میک اور بھیڑیا

سبھی بڑے آرام اور مزے سے چلے جارہے تھے اور موسم کے مزے بھی لے رہے تھے


Mirza Zafar Baig March 22, 2015
میک بھیڑیے کی خوراک بننے والا تھا کہ مدد آن پہنچی، ایک سچی کہانی۔ فوٹو: فائل

وہ جولائی کی ایک چمک دار اور گرم سہ پہر تھی۔ میک ہالن نامی ایک 36سالہ ایلیمینٹری اسکول ٹیچر کینیڈا کے علاقے یوکون کے روٹ نمبر 1پر سائیکل کے ذریعے سفر کررہا تھا۔

اس وقت وہ مڈوے میں تھا اور 2,750میل کے سائیکل ٹور میں حصہ لے رہا تھا۔ وہ سینڈ پوائنٹ ایڈاہیو کا رہنے والا تھا اور اس کی منزل الاسکا کی خلیج Prudhoe تھی۔ گیب اور جارڈن بھی اس کے ساتھ تھے۔ ان دونوں کی عمریں 36سال تھیں۔ راستے میں گیب اور جارڈن کی سائیکل میں ایک چھوٹی سی خرابی پیدا ہوئی تو وہ دونوں اسے ٹھیک کرنے کے لیے رک گئے۔ پہلے تو میک بھی ان کے ساتھ رکنے لگا، تاکہ وہ تینوں ساتھ ہی یہ سفر طے کریں، مگر بعد میں گیب اور جارڈن دونوں نے اس سے کہا:''تم اپنا سفر جاری رکھو۔ یہ چھوٹی سی خرابی ہے جسے ہم کچھ ہی دیر میں ٹھیک کرکے جلد ہی تم سے آن ملیں گے۔''

وہ لوگ کیمپنگ کا اچھا خاصا سامان بھی اپنے ساتھ لے جارہے تھے جن میں اس موقع پر کام آنے والی متعدد چیزوں کے علاوہ مخصوص ملبوسات اور فاضل خوراک بھی شامل تھی۔ چوں کہ انہیں کوئی جلدی نہیں تھی، اس لیے کوئی بھی تیزی نہیں دکھا رہا تھا۔ سبھی بڑے آرام اور مزے سے چلے جارہے تھے اور موسم کے مزے بھی لے رہے تھے۔

..گیب اور جارڈن کو چھوڑنے کے بعد میک تن تنہا اپنی سائیکل پر سوار خراماں خراماں پیڈل مار رہا تھا اور اس سفر کے ہر لمحے سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ ایسے میں اسے اپنی خوب رو بیوی کا خیال آیا تو اس کے ہونٹوں پر ایک دل فریب مسکراہٹ رینگنے لگی۔ پھر اسے اپنی دونوں بیٹیاں یاد آگئیں۔ اس کی بیوی اور دونوں بیٹیاں گھر پر اس کی منتظر تھیں۔ میک اس منظر کو دیکھ کر سوچنے لگا کہ واقعی یہ بہت خوب صورت جگہ ہے۔ ایک نہ ایک دن میں اپنی بیوی اور بیٹیوں کو یہ خوب صورت جگہ دکھانے یہاں ضرور لاؤں گا۔

اچانک میک کی پشت میں چیونٹیاں جیسی رینگنے لگیں۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کوئی آپ کے پیچھے ہو اور آپ پر نظریں گاڑے چلا آرہا ہو۔ میک کو بھی شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ اس کے پیچھے کوئی ہے اور بہت تیزی سے سانس بھی لے رہا ہے۔ وہ سوچنے لگا کہ اس طرح سانس کوئی انسان تو نہیں لے سکتا، البتہ کوئی بڑا کتا ہی اس طرح سانس لے سکتا ہے۔ لیکن جیسے ہی اس نے اپنے پہلو میں دیکھا تو خوف سے اچھل پڑا۔ اس کے منہ سے ایک دم نکلا:''ارے اتنا بڑا کتا!''

لیکن پھر نے غور کیا تو اسے پتا چلا کہ اس کے پیچھے پیچھے چپکے سے آنے والا جانور کوئی کتا نہیں، بلکہ درحقیقت ایک خوں خوار بھیڑیا تھا جو بہت تیزی سے اس کے نزدیک آرہا تھا۔ اس کے تیز نکیلے دانت بڑے خوف ناک انداز سے کھلے ہوئے تھے۔

میک کا دل خوف سے دھڑکنے لگا۔ اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اس کا دل اس کی پسلیاں توڑ کر باہر نکل آئے گا۔ جب اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا تو اس نے اپنی کمر پر لدے ہوئے سامان میں سے بیئر کا ڈبا نکالا اور بھیڑیے کی طرف رخ کرکے اسپرے کردیا۔

ایک چمک دار سرخ رنگ کا بادل فضا میں نمودار ہوا جس نے بھیڑیے کو اپنے گھیرے میں لیا اور یہ دیکھ کر میک نے سکھ کا سانس لیا کہ وہ بھیڑیا پیچھے کی طرف گرگیا ہے۔ مگر اس حالت میں وہ بری طرح غرا بھی رہا تھا اور اپنے سر کو ادھر ادھر گھما بھی رہا تھا، لیکن صرف ایک منٹ بعد ہی وہ دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا ہوگیا اور ایک بار پھر میک کے پیچھے پیچھے چل دیا۔

مگر اب وہ بہت غصے میں تھا۔ میک نے اس پر بیئر کا اسپرے کرکے اسے خود ہی چھیڑا تھا، اس لیے اب بھیڑیا بھی انتقام لینے کے موڈ میں تھا۔ اگلے ہی لمحے وہ بہت تیزی سے میک کی سائیکل پر جھپٹا، اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ میک کی سائیکل پر لدے ہوئے اس کے ٹینٹ بیگ کو پھاڑ دے۔ اس کے منہ سے جھاگ نکل رہے تھے اور منہ سے وحشت بھری آوازیں۔

کچھ دیر تک تو میک حواس باختہ کھڑا رہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ پھر اس نے گویا تنویمی انداز میں دوسری بار بھیڑیے پر بیئر کا اسپرے کیا۔ شاید یہ وار کارگر ہوا تھا، کیوں کہ بھیڑیا بہت تیزی سے جھومتا ہوا پیچھے کی جانب گرا تھا، مگر یہ دیکھ کر میک کی آنکھیں پھٹ گئیں کہ اس نے کسی بد روح کی طرح بہت تیزی سے خود کو سنبھالا اور میک کا تعاقب کرنے لگا۔ لیکن اس کے گرنے کی وجہ سے ان کے درمیان فاصلہ زیادہ ہوگیا تھا۔ میک بری طرح گھبرا گیا اور وہ بہت تیزی سے اپنی سائیکل کے پیڈلز پر پاؤں مارنے لگا۔ وہ چاہ رہا تھا کہ اس منحوس بھیڑیے سے بہت دور چلا جائے۔

اتنے میں اس کے قریب سے کچھ کاریں گزریں جن میں ایڈونچر پسند لوگ بھی سوار تھے۔ میک نے ان کی طرف دیکھ کر زور زور سے ہاتھ ہلایا اور چیخ کر ان سے مدد مانگی، لیکن کسی نے بھی اس پر توجہ نہ کی، کیوں کہ اس دوران میک نے اپنی سائیکل کی رفتار کم نہیں کی تھی۔ وہ یہ خطرہ مول بھی نہیں لے سکتا تھا، کیوں کہ سائیکل کی رفتار کم کرنے سے منحوس بھیڑیا اس تک جلد پہنچ سکتا تھا۔ مگر نہ کسی کار سوار نے رکنے کی زحمت کی اور نہ کسی نے اس کی مدد کی۔

تھوڑی دور آگے جانے کے بعد میک نے ایک موڑ پر جب اپنی سائیکل گھمائی تو اسے اپنے بالکل سامنے عمودی چڑھائی نظر آئی۔ ویسے بھی یہ پہاڑی راستہ دیکھنے میں بڑا خطرناک لگ رہا تھا۔ میک سوچ رہا تھا کہ وہ اس چڑھائی پر اپنی سائیکل سمیت سفر نہیں کرسکے گا، کیوں کہ اب وہ بری طرح ہانپنے لگا تھا۔ اس کی ٹانگیں بری طرح دکھنے لگی تھیں۔ اگر اس کی سائیکل کی رفتار سست ہوجاتی تو اس صورت میں بھیڑیا جلد ہی اس تک پہنچ سکتا تھا۔ پھر میک نے تصور میں بھیڑیے کو دیکھا کہ وہ اپنے تیز اور نکیلے دانت اس کے جسم میں گاڑے ہوئے ہے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب بھیڑیا میک کے بالکل قریب پہنچ گیا اور اس پر حملہ کرنے والا تھا کہ میک نے اپنے ہاتھ سے اسے دور دھکیلنے کی کوشش کی اور بھیڑیے نے اس کا بازو اپنے منہ میں دبوچنے کی ناکام کوشش کی جس کے ساتھ ہی میک کے حلق سے ایک دلدوز چیخ نکل گئی۔ وہ خود کو بالکل بے بس محسوس کررہا تھا۔ موت اس کے سامنے کھڑی تھی۔

دوسری جانب پال اور بیکی اپنی بڑی شکاری گاڑی میں روٹ نمبر 1پر سفر کررہے تھے۔ وہ دونوں پینوک، مینیسوٹا سے الاسکا جارہے تھے۔ راستے میں انہوں سڑک کے پہلو میں ایک سائیکل سوار کو رکے ہوئے دیکھا تو اس کے بارے میں کچھ نہ سوچا، بلکہ اسے نظر انداز کرکے آگے بڑھ گئے۔ مگر پھر اگلے ہی لمحے انہوں نے غور سے دیکھا تو ان کی آنکھیں خوف سے پھٹ گئیں۔ وہ ایک بڑا اور خوف ناک سا کتا تھا جو پوری قوت کے ساتھ اس سائیکل سوار پر جھپٹ رہا تھا۔ اس کے تیز نکیلے دانت باہر نکلے ہوئے تھے اور منہ سے جھاگ بھی اڑ رہا تھا۔ قریب جانے پر انہیں معلوم ہوا کہ سائیکل سوار پر جھپٹنے والا جانور کتا نہیں، بلکہ بھیڑیا تھا۔

میک کو اپنے بالکل پیچھے ایک بڑی گاڑی کے تیزی سے رکنے کی اور بھاری پہیوں کی چرچراہٹ سی سنائی دی تو اس نے گھبراکر اپنی سائیکل روک دی۔ اس وقت تک بھیڑیا اس کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا اور اس سے بہ مشکل دس بارہ گز کے فاصلے پر رہ گیا تھا۔ پال اور بیکی دونوں نے اس خوف ناک منظر کا جائزہ لیا اور پھر اچانک اس سائیکل سوار کے سامنے رک گئے۔ میک نے اپنی سائیکل چھوڑ دی اور تیزی سے سامنے رکی ہوئی پال اور بیکی کی شکاری گاڑی کے عقبی دروازے کی طرف دوڑا، مگر بدقسمتی سے وہ دروازہ لاک تھا۔ وہ دوسرے دروازے کی طرف لپکا، مگر وہ بھی لاک تھا، اتنے میں اس کی نظر شکاری گاڑی کی کھلی ہوئی کھڑکی پر پڑی تو وہ اس کھڑکی کے راستے گاڑی میں گھسنے کی کوشش کرنے لگا۔ شکاری گاڑی میں بیٹھے پال نے تیزی سے دروازہ کھول دیا اور خوف زدہ میک غوطہ مار کر اندر گھس گیا جس کے ساتھ ہی اس نے تیزی سے دروازہ بند کرلیا۔ اب میک محفوظ تھا اور وہ منحوس بھیڑیا باہر رہ گیا تھا۔ بھیڑیے کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ میک کو شکاری گاڑی سے باہر نکال کر اس کے جسم میں اپنے نکیلے دانت گاڑ دے، مگر اب میک اس کی دست رس سے دور تھا۔

بیکی نے مڑ کر عقبی کھڑکی کی طرف دیکھا۔ اس کی نظریں خوں خوار بھیڑیے پر جمی ہوئی تھیں جو میک کی سائیکل پر ایسے اکڑا کھڑا تھا جیسے یہ اس کی جیت کا انعام ہو جسے اس نے شکار کیا ہے۔ بیکی، پال اور میک کچھ دیر خاموشی سے بھیڑیے کے اگلے قدم کے منتظر رہے، مگر جب اس نے کچھ نہ کیا تو وہ کسی حد تک مطمئن ہوگئے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بھیڑیا کیا کرے گا، مگر چند لمحوں بعد ہی وہ اس مقام سے دور چلا گیا۔

ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ گیب اور جارڈن بھی اوپر چڑھائی پر پہنچ گئے۔ ان دونوں کو دیکھ کر میک کی جان میں جان آئی اور وہ شکاری گاڑی سے باہر نکلا۔ گیب نے اسے دیکھتے ہی اپنے گلے لگالیا۔

میک نے اس سے کہا:''بڑا ڈراؤنا خواب تھا، مجھے اپنی موت کا یقین ہوچکا تھا۔ نہ جانے میں کیسے زندہ بچ گیا؟''

گیب اور جارڈن نے میک کو تسلی دی اور اس کا حوصلہ بڑھایا۔

جب میک نے محسوس کیا کہ وہ اس شاک (صدمے) سے باہر نکل آیا ہے جس میں وہ تھوڑی دیر پہلے پھنسا ہوا تھا تو اس نے سڑک پر گری ہوئی اپنی سائیکل اٹھائی۔ پھر میک نے اسے ٹھوک بجاکر دیکھا اور اندازہ لگایا کہ اس کی سائیکل کا زیادہ کچھ نہیں بگڑا تھا۔ اچھی طرح اطمینان کرنے کے بعد ان تینوں نے اپنا سفر دوبارہ شروع کیا۔ مگر اس بار انہوں نے یہ طے کرلیا تھا کہ اپنے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں رکھیں گے اور ایک دوسرے کی نظر سے اوجھل نہیں ہوں گے، تاکہ کسی بھی خطرے کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کرسکیں۔ جلد ہی یہ سفر مکمل ہوگیا۔ سڑک سے چند میل دور جب وہ تینوں ڈھلان پر پہنچے تو میک نے اپنی سائیکل روکی اور فاتحانہ انداز میں زور دار نعرہ لگایا۔ اس کے دونوں ساتھیوں پال اور بیکی نے بھی اس کا ساتھ دیا۔

(ریڈر ڈائجسٹ سے ماخوذ)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں