پانی کی قلت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن سکتا ہے ماہرین

پاکستان میں دستیاب صاف پانی کا90 فیصد زراعت اور صرف10فیصد پینے کے لیے استعمال میں آتا ہے


دنیاکے عظیم نظام آبپاشی کے باوجود پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو مستقبل قریب میں پانی کی قلت کا شکار ہوسکتا ہے، ماحولیاتی ماہرین۔ فوٹو : آن لائن

دنیا بھر کی طرح آج پاکستان میں بھی پانی کا دن منایا جارہا ہے جس کا مقصد شہریوں کوانسانی زندگی کے لیے پانی کی اہمیت اور اس کے محفوظ استعمال سے آگاہ کرنا ہے، اقوام متحدہ کے تمام رکن ملک 22 مارچ کو یوم آب مناتے ہیں ، پہلا عالمی یوم آب 1993میں منایا گیا تھا، عالمی یوم آب 2015 میں ''پانی اور مستحکم ترقی'' کے عنوان سے منایا جارہا ہے ۔

اس سلسلے میں ادارہ تحفظ ماحولیات کے علاوہ کئی غیر سرکاری تنظیمیں اور ادارے مختلف تقریبات کا اہتمام کررہی ہیں، الخدمت کراچی کے تحت بچوں کی واک کا اہتمام کیا جائے گا ، واک اسلامیہ کالج سے مزار قائد تک منعقد ہوگی ، واک میں صاف پانی کی اہمیت سے شرکا کو آگاہی فراہم کی جائے گی، اتوار کو سرکاری تعطیل کے باعث ادارہ تحفط ماحولیات سندھ اور این ای ڈی یونیورسٹی میں منگل 24ستمبر کو مشترکہ پروگرام ہوگا نیشنل انوائرمنٹ فورم اور گرین انیشیٹو کے تحت بھی آگہی پروگرام ترتیب دیے گئے ہیں۔

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق دنیاکے عظیم نظام آبپاشی کے باوجود پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو مستقبل قریب میں پانی کی قلت کا شکار ہوسکتا ہے اور پانی کی قلت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن سکتا ہے، پاکستان میں دستیاب صاف پانی کا90 فیصد زراعت اور صرف10فیصد پینے کے لیے استعمال میں آتا ہے دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ جو پانی فراہم کیا جارہا ہے وہ غیر معیاری ہے۔

ادارہ فراہمی و نکاسی آب کراچی کے سابق ایم ڈی مصباح الدین فرید کے مطابق کوٹری اور جامشورو کی صنعتوں سے نکلنے والا مضرصحت فضلہ کوٹری بیراج کے مقام پر چھوڑا جارہا ہے جہاں سے کراچی کے شہریوں کیلیے پینے کا پانی فراہم کیا جاتاہے، یہ آلودہ پانی مضرصحت مواد لیے کینجھر جھیل میں شامل ہورہا ہے۔

صنعتی فضلہ پانی کو آلودہ کردیتا ہے جو کہ انسانی صحت کیلیے مضر ہے کراچی کو پینے کے لیے فراہم کیے جانے والے پانی میں ٹی ڈی ایس کی سطح 650 ایم جی/ایل تک پہنچ چکی ہے جو کہ خطر ناک حد ہے ، بلدیہ عظمیٰ کراچی اور ادارہ فراہمی و نکاسی آب کراچی کے کے پاس پانی کا معیار جانچنے کیلیے آلات موجود نہیں ہیں،کراچی کے شہریوں کے کلورین کے بغیر پینے کا پانی فراہم کیا جارہا ہے جس سے وبائی امراض پھوٹنے کا خدشہ ہے،واٹر بورڈ کی 14بڑی لائنوں میں96 بڑے رساؤ سے روزانہ 10 کروڑ گیلن پانی ضائع ہورہا ہے۔

سندھ حکومت نے پانی کے مسئلے سے نبرد آزما ہونے کے لیے مختلف اقدامات کیے اور آر او پلانٹس کی مدد سے جزیروں اور دور دراز علاقوں تک میٹھا اور صاف پانی پہنچانے کے عمل کو جاری رکھا ،سابق صدر آصف علی زرداری ، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری کی خصوصی ہدایت پر بابا بھٹ ، مشرف کالونی ، کیماڑی ، ماڑی پور ، لیاری ، ابراہیم حیدری ، تھرپارکر ، مٹھی ، بدین ، عمر کوٹ سمیت مختلف علاقوں میں آر او پلانٹس نصب کیے گئے ہیں جبکہ تھرپارکر میں ایشیائأ کا سب سے بڑا سولر آر او پلانٹ بھی لگایا گیا تاکہ غریب افراد کو صاف اور میٹھا پانی فراہم کرکے انہیں مختلف بیماریوں سے بھی بچایا جاسکے، ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ تین سالوں سے مذکورہ علاقوں میں آر او پلانٹس کامیابی کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور لاکھوں افراد کی صحت کو محفوظ بنایا گیا ہے ۔

سندھ حکومت نے آر او پلانٹس کی کامیابی کے بعد مزید 750 آر او پلانٹس سولر انرجی کی مدد سے لگانے کی منظوری دی ہے تاکہ بجلی کی بچت کے ساتھ ساتھ ہر دور دراز کے علاقوں میں پانی کی دستیابی کو یقینی بنایا جاسکے ، یاد رہے کہ سولر کی مدد سے چلنے والے آر او پلانٹس کا پانی پینے کے علاوہ زراعت کے لیے بھی قابل استعمال ہے اس سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔

پاکستان میں60 فیصد سے زیادہ بیماریوں کا تعلق پانی سے ہے، پانی کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کو عمومی طور پر 2 حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جن میں سے ایک قسم پینے کے غیر محفوظ پانی کے استعمال سے ہوتی ہیں جنھیں واٹر بورن (Water born) بیماریاں کہا جاتا ہے جبکہ دوسری بیماریاں پانی کے بیرونی استعمال سے ہوتی ہیں۔

جنھیں واٹر واش(water wash)بیماریاں کہا جاتا ہے ، پانی کی بیماریوں میں آنتوں کی سوزش ، ٹائیفائڈ، ایکولائی جراثیم ، ہیضہ، گیسٹرو ، اسہال ،امراض چشم اور نگلیریا شامل ہیں، آلودہ پانی کے استعمال سے ہیپٹاٹائٹس اے بھی جنم لیتا ہے، جبکہ جلدی امراض کی ایک بڑی وجہ غیر معیاری پانی کا استعمال ہے، ماہرین طب کا موقف ہے کہ پینے کے پانی کے معیار کو بہتر کرکے صحت کے بجٹ میں خاطرخواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔

پانی کی قلت پر قابو پانے کیلیے انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی ) کا کردار نمایاں ہو کر سامنے آرہا ہے، ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے واٹر اے ٹی ایم مشینیں جبکہ افریقہ میں اسمارٹ ہینڈ پمپس متعارف کرادیے گئے ہیں، سنگاپور نے واٹر وائر کے نظام کو اپنایا ہے، بھارت میں اسمارٹ واٹر مینجمنٹ کے تحت سرجوال این جی او نے پانی کی اے ٹی ایم مشینیں متعارف کرائی ہیں، اس ٹیکنالوجی کے ذریعے پانی کی ایک ایک بوند کا حساب رکھا جاتا ہے اور پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے دور دراز علاقوں میں بھی جدید نظام اور حساس سینسرز کے ذریعے لمحہ لمحہ نگرانی کی جاتی ہے۔

پانی کی فراہمی کے لیے جدید فلٹر سینٹر قائم کیے گئے ہیں جو ریورس آسموسس اور الٹر ا فلٹریشن کے ذریعے پانی فراہم کرتے ہیں، یہ فلٹریشن سینٹر جدید اور حساس سینسرز، کلاؤڈ بیسڈ ریموٹ مانیٹر نگ سسٹم سے لیس ہیں، جن کے ذریعے ریئل ٹائم پر پانی کے معیار اور مقدار کی نگرانی کی جاتی ہے تمام واٹر اے ٹی ایمز مرکزی نگرانی اورکنٹرول سسٹم سے منسلک ہیں، ان واٹر اے ٹی ایمز کی وجہ سے دور دراز بلکہ صحرائی علاقوں میں ارزاں پانی کی فراہمی یقینی بنائی جارہی ہے۔

اسی طرح افریقہ میں ہینڈ پمپس کی مدد سے زیر زمین پانی استعمال کیا جاتا تھا لیکن ان پمپس کی ٹوٹ پھوٹ ایک بڑا مسئلہ تھی ، آکسفورڈ یونیورسٹی نے ریسرچ فار ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کے طور پر افریقہ میں اسمارٹ ہینڈ پمپس کی تنصیب کا کامیاب تجربہ کیا اس کے تحت دیہاتوں میں ہینڈ پمپس کے ہینڈلز میں واٹر پوائنٹ ڈیٹا ٹرانسمیٹر نصب کردیے گئے۔

جو ہینڈ پمپس کی حرکت کے ساتھ پانی کی مقدار فی گھنٹہ کا ریکارڈ ، ایس ایم ایس کے ذریعے مرکزی سسٹم کو مہیا کرتے ہیں اسی طرح پسماندہ خطوں کے ساتھ ساتھ سنگا پور جیسے جدید ملک میں بھی نئی ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جارہا ہے ، سنگا پور میں پانی کی فراہمی کا پورا نظام واٹر وائر جدید آئی سی ٹی پرمشتمل ہے ، عالمی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والے ملک میں پانی کے کسی پائپ کے پھٹنے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا اس لیے پانی کی تقسیم کے نظام میں نصب کردہ وائرلیس سینسرز سے پانی کی تقسیم کے پانی کے معیار اور بہاؤ کا ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں