ا نتہا پسندی اور ہم جمہوریت پسند
پاکستان میں دہشت گردوں کے اہداف کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
ISLAMABAD/QUETTA:
پاکستان میں دہشت گردوں کے اہداف کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ہمارے پالیسی ساز ان سے پوری طرح باخبر بھی ہیں۔ دہشت گرد بہت سی جہتوں کو سامنے رکھ کر اپنا کام کر رہے ہیں۔ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کا نیٹ ورک مختلف ناموں سے متحرک ہے اور ہر گروہ اپنے اپنے ٹارگٹ کو ہٹ کرتا ہے۔
وہ سیکیورٹی اداروں کی عمارتوں'اس کے افسروں اور جوانوں کو بھی ٹارگٹ کرتے ہیں' ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لیے مساجد' امام بار گاہوں اور درگاہوں کو نشانہ بناتے ہیں' مذہبی شخصیات کو بھی ہٹ کرتے ہیں۔
تجارتی مراکز میں بھی دھماکے کرتے ہیں اور ملک میں بسنے والی کمزور اقلیتوں خصوصاً مسیحیوں اور ان کی عبادت گاہوں میں بھی خود کش حملے کرتے ہیں۔ لاہور کی مسیحی بستی یوحنا آباد میں اسی ٹارگٹ کو حاصل کیا گیا ہے۔ اس سانحے نے پاکستان کا عالمی سطح پر امیج مزید خراب کیاہے اور اس سے حکومت کے مسائل مزید بڑھیں گے۔
اس سانحے کے بعد دو روز تک ملک بھر میں مسیحیوں نے مظاہرے کیے اور لاہور میں حالات اس قدر سنگین ہوئے کہ بپھرے ہوئے ہجوم نے دو افراد کو زندہ جلا دیا اور ایک کار سوار نے دو افراد کی جان لے لی' یوں چار افراد اس سانحہ سے پیدا شدہ اشتعال کی نذر ہو گئے اور دہشت گردوں نے جو واردات کی' وہ پس منظر میں چلی گئی ہے۔ اب معاملات بظاہر حکومت کے کنٹرول میں آ گئے ہیں لیکن دلوں میں جو نفرت پیدا ہوئی ہے' وہ بہت گہری ہو گئی ہے۔
پاکستان میں سیاسی قیادت ہو یا ادارہ جاتی قیادت کسی نے بھی ملک کو درست راستے پر چلانے کی کوشش نہیں کی۔ ملک میں انتہا پسندی کو فروغ دینے اور اسے مضبوط کرنے کے لیے ہر گروہ نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔اس میں دائیں یا بائیں بازو کی کوئی تفریق نہیں۔ سیاست میں دائیں اور بائیں بازو کو محض نعرے کے طور پر استعمال کیا گیا۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد متروکہ املاک کی الاٹمنٹ سے جس لوٹ مار کا آغاز ہوا' اس نے ایسی اشرافیہ کو پروان چڑھایا جس کا خمیر بے ایمانی اور بے ضمیری سے اٹھا تھا' اس اشرافیہ نے سیاست کو بھی گندا کیا اور سرکاری مشینری کو بھی کرپٹ کر دیا اور اپنے اقتدار کو سہارا دینے کے لیے مذہب کو بطور نعرہ استعمال کیا' یوں کرپشن کا زہر مذہب کے نام لیواؤں میں بھی سرایت کر گیا۔
مختلف ادوار میں ملک کے اقتدار پر قابض ہونے والی سیاسی یا فوجی قیادت کی ان عاقبت نااندیش پالیسیوں کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک کی اشرافیہ' سیاسی و مذہبی قیادت اور ادارے ابھی تک مسائل کی جڑ نہیں کاٹنا چاہتے حالانکہ انھیں اچھی طرح پتہ ہے کہ خرابی کہاں ہے لیکن وہ اسے ختم اس لیے نہیں کرتے کہ وہ خود بھی اس کی لپیٹ میں آتے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ شاید حالات ایسے ہی چلتے رہیں گے اور ان کا اقتدار قائم رہے گا لیکن ماضی اور حال کا تجزیہ کیا جائے تو پھر مستقبل زیادہ روشن نظر نہیں آتا۔ خرابی اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے' تشویش ناک بات یہ ہے کہ اگر اسے ہم خود نہ دور کر سکے تو پھر کوئی دوسرا دور کرنے آ جائے گا۔ عراق' لیبیا اور شام کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
آمریت نے جو گل کھلائے 'اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سرد جنگ کے دور میں ہم نے جو کردار ادا کیا 'اس کے مابعد اثرات اب ظاہر ہو رہے ہیں۔ اگر ہماری قیادت ذہین ہوتی تو اس وقت ہی یہ حکمت عملی تیار ہو جانی چاہیے تھی کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد افغانستان میں لڑنے والوں کا کیا کرنا ہے۔ ہم نے انھیں غیر مسلح کرنے اور غیر ملکیوں کو نکالنے کے بجائے ان کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ آمریت کی اس حکمت عملی نے سب کچھ داؤ پر لگا دیا لیکن جمہوریت کے نام پر سیاست کرنے والوں نے بھی قوم کے ساتھ ہاتھ کرنے میں ذرا بھی کوتاہی نہیں کی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جمہوریت کا دعویٰ کرنے والوں نے جب بھی اقتدار سنبھالا آئین میں ایسی ترامیم کیں' جن کا فائدہ انتہا پسندوں کو پہنچا۔ پاکستان میں بسنے والی اقلیتیں جن میں مسیحی سب سے زیادہ ہیں' یہ پاکستان کی کمزور ترین کمیونٹی ہے' جس کا صنعت و کاروبار میں حصہ صفر ہے۔ پاکستان کی کاروباری اشرافیہ میں ایک بھی مسیحی نہیں ہے۔ کوئی مسیحی جاگیردار یا بڑا زمیندار نہیں ہے۔ افسر شاہی میں بھی وہ صفر کے ہندسے پر ہیں' آپ سول سروس پر نظر ڈال لیں' پورے ملک میں ایک دو ناموں کے سوا کوئی مسیحی افسر نہیں ہے۔جہاں تک میرا علم ہے' فوج میں بھی کوئی مسیحی بریگیڈئیر یا جنرل کے رینک میں نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں مسیحی رہنما شہباز بھٹی کی جدوجہد کے نتیجے میں اقلیتوں کے لیے سرکاری ملازمتوں میں پانچ فیصد کوٹہ منظور کر دیا گیا تھا' یوں بیورو کریسی میں اقلیتوں کی آمد کی بنیاد رکھ دی گئی' یہ کوٹہ 2010 میں وفاق نے منظور کیا لیکن پنجاب میں اس نوٹیفکیشن کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہو رہا تھا لیکن صوبائی وزیر انسانی حقوق خلیل طاہر سندھو کی مسلسل کوششوں کے نتیجے بلآخر اس پر مکمل عمل درآمد شروع ہو گیا ہے' اب مسیحیوں کے پڑھے لکھے بچے اچھی سروس میںآنا شروع ہو گئے ہیں۔ ہونا تو چاہیے کہ حکومتیں اس کمزور کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتیں لیکن اس کے بجائے آج حالات یہ ہیں کہ ان کی عبادت گاہوں پر حملے ہو رہے ہیں' لاہور میں جو پر تشدد مظاہرے ہوئے' یہ اسی احساس محرومی کا اظہار ہے۔ ہماری قومی اسمبلی ہو یا سینیٹ' یہاں موجود منتخب نمایندوں نے بھی انتہا پسندی کو روکنے کے لیے کبھی مناسب قانون سازی نہیں کی۔ ہمارے قانون ساز اداروں کے ارکان نے اس حوالے سے اپنا کردار بالکل بھی ادا نہیں کیا۔