تماشا میرے آگے
نئے انتظامی ڈھانچے کے آگے بند باندھنے سے سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوتا
جس روز سے سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس اسمبلی سے منظور ہوا ہے، پورے صوبہ سندھ میں آگ سی لگی ہوئی ہے۔
اسے بدگمانی کہیں یا سیاسی رقابت، بہر حال قوم پرست جماعتوں کے ساتھ کچھ دیگر جماعتوں اور بعض تنظیموں نے اس کے خلاف ایک محاذ قائم کر لیا ہے۔ لیکن ان جماعتوں کے رہنما اور دیگر مخالفین اس آرڈیننس کی مخالفت میں کوئی مدلل استدلال ابھی تک نہیں پیش کر سکے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ اس آرڈیننس میں بیشمار سقم اور خامیاں ہیں، جن کی نشاندہی کرنا اور انھیں دور کیا جانا ضروری ہے۔ لیکن محسوس یہ ہو رہا ہے جیسے دانستہ طور پر پورے سندھ کو آرڈیننس حامی اور مخالف گروہوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔
سب سے پہلے بلدیاتی نظام پر بات کرتے ہیں۔ یہ نظام سب سے پہلے ہسپانیہ (اسپین) میں اموی حکمران منصور اول نے متعارف کرایا تھا، جس میں تعلیم، صحت، صفائی اور حماموں کا انتظام اس ادارے کو تفویض کیا گیا تھا۔1660ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اسی نظام کو معمولی رد و بدل سے چنائے (سابقہ مدراس) میں متعارف کرایا، جس میں قائم کی گئی کونسل میں نصف اراکین کا تعلق کمپنی سے جب کہ نصف نامزد کردہ مقامی لوگ شامل کیے جاتے تھے۔
اس کامیاب تجربے کو تاج برطانیہ کے ہندوستان پر اقتدار قائم ہونے کے بعد1880ء میں پورے ہندوستان میں نافذ کیا گیا۔ یوں برٹش انڈیا میں نکاسی و فراہمی آب، سڑکوں، گلیوں اور فٹ پاتھوں کی تعمیر و مرمت کے علاوہ پیدائش اور اموات کی رجسٹریشن، قبرستانوں اور مرگھٹوں کی دیکھ بھال وغیرہ اس نیم منتخب ادارے کو سونپی گئی۔ اس نظام کی کامیابی کے باعث اسے انڈیا ایکٹ 1935ء میں قانونی تحفظ فراہم کیا گیا، جو بعد میں بھارت اور پاکستان کے آئین کا حصہ بنا۔
ریاست کے اندر اختیارات کی عدم مرکزیت یا Decentralization کا تصور دوسری عالمی جنگ کے بعد تیزی کے ساتھ مقبول ہونا شروع ہوا۔ اختیارات کی عدم مرکزیت کے دو طریقے ہیں۔ اول، اختیارات کی تفویض (Delegation)۔ دوئم، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی یا (Devolution)۔ اول الذکر نظام جو Delegation of Power کہلاتا ہے، خاصا پرانا ہے۔ اس نظام میں مرکزی مقتدرہ اپنے کچھ انتظامی اختیارات نچلی سطح کے یونٹوں کو منتقل کر دیتی ہے، لیکن حتمی اختیارات اسی کے ہاتھوں میں رہتے ہیں۔ یہ نظام اب از کار رفتہ ہو چکا ہے اور سوائے چند پسماندہ ممالک کو چھوڑ کر کسی باقی دنیا میں مستعمل نہیں رہا ہے۔
دوسرا طریقہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی یا Devolution of Power ہے۔ اس نظام میں ریاست کے ہر یونٹ کو مکمل طور پر سیاسی، انتظامی اور مالیاتی منصوبہ سازی کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ عام طور پر وفاقی ریاستوں میں یہ نظام خاصا کامیاب رہا ہے۔ اس نظام کو سمجھنے کے لیے اگر پاکستان کی مثال کو سامنے رکھیں، تو یوں سمجھیے کہ پاکستان کو جو اس وقت دو درجاتی (Tiers) ریاستی ڈھانچے پر مشتمل ہے، ضلع (یا ڈویژن) کو ایک نئے درجے کے طور پر شامل کرنے سے تین درجاتی (Tiers) انتظامی ڈھانچہ میں تبدیل ہو جائے گا۔ جس میں ہر درجہ اپنے دائرہ کار میں مکمل طور پر با اختیار ہو گا۔ لیکن یہ نظام اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے، جب وفاق نیک نیتی سے صوبائی خود مختاری کو تسلیم کرے اور پھر صوبہ پوری دیانتداری کے ساتھ شہری انتظامی امور کو ضلعی کونسل کو منتقل کرے۔
اب جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان کو برٹش انڈیا کا بلدیاتی نظام ورثہ میں ملا۔ 1956ء کے پہلے آئین میں بلدیاتی نظام کو آئین کا حصہ بنایا گیا، لیکن اس آئین کے تحت عام انتخابات نہیں ہو سکے تو بلدیاتی انتخابات کیا ہوتے۔ 1958ء میں ایوب خان نے اس آئین کو منسوخ کر کے جب ملک میں صدارتی نظام نافذ کیا تو انھوں نے بلدیات کو شہری ترقی کے علاوہ ایک نیا سیاسی کردار بھی دیا۔ یعنی بلدیاتی کونسلروں پر مشتمل ایک الیکٹورل کالج بھی بنا دیا۔ اس نظام کے تحت بی ڈی کونسلر شہری ترقی کی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ صدر اور قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کا انتخاب بھی کرتا تھا۔1973ء کے متفقہ آئین میں برٹش دور کے بلدیاتی نظام کو شامل کیا گیا۔
مگر بھٹو مرحوم کے دور میں بلدیاتی انتخابات نہ ہو سکے۔1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بلدیاتی نظام سے متعلق آئینی شقوں میں بعض تبدیلیاں کرتے ہوئے1979ء میں ہر صوبے کے لیے بلدیاتی آرڈیننس جاری کیے اور تسلسل کے ساتھ انتخابات کرائے لیکن 1988ء سے1999ء کے دوران صرف پنجاب اور پختونخوا میں یہ انتخابات ہوئے جب کہ سندھ اور بلوچستان میں1991ء کے بعد بلدیاتی نظام تقریباً ختم ہو گیا۔ اب جو نظام لایا گیا ہے، وہ در اصل Delegation of Power کی ہی ایک قسم ہے جس میں ریونیو اور سماجی ترقی کو الگ کر دیا گیا ہے۔
اکتوبر1999ء میں پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے بعدNRB کے ذریعے Devolution of Power کے نظام کو پاکستان میں متعارف کرانے کی کوشش کی۔ لیکن ان کی نیت چونکہ اس نظام کے ذریعے اپنے اقتدار کو طول دینے کی تھی، اس لیے عالمی سطح پر نافذ نظام میں بعض ایسی تبدیلیاں کی گئیں، جس سے صوبوں کی حیثیت متاثر ہوئی اور عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ حالانکہ اس نظام میں اچھا خاصا پوٹینشیل موجود ہے۔ جس میں بعض بنیادی نوعیت کی اصلاحات اور تبدیلیوں کے ذریعے اسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ مگر فیوڈل Mindset رکھنے والی سیاسی جماعتوں اور ان کے اراکین نے اقتدار کی مرکزیت قائم رکھنے کی خاطر اس نظام کی بہت زیادہ مخالفت کی۔ کیونکہ ان کی دلچسپی قانون سازی سے زیادہ ترقیاتی فنڈز میں ہوتی ہے۔
وہ اس فنڈ کی مدد سے اپنے ووٹر کو کنٹرول کرتے ہیں، اس لیے کسی بھی صورت اس اختیار کو اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دینا چاہتے۔ دوسرے ضلعی نظام کے نتیجے میں ضلع کے وسائل اور بھرتیوں پر ضلعی منتخب کونسل کے اختیار کی وجہ سے انھیں من مانیاں کرنے کا موقع ملنے کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اپنے مخصوص مفادات کی خاطر مختلف حیلوں بہانوں سے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یوں سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی مخالفت کے باعث چار سال ضایع ہو گئے اور اس نظام میں اصلاحات نہیں ہو سکیں۔ اب جو نظام متعارف کرایا گیا ہے، وہ گو کہ Delegation of Power ہی کا تسلسل ہے، لیکن اس کی مخالفت کا سبب یہ ہے کہ کراچی سمیت پانچ شہروں میٹروپولیٹن کارپوریشنز قائم کی گئی ہیں اور کراچی میں صرف بلدیاتی معاملات کے لیے اٹھارہ ٹائون بحال کیے گئے ہیں۔
اب تیسرے سوال کی طرف آتے ہیں، یعنی کسی ایک صوبے یا ریاست میں ایک سے زائد بلدیاتی نظام ممکن ہیں یا نہیں؟ اس سلسلے میں ہم دنیا کے دیگر ممالک کے بجائے بھارت کی مثال کو سامنے رکھیں گے۔ بھارت میں 26 جنوری 1950ء کو آئین کی منظوری کے بعد سے اب تک جہاں عام انتخابات تسلسل کے ساتھ ہوئے ہیں، وہیں بلدیاتی نظام بھی تسلسل کے ساتھ جاری رہا ہے۔ بھارت میں وقتاً فوقتاً اس نظام کو مزید فعال بنانے کے لیے اس میں ترامیم اور تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔
وہاں اس وقت جو بلدیاتی نظام جاری ہے، وہ دو الگ انتظامی ڈھانچوں پر مبنی ہے، یعنی ملک کے چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہی علاقوں کے لیے الگ نظام ہے، جب کہ دہلی، ممبئی، کولکتہ سمیت بڑے شہروں کے لیے زیادہ با اختیار نظام نافذ ہے۔ معاملہ صرف بھارت ہی کا نہیں بلکہ دنیا کے تقریباً سبھی میٹروپولیٹن شہروں میں مکمل طور پر بااختیار انتظامی ڈھانچہ نافذ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بڑے شہروں کا انتظام روایتی طریقوں سے ممکن نہیں ہوتا۔ چنانچہ دو بلدیاتی نظام کسی طور ریاست یا صوبے کی تقسیم نہیں ہوتے۔
اس میں شک نہیں کہ حالیہ دنوں میں نافذ ہونے والے بلدیاتی نظام میں کئی سقم موجود ہیں۔ لیکن یہ زیادہ تر ٹیکنیکل نوعیت کے ہیں، جنھیں دور کیا جانا مشکل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ورکرز پارٹی پاکستان کے یوسف مستی خان، عثمان بلوچ اور اللہ اوبھایو کا موقف ہے کہ اس نظام کی مخالفت کے بجائے اس میں موجود ابہام، نقائص اور کمزوریوں کی نشاندہی کر کے انھیں دور کرنے کے لیے حکومت پر دبائو ڈالا جائے۔ ان سیاسی شخصیات کا کہنا ہے کہ بلدیاتی نظام کی مخالفت دراصل اختیارات کی مرکزیت قائم رکھ کر معاشرے کو فرسودگی کا شکار رکھنے کی خواہش ہے۔ اس کے علاوہ ایک راستہ یہ بھی ہے کہ مختلف تھنک ٹینک ماضی کے چاروں نظاموں کے قابل عمل نکات اور شقوں پر مبنی ایک نیا نظام تشکیل دیں اور اس نظام کو صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے ملک بھر میں نافذ کیا جائے، لیکن اس مشق کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔
یہ طے ہے کہ آج کی جدید دنیا میں اختیارات کی عدم مرکزیت اور اختیارات کی نچلی ترین سطح تک منتقلی سے مفر ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا جو سیاسی قوتیں مختلف حیلوں بہانوں سے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہیں، وہ عوام کی خدمت کرنے کے بجائے ان کے مسائل کو الجھانے کا سبب بن رہی ہیں۔ یاد رہے کہ جس طرح جدید ٹیکنالوجی کا راستہ روکنا ممکن نہیں ہوتا، اسی طرح نئے انتظامی ڈھانچے کے آگے بند باندھنے سے سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوتا، کیونکہ نئے نظام بہرحال اپنی جگہ بناتے ہیں اور فرسودہ سوچ کتنی ہی با اثر کیوں نہ ہو، ناکامی سے دوچار ہوتی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ نئے نظام کی مخالفت کے بجائے اسے بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔