’’ایک تھی پی آئی اے‘‘

ایک ایسا ادارہ جوپچھلے 9 سالوں سے اربوں روپے کے سالانہ گھاٹے میں جارہا ہو،اس کے لئے اس قسم کے اقدامات صرف عیاشی ہیں۔


سالار سلیمان March 19, 2015
ایک ایسا ادارہ جوپچھلے 9 سالوں سے اربوں روپے کے سالانہ گھاٹے میں جارہا ہو،اس کے لئے اس قسم کے اقدامات صرف عیاشی ہیں۔

ایک وقت وہ بھی تھا جب پی آئی اے کا شمار صرف پاکستان ہی کی نہیں بلکہ دنیا کی بہترین ائیر لائنز میں ہوتا تھا۔ اِس اعزاز کی وجہ کچھ اور نہیں صرف ''محنت اورلگن'' ہی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب بیرون ممالک سے ماہرین کے وفود پاکستان آکر اس ائیرلائن کے سسٹم کو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ 1946ء میں سروسز کا نام اورئینٹ سروسز تھا جو کہ 1956ء میں تبدیل کرکے پاکستان انٹر نیشنل ائیرلائنز رکھا گیا۔

میں جس زمانے کا حوالہ میں دے رہا ہوں یہ وہ وقت تھا جب نیویارک میں امریکی ماہرین سر جوڑ کر پاکستان کی پالیسیوں کا عمیق جائزہ لیتے تھے۔ اس وقت بین الاقوامی اخبارات میں ریسرچ شائع ہوتی تھی کہ اگلے 30 برسوں میں دنیا کا سب سے ترقی یافتہ شہر کراچی ہوگا یا نیو یارک؟ اُس وقت ملائیشیا اور چین کے وفود پاکستان میں کورسز کرنے کے لئے آتے تھے اور پھر فخر کے ساتھ اپنے ممالک میں واپس جاکر یہاں سے سیکھی گئی چیزوں کو رائج کرتے تھے۔ تب خلیجی ممالک کے ماہرین پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کے سسٹم کو ماڈل سمجھتے یوئے اُس کو کاپی کرتے تھے۔

میں اُس زمانے کی بات کررہا ہوں جب ہم اپنی ذات سے مخلص تھے اور ہم پاکستان کو اپنا ملک سمجھ کر ترقی کرتا دیکھنا چاہتے تھے، جب سیاستدانوں میں احساس باقی تھا اور وہ قدرے کم کرپٹ تھے۔ اس کے بعد وقت نے پلٹا کھایا اور آج پی آئی اے کی حالت قابل رحم حد تک گرچکی ہے ۔

2004ء میں پی آئی اے نے 57,788 ملین روپے کا ریونیو اکٹھا کیا تھا جس سے اس قومی ادارے کو 2307 ملین روپے کا خطیر منافع ہو ا تھا۔ تب اس ادارے میں 19,634 ملازمین تھے۔ دس سال کے بعد پی آئی اے کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ 75,930 ملین کا ریونیو اکٹھا کرنے بعد بھی اس ادارے کو 10,130 ملین روپے کا نقصان ہوا ہے۔ جس ائیر لائن پر سفر کرنے کو لوگ ''اعزاز'' سمجھتے تھے، آج وہ بہت سے لوگوں کی آخری ترجیح میں شامل ہے۔

ایک وقت تھا کہ اس کی سیفٹی کا معیار، بروقت آمد و روانگی، ٹریننگ، پرفارمنس اور دیکھ بھال کا سسٹم بے مثال تھا، لیکن آج اس ائیرلائن کی پتلی حالت دیکھ کر کوئی بھی اس میں سفر کرنے کو فوقیت نہیں دیتا ہے۔

گزشتہ سال یورپ نے پی آئی اے کی کارگو فلائٹس پر پابندی لگادی تھی۔ پی آئی اے کا عملہ بیرون ممالک غیر اخلاقی حرکتوں میں بھی ملوث پایا گیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ آئے روز پی آئی اے میں کرپشن اور بدعنوانیوں کی کہانیاں زبان زد عام ہوتی ہیں۔ اخبارات میں زینت بننے والی ان کہانیوں کے خلاف محکمہ کیا کارروائی کرتا ہے یہ کوئی نہیں جانتا ہے۔ حکومت اس قومی ائیرلائن کو سدھارنے میں اس حد تک سنجیدہ ہے کہ اس نے دودھ کی حفاظت کیلئے بلے کو ملازم رکھ لیا تھا اور اب بھی اس کے اہم عہدوں پر وہ لوگ کام کررہے ہیں جن کو کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے، اب تو یہ حالت ہے کہ ائیر بلو کے سی ای ا و شاہد خاقان عباسی پی آئی اے کی نجکاری کے منتظر ہیں۔

ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ ایک طرف تو پی آئی اے کی حالت انتہائی سے بھی دو قدم آگے کی حد تک خراب ہے اور دوسری طرف پی آئی اے نے اپنے یونیفارم کے لئے پاکستان کےمشہور و معروف فیشن ڈیزائنرز کی خدمات حاصل کرلی ہے۔ یہ وہی ادارہ جس کو گزشتہ سال 10,130 ملین روپے یعنی دس ارب تیرہ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ لیکن اِس نقصان کے باوجود وہ اس سال کروڑوں روپے کے فیشن ایبل ملبوسات تیار کرائے گا۔ حال ہی میں ادارے کی جانب سے فیشن شو کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں ماڈلز نے نئے ملبوسات کی نمائش کی جو رواں سال موسم گرما میں عملے کو فراہم کئے جائیں گے۔ تقریب کا اہتمام ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں کیا گیا تھا۔



https://twitter.com/FarhanDanish/status/578258936991617024



ایک ایسا ادارہ جو پچھلے 9 سالوں سے اربوں روپے کے سالانہ گھاٹے میں جارہا ہو، اس کے لئے اس قسم کے اقدامات صرف عیاشی ہیں، جو کہ عوامی غم و غصے کا باعث ہے اور اُن تمام لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں جنہوں نے حال ہی میں پی آئی اے پر سفر کیا ہے۔ اس اقدام سے شاید پی آئی اے کے عملے کا یونیفارم تو بہتر ہوجائے، لیکن کیا اس کے جہاز جدید ہو جائیں گے؟ کیا اس سے پروازوں کے اوقات کار ٹھیک ہوجائیں گے؟ کیا اس قدم سے عملے کارویہ درست ہوجائے گا؟ کیا اس کے فلائٹ میں واش روم کی حالت سدھر جائے گی؟ کیا اس سے دوران پرواز کھانے اور پانی کا معیار بہترین ہوجائے گا؟ اور تو اور کیا کرپشن اور غیر قانونی بھرتیوں سے جان چھوٹ جائے گی؟ کیا اس سے واقعی پی آئی اے ترقی کے منازل طے کرلےگا؟

https://twitter.com/SharzamaR/status/578284665338888192



اگر ان سوالوں کا جواب نہیں ہے، تو کیا کوئی پی آئی اے کا ذمہ دار ادارے کی اس حرکت کی مدلل وضاحت کرسکتا ہے؟ کیا کوئی یہ بتاسکتا ہے کہ اس فیشن شو سے ادارے کا بزنس کیسے ٹھیک ہوگا اور یہ ادارہ کیسے ترقی کر ے گا؟ اور اگر نہیں ہے تو فوری طور پر روش کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ورنہ عزم رفتہ کی داستانیں تو بہت ہیں اور ان میں ایک اور کا اضافہ ہوجائے گا اورپھر ہم اپنی آنے والی نسل کو بتائیں گے ''ایک تھی پی آئی اے''

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔