ہٹلرکے دیس آسٹریا میں تیسرا حصہ
اگلے دو روز کے بعد ہم لینز شہر سے کوئی 30 کلومیٹر دور ایک دیہات میں پہلے ٹرام میں بیٹھے ٹرام میں وہی رش
اگلے دو روز کے بعد ہم لینز شہر سے کوئی 30 کلومیٹر دور ایک دیہات میں پہلے ٹرام میں بیٹھے ٹرام میں وہی رش خواتین، نوجوان، بوڑھے بیٹھے تھے جب کہ کچھ کھڑے ہوئے تھے۔ بعض خواتین کی گود میں کتے بھی تھے جن کے منہ پر ایک پنجرہ نما خول چڑھا ہوا تھا بعض کے ہاتھوں میں کتابیں اور اخبار تھے اور وہ پڑھ رہے تھے سب خوش و خرم مسکراتے چہرے بعض نوجوان لڑکیاں اپنے بوائے فرینڈز سے بغل گیر تھیں۔
ایک گھنٹے بعد ہم ٹرام سے اترگئے اور ایک بس کے ذریعے اونچائی اور اترائی پر ایک سرسبز علاقے میں اترگئے۔ یہ ایک دیہات اور جنگل تھا مگر پکی اور صاف ستھری سڑک تھی چاروں جانب سناٹا اور خاموشی تھی۔ میں اور اقبال دونوں ہی سڑک پر اکیلے چل رہے تھے۔ ہر طرف ہریالی، گیرین پہاڑ کھلا آسمان ٹھنڈ بھی کافی تھی پت جھڑ خزاں کا موسم تھا ستمبر تا نومبر میں پت جھڑ کا موسم ہوتا ہے پھر سرد موسم ہوتا ہے۔ مگر اس زمین پر درختوں اورگھاس کے علاوہ کوئی بھی مکان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
کافی دور جاکر 2 خوبصورت گھر نظر آئے۔ چاروں جانب کھیت کھلیان تھے۔ اقبال نے کہا کہ یہ کسان کا گھر ہے۔ یہاں چلتے ہیں۔ سامنے گائے اور بیل چل پھر رہے تھے۔ اتنا خوبصورت گھر یہ ایک کسان کا گھر ہے میں نے اقبال سے پوچھا اس نے کہا کہ یہاں ایک دو گھر ہی کسان کے ہوتے ہیں۔
زمین پر کاشت کرنے کے لیے آٹو میٹک مشین اور ٹریکٹر کے ذریعے ہوتا ہے اور پھر اقبال نے کسان کے گھر بیل بجائی۔ اندر سے اسپیکر فون کے ذریعے خاتون کی آواز آئی۔ اقبال نے اپنا نام بتایا اور خاتون نے آکر دروازہ کھولا۔ ایک ادھیڑ عمر دراز قد والی خوبصورت گوری چٹی خاتون ہم سے مخاطب ہوئی اس نے اپرن رگون سی پہن رکھا تھا وہ ہمیں اپنے کمرے میں لے گئی۔ اقبال نے میرا تعارف کرایا اور اس سے دودھ اور مکھن طلب کیا جو اس نے 10 منٹ میں ہمیں تازہ دودھ اور مکھن دیا اس دوران اس کا کتا (Dog) جو خود بھی دراز قد تھا اس کے ساتھ کھڑا رہا اور ہمیں دیکھتا رہا۔
میں ڈر گیا، مگر وہ کچھ نہ بولا۔ اقبال نے اسے دودھ اور مکھن کے پیسے دیے اور اس سے کہا کہ ہمیں گائے بیل، گھوڑے اور سور کے اصطبل دکھائیں۔ اس نے کہا ابھی نہیں شام 4 بجے ہم دودھ نکالنے جائیں گے پھر دیکھ لینا۔ خیر ہم اس کے گھر سے باہر آگئے اور آگے کی طرف چل پڑے مگر کتا ساتھ ساتھ چلتا رہا آگے بڑا گھنا جنگل تھا بڑے بڑے لمبے اونچے درخت جیسے ہمارے مری میں ہوتے ہیں۔ سنسان جنگل صرف ہم دونوں اور کتا ساتھ تھا۔ چارکلومیٹر کے بعد پھر ایک کسان کا گھر آیا۔
خاتون سے بات کی اور کتے کے بارے میں کہا کہ یہ ہمارے ساتھ کیوں چل رہا ہے کہیں یہ گھر تو نہیں بھول گیا ہے اس خاتون نے کہا کہ نہیں یہ مین روڈ تک آپ کے ساتھ جائے گا اور پھر خود ہی واپس آجائے گا۔ ہم کوئی 7 کلومیٹر تک اس گھنے اور خوبصورت جنگل میں چلتے رہے اور مین سڑک آگئی۔ سامنے ایک ریسٹورنٹ میں چائے اور کافی پی۔ بس میں سوار ہوئے اور لینز شہر کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں آگئے جس کا نام جوہانس کیلپر یونیورسٹی تھا (Johannes Kepler University)یہ یونیورسٹی بہت بڑی اور طویل کئی کلومیٹر پر پھیلی ہوئی تھی، خوبصورت درختوں میں گھری ہوئی ایک شاہکار لگ رہی تھی، ہم نے یونیورسٹی کی کینٹین میں کافی اور چائے پی پانی پیا سیر کی اور پھر واپس شہر کی طرف روانہ ہوئے رات گئے گھر آئے۔
ٹھنڈ بڑھ رہی تھی رات 10 بجے کراچی سے بیٹی رخسانہ کا فون آیا کہ ابو آج امی کی تیسری برسی ہے آپ کو پوتی شہر بانو تلاش کر رہی ہے آپ یاد آرہے ہو۔ پھرکامران، عدنان، جبران سے بات ہوئی۔ میری شریک حیات بانو رضی یاد آئی آنکھیں بھیگ گئیں اور اپنے کمرے کے بستر گرم رضائی میں گھس گیا۔ پاکستان یاد آیا۔ کراچی یاد آیا۔
وہاں کی گرمی یاد آئی۔ دہشت گردی، خون خرابہ، نسلی تصادم، سیاسی تصادم، غربت، بھوک و بیماری، جہالت اور مذہبی تفریق سمیت سب کچھ یاد آگیا مگر یہاں آسٹریا میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ میں سوگیا اور اگلی ایک نئی صبح کا انتظار پھر کہیں اور دوسرے شہر جانے کا خیال۔ اگلے دن پھر صبح 10 بجے ٹرام میں بیٹھ کر لینز ریلوے اسٹیشن آئے۔ جہاں سے ہم 12:32 پر انڈر گراؤنڈ ٹرین کے ڈبے میں سوار ہوگئے۔ یہاں سے ہمیں (Attnang-Puchheim) اٹ نناگ پوچھم شہر جانا تھا۔ ٹھیک ایک گھنٹے 20 منٹ بعد ٹرین پہنچ گئی۔ راستے میں ریلوے ٹکٹ چیکر سے ملاقات کی مگر نو انگلش، خیر اقبال نے تعارف کرایا کہ یہ پاکستان ریلوے کا ٹکٹ چیکر ہے بڑا خوش ہوا ہاتھ ملایا۔ راستے میں دیہات آتے رہے، کھیت آتے رہے، گھوڑے گائے گھاس چرتے نظر آتے رہے۔
خوبصورت ہرے بھرے پہاڑ بھی آتے رہے پھر ایک خوبصورت جھیل آئی جس کے چاروں طرف پہاڑ تھے اور پہاڑوں پر برف جمی ہوئی تھی۔ یہاں کہتے ہیں کہ سارا سال برف جمی رہتی ہے گرمیوں میں مزا آتا ہے نیچے جھیل ہے ان پہاڑوں کو غور سے دیکھا جائے تو بات مشہور ہے یہ ایک یونانی عورت کا چہرہ نما پہاڑیوں پر وہ سو رہی اس کا چہرہ اس کی آنکھ اس کی ناک نمایاں نظر آتی ہے۔ یہاں ٹرین آہستہ آہستہ چلتی ہے۔ سیاح بھی آتے رہتے ہیں۔ اسٹیشن پر کافی مسافر اتر گئے اور پھر ہم بھی ایک بس میں بیٹھ کر ایک اور خوبصورت ترین علاقے Salzkammergut سلاز کمرگیٹ پر پہنچ گئے یہاں پر پھیلی ہوئی ایک بڑی جھیل ہے۔
جہاں میلوں تک درخت ہی درخت ہیں۔ لوہے اور سیمنٹ کی بنچیں پڑی ہوئی ہیں جہاں نوجوان جوڑے شغل میں مصروف ہیں کہیں بوڑھے بیٹھے ہوئے ہیں سگار اور سگریٹ پی رہے کولڈ ڈرنک اور برگر کھا رہے ہیں ہر شخص خوش وخرم ہے۔ ہر طرف گورے چٹے لوگ ماسوائے میرے کالا ہونے کے جب کہ اقبال تو ویسے ہی گورا چٹا ہے اور جرمن لگتا ہے کلین شیو ہے۔ بڑا دلکش منظر ہے شام ہونے جا رہی ہے ہم واپسی کی تیاری کرتے ہیں۔ بس میں بیٹھ کر پھر اسٹیشن اور پھر ٹرین میں بیٹھ کر واپس لینز آنا ہے اس طرح ہم رات 10 بجے واپس گھر آگئے۔
رات بھابی کے ہاتھ کا پکا ہوا بہترین کھانا بریانی اور فرائی گوشت ترکش کے گرم گرم نان بڑی روٹی جیسے ہمارے یہاں کوئٹہ میں روٹیاں ملتی ہیں کھائیں اور T.V دیکھنے بیٹھ گئے کہ پاکستان کی خبریں سنیں وہی پرانی خبریں کراچی میں ہڑتال کل کچھ لوگوں کو مار دیا گیا تھا۔ اس لیے آج ہڑتال ہے، پشاور میں دھماکا، وزیرستان میں کارروائی کئی دہشت گرد مارے گئے۔
اقبال کہنے لگے کہ یار! پاکستان کا کیا بنے گا۔ میرے زمانے میں تو کراچی ایسا نہیں تھا نہ پاکستان ایسا تھا ہمیں تو اب کراچی اور پاکستان آتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ میرے تو بیوی بچے یہیں آباد ہیں البتہ بھائی اور بہنیں کراچی اور لاہور میں ہیں ہر تیسرے سال ڈرتا ہوا کراچی آتا ہوں یار! 1970 تک تو پاکستان اورکراچی پرامن شہر تھا۔ اب کیا ہوگیا۔ تمہارے لیڈرکیا کررہے ہیں۔ میں خاموش رہا کہ ہاں اقبال تم ٹھیک کہتے ہو۔ کاش میرا پاکستان اور کراچی 1970 جیسا ہوجائے۔