اتنے بڑے ہجوم ہوتے ہیں نہ وہاں آپ چل سکتے ہیں نہ سانس لے سکتے ہیں۔ اس سے آپ دوسرے شہروں، قصبوں، دیہاتوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں جہاں اسپتالوں میں ڈاکٹر ہیں نہ دوائیں۔ تھانے دہشت کی علامت ہیں۔ کچہری میں میں سائل کو لوٹا جا رہا ہے۔ بات پھر وہی آ جاتی ہے کہ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں۔
اس کے باوجود تاریکی میں کچھ روشن چراغ بھی ہیں۔ ان میں سے ایک نام ڈاکٹر اخلاق احمد کا ہے۔ درد دل رکھنے والے مسیحا ہیں۔ دوسرا بڑا نام جس کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی وہ آنکھ کے ایک بہترین معالج ڈاکٹر اسد اسلم صاحب ہیں جنہوں نے اس شعبے میں لندن سے پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ وہ بھی کم وسائل رکھنے والے مریضوں کے لیے دل کشادہ رکھتے ہیں۔ تمام تر خرابیوں کے باوجود ہمارے ملک کے سرکاری غیر سرکاری شعبوں میں مخلص، ایمان دار لوگوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی موجود ہے جس کی وجہ سے ایک ملک کی گاڑی ابھی بھی چل رہی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ایک ذاتی کام کے سلسلے میں انکم ٹیکس لاہور کے دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں ایڈیشنل کمشنر محمود جعفری اور ایک کمشنر صاحب جن کا نام میں بھول رہا ہوں اور ان کے ماتحت ڈپٹی کمشنر محمد فیصل چوہدری سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ مل کر جی خوش ہو گیا۔ بغیر کسی واقفیت کے ان حضرات نے ہر طرح کا تعاون و عزت احترام دیا۔ مجھے تو ایسا لگا جیسے میری ان حضرات سے برسوں پرانی واقفیت ہے۔ بے شک ایسے ہی لوگ اس نازک وقت میں قوم کی آخری امید ہیں۔
٭...بسنت کے تیوہار سے پابندی اگلے سال اٹھ جانے کا امکان ہے۔