سیاست میں مثبت اور خوش آیند تبدیلی

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زرداری سیاسی ڈائیلاگ، بات چیت ،مفاہمت اور لین دین کے بہت بڑے گرو اور بادشاہ انسان ہیں


Dr Mansoor Norani March 17, 2015
[email protected]

COLOMBO: کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زرداری سیاسی ڈائیلاگ، بات چیت ،مفاہمت اور لین دین کے بہت بڑے گرو اور بادشاہ انسان ہیں۔جو بھی اُن کے دام میں آ گیا پھر کہیں بھی نہ جا سکا اور یہ بات اُنھوں نے اپنے پچھلے دورِ حکومت میں ثابت کرکے بھی دِکھا دی ہے۔

انتخابات میں واضح اکثریت نہ رکھنے کے باوجود جس طرح اُنھوں نے اے این پی، ایم کیو ایم ، مسلم لیگ (ق) اورمولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی کو ہمہ وقت اپنے ساتھ جوڑے رکھا وہ اُنہی کاکمال اور خاصہ تھا۔کبھی کبھار ایم کیو ایم آنکھیں دکھانا شروع کر دیتی تو وہ چوہدری برادران کو اپنا حامی اور ناصر بنا لیتے اور کسی لمحے کے لیے بھی پارلیمنٹ میں اپنی عددی کمی کا احساس ہونے نہیں دیتے تھے۔

یہ اُنہی کی کرشمہ سازی تھی کہ لا تعداد الزامات کے باوجود وہ اپنے دور کے پانچ سال بڑے اطمینان اور سکون کے ساتھ پورے کرگئے۔اپوزیشن جماعت کی حیثیت میں میاں صاحب کی مسلم لیگ (ن)گرچہ کچھ زور اور مخالفت دکھاتی رہی لیکن ہمارے بیشتر تجزیہ کاروں اور تبصرہ نگاروںکی نظر میں وہ بھی فرینڈلی اپوزیشن سے زیادہ کچھ نہ تھی ۔

اُس دور میں باعثِ مسرت بات یہ تھی کہ اُس وقت عمران خان فیکٹر ابھی اتنا توانا اور سرگرم نہیں ہو پایا تھا کہ زرداری صاحب کے لیے کوئی مشکل پیدا کر دے۔ پی ٹی آئی اُن کے دور کے آخری سالوں میں عوامی مقبولیت اور پذیرائی کے مراحل طے کر رہی تھی اور عمران خان نے بھی اپنی ساری تحریک کا مرکز چونکہ پنجاب کو بنایا ہوا تھا لہذا اُن کے نشانے پر پی پی پی سے زیادہ مسلم لیگ (ن) ہی تھی۔زرداری حکومت پر تنقید کرتے ہوئے بھی وہ میاںصاحب ہی کو مشقِ سخن بناتے رہے اور اُن کی فرینڈلی اپوزیشن کو مک مکا اور نورا کشتی کا نام دیتے رہے۔

جنوری 2013 میں الیکشن سے چند مہینے قبل سیاسی ماحول میں کچھ ہلچل مچانے اور جمود توڑنے کے لیے ٹورنٹو سے علامہ طاہرالقادری صاحب اچانک اسلام آباد میں وارد ہوتے ہیں اور ڈی چوک پر چار روزہ میلہ سجا کر حکومتِ وقت کے ساتھ ایک ایسے سمجھوتے پر دستخط کرکے اپنے دھرنے کو موقوف و منسوخ کر دیتے ہیں جس پر عمل درآمد تو دور کی بات ہے خود علامہ صاحب نے بعدازاں کبھی اُس کے بارے میں کوئی تبصرہ و تذکرہ تک نہیں کیا۔

ہاں البتہ اُن کی شعلہ آفریں تقاریر اور آگ اُگلتی باتوں کو زرداری صاحب نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ ہینڈل کیا اور چوہدری برادران کی مدد سے رحمن ملک کو ایسا ٹارگٹ سونپا گیا کہ علامہ صاحب جو ایک روز پہلے تک جاہ وجلال میں بھرپور آتش بیانی کر رہے تھے یکدم نرم اور خوش گو ہوکر ہنستے ہوئے اپنے کنٹینر سے باہر نکل آئے۔

میاں صاحب کو یہ ہنر ابھی تک شاید نہیں آتا ہے۔گرچہ وہ کوشش تو بہت کر رہے ہیں کہ زرداری صاحب کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے تمام سیاسی قوتوں سے مفاہمت اور دوستی کا ہنر پا لیں ، اُنھیں عمران خان صاحب سے نمٹنے کا طریقہ بھی بدلنا ہو گا ۔شومئی قسمت سے سانحہ پشاور کے بعد ڈی چوک کا دھرنہ تو ختم ہوگیا مگر جوڈیشل کمیشن کا شوشہ اُن کی اِسی پالیسی کی وجہ سے ابھی تک جوں کا توں باقی ہے۔

میاں صاحب نے اپنے سابقہ دورِ حکومتوں سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے اور وہ اِس بار بلاوجہ کی محاذآرائی اور اشتعال انگیزی سے پرہیزکرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ میثاقِ جمہوریت کی شقوں پر عمل کرتے ہوئے وہ فی الحال کسی بھی سیاسی گروہ سے الجھنا نہیں چاہتے ہیں اور حتی المقدور برد باری ،معاملہ فہمی اور دانشمندی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔سینیٹ کے انتخابات سے لے کر اُس کے چیئرمین کے عہدے کے لیے نامزدگی تک اُنھوں نے ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہونے کا ثبوت دیا ہے اور اُنھوں نے سینیٹر رضا ربانی کی نامزدگی پر اپنی رضامندی بھی ظاہر کردی۔

دوسری چھوٹی پارٹیوں کی بلیک میلنگ سے بچنے کا اِس سے بہتر طریقہ کوئی اور ہو نہیں سکتا تھا۔اِس سارے معاملے میں عمران خان تنہا کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔لگتا ہے کپتان ابھی سیاست کے اُسی دور سے گذر رہے ہیں جہاں سے زرداری اور میاں نوازشریف بہت پہلے گذر چکے ہیں ۔ یعنی مخاصمت اور محاذآرائی کی سیاست۔حالات و واقعات کی سنگینی نے اِن دونوں حضرات کو یہ سبق اچھی طرح پڑھا دیا ہے کہ آپس میں لڑنے اور مرنے سے نقصان خود اپنا ہی ہواکرتا ہے اورفوائدوثمرات کوئی تیسرا فریق لے اُڑتا ہے۔

نوّے کی دہائی کی سیاست کے نتیجے سے کم از کم یہ خوش آیند تبدیلی تو یقینا ظہور پذیر ہو پائی ہے کہ ہمارے یہاں کا سیاسی ماحول یکسر تبدیل ہو چکا ہے اور تمام سیاسی پارٹیاں یکسو ہوکر جمہوریت کی بقاء کے لیے متحد اور متحرک ہو چکی ہے۔مگر عمران خان چونکہ عوامی مقبولیت کے نئے نئے عہد سے گذر رہے ہیں اِس لیے اُس کا سحراور سرور اُنھیں ایک جد اگانہ طرز عمل اپنانے پر اُکسا رہا ہے۔ وہ خود کو باقی سیاستدانوں سے الگ اور مختلف ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف اور سرگرداں ہیں۔

اِسی لیے وہ ابھی تک سولو فلائٹ ہی کی پرواز سے سفرکر رہے ہیں۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) سے ویسے تو اُنھیں زمانے کا بیر ہے لیکن اگر کوئی اُن پارٹیوں میں سے ناراض اور منحرف ہوکر باہر نکل آئے تو عمران خان اُسے اپنی پارٹی میں لینے کے لیے دونوں باہیں کھولے بے چین و بے تاب دکھائی دیتے ہیں۔سینیٹ کے الیکشن کے موقعے پر ہارس ٹریڈنگ کا 'ہوا' اُنھوں نے جس طرح اِس بارکھڑا کیا ایسا اِس سے قبل پہلے کبھی دیکھا نہیں گیا تھا۔

دراصل وہ اپنی پارٹی کے ناراض اور ہم خیال گروپ کے ممبروں کے خوف سے مضطرب و پریشان تھے ۔جس کا ثبوت پولنگ والے دن سادہ پرچی کے ذریعے ووٹنگ کا وہ عمل تھا جو خیبر پختون خواہ کے علاوہ کسی اور صوبے میں نہیں دیکھا گیا اور جس کی بدولت وہ بمشکل اپنے ارکان کو اُن کی اپنی مرضی و منشاء کے تحت حقِ رائے دہی استعمال کرنے سے روک پائے۔اگر وہ ایسا نہیں کرتے توخیبر پختون خواہ میں اُن کی مقبولیت کا سارا بھانڈا سرِ عام پھوٹ جاتا۔

پھر سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے لیے بھی اُنھوں نے خوب پیسہ چلنے کی بات کی لیکن سب جانتے ہیں کہ میاں صاحب نے کس طرح سودے بازی اور بلیک میلنگ کی سیاست کو ٹھوکر مارکر اپوزیشن کے نامزد کردہ چیئرمین ہی کو قبول کرلیا۔اور اِس طرح یہاں بھی عمران خان عوام کی نظروں میںسارے سیاستدانوں کو کرپٹ اور بد عنوان ثابت کرنے میں ناکام ہوکر رہ گئے۔اپنی مسلسل محاذ آرائی اور مخاصمت کی سیاست کی وجہ سے وہ سیاسی میدان میں اکیلے اور تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔

شیخ رشید کے سوا کوئی اور اُن کا ہمنوا نہیں ہے ۔ہو سکتا ہے یہ حکمتِ عملی اور طریقہ کار اُن کی طبیعت اور مزاج کو سوٹ کرتا ہو اور شاید اُنھیں اگلے الیکشن میں خود کو دوسروں سے مختلف ثابت کرکے عوام سے ووٹ لینے میں کارآمد اور کارگر بھی ہو لیکن موجودہ جمہوری کلچر میں یہ کسی طرح بھی دانش مندانہ اور بصیرت انگیز طرز فکر نہیں کہلایا جا سکتا۔ ہر ایک سے لڑائی اور دشمنی مول لے کر آپ خود کو دوسروں سے ممتاز اور زیرک و دانا ثابت نہیں کر سکتے ۔

معاملہ فہمی ،مفاہمت اور اتفاقِ رائے ہی آج کی سیاست کے سنہری اُصول ہیں۔ اِن ہی اُصولوں کو اپنا کر ہم جمہوریت کو اِس ملک میں پروان چڑھا سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر روز روز کی چپقلش اورنفرت انگیز سیاست سے اپنی جھوٹی انا کو تسکین تو دی جاسکتی ہے لیکن ملک و قوم کی خدمت ہرگز نہیں کہی جا سکتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں