یوم پاکستان کے تقاضے

یوم پاکستان ہر سال بڑے جوش و خروش و ولولے کے ساتھ منایا جاتا ہے


Adnan Ashraf Advocate March 23, 2015
[email protected]

یوم پاکستان ہر سال بڑے جوش و خروش و ولولے کے ساتھ منایا جاتا ہے، نئی نئی امیدوں کے ساتھ، نئے عہد کے ساتھ، نئی جہتوں کی تلاش کی باتیں اور دعوے ہوتے ہیں، ماضی کی کوتاہیوں اور تلخ حقیقتوں کا ذکر، ان کے ازالے کی باتیں ہوتی ہیں۔ 68 سال کا عرصہ ملک و قوم کی ترقی و استحکام کے لیے ایک بڑا عرصہ ہے، اس دوران ہم سے آگے پیچھے آزاد ہونے والے ممالک ترقی کا سفر کرکے کہاں سے کہاں تک پہنچ گئے مگر بدقسمتی سے ہم اپنی سمت اور نصب العین کا تعین کرنے میں بھی ناکام رہے۔

اس عرصے میں بنتی بگڑتی حکومتیں، سیاسی و فوجی آمریتیں، نظریاتی و مذہبی اختلافات، الزام تراشیاں، بلیک میلنگ، مجبوریاں، مصلحتیں، منافقتیں، بے سمت اور غیر حقیقی پالیسیاں، ناقص منصوبہ بندیوں، قومی مفادات کے بجائے ذاتی و گروہی مفادات کی ترجیح اور قومی وقار اور تشخص کی جگہ بیرونی مفادات کی پاسداری اور تحفظ کے نتیجے میں قوم میں مایوسی، بددلی اور ناامیدی کے احساسات میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایمان، اتحاد، تنظیم کی جگہ بدنظمی و بیڈ گورننس نے لے لی ہے۔ ریاست کی اساس، فلسفہ، نظریہ، وقار اور تحفظ ثانوی حیثیت اختیار کرگیا۔

قوم احساس عدم تحفظ، ناانصافیوں، صوبائی، لسانی و مذہبی عصبیت اور پسماندگی کا شکار ہے۔ ملک و قوم کو اس بھنور سے نکالنے کے لیے جس عزم و حوصلہ، ارادے اور اخلاص کی ضرورت ہے اس کی حامل لیڈر شپ دور دور تک نظر نہیں آتی، البتہ بڑھکیں مارنے اور قومی دولت کی لوٹ مار کرنے والی لیڈرشپ کا جمگھٹا لگا ہوا ہے، جن کے دام میں آکر سادہ لوح عوام دھوکے پر دھوکا کھاتے رہتے ہیں۔

ملک کے وجود، اس کی اساس اور اس کے بانی کی ذات و نظریات کے خلاف پروپیگنڈے اور مناظروں کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ ملک کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ملک ویلفیئر اسٹیٹ کے بجائے نیشنل سیکیورٹی اسٹیٹ کی جانب گامزن ہے، عوام تعلیم، صحت و صفائی، انصاف اور زندگی کی دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، دوسری جانب حکمرانوں و سیاستدانوں کی پرتعیش زندگی ملکی و غیرملکی اثاثہ جات اور دولت کے ڈھیر ہیں۔

امیر و غریب کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے، نائن الیون کے بعد سے ایک تو دہشت گردی نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے دوسرا وہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی پریشان و نالاں نظر آتے ہیں، ان پر سے اعتبار اٹھتا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور ہائیکورٹ میں سزائے موت کے دو مفرور مجرموں نے جج کے سامنے گرفتاری دیتے ہوئے کہا کہ انھیں پولیس کے ہاتھوں اپنی ہلاکتوں کا خدشہ تھا اس لیے عدالت میں گرفتاری دی ہے کہ ان کا ماورائے عدالت قتل نہ کیا جاسکے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف اس قسم کی شکایات اور الزامات عام ہیں جب کہ بعض منظم جرائم پیشہ گروہ اور دہشت گرد قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اس قسم کے جھوٹے و بے بنیاد الزامات لگا کر انھیں بدنام کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان دونوں رویوں سے شہریوں میں پولیس کے خلاف بدگمانی کے جذبات پیدا ہو رہے ہیں، جو امن کے لیے کی جانے والی حکومتی کوششوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کو متاثر کر رہے ہیں۔ حکمران و سیاستدان سیاسی مصلحتوں، منافقتوں اور مفادات کی خاطر اصول و قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔

ان اداروں کے اہلکاروں کو تشدد کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور بعض مرتبہ تشدد سہنے پر بھی مجبور کیا جاتا ہے، ان کے خلاف ایف آئی آر اور مقدمات درج کراکے معطلی اور تبادلہ کے احکامات بھی جاری کردیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے اہلکار اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی قانون کے مطابق ادائیگی میں تذبذب اور ہچکچاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، ایسی دونوں صورتوں میں عوام، سیاستدانوں، این جی اوز اور میڈیا میں بحث و تمحیص اور تنقید کا نشانہ بھی یہی محکمے بنتے ہیں۔ لاہور کے حالیہ فسادات میں بھی تنقید کا نشانہ صرف پولیس اہلکار ہی بنائے گئے کہ ان کے ہوتے ہوئے یہ دہشت گردانہ کارروائی کیسے رونما ہوئی، اس کے ردعمل میں انسانی زندگیوں اور املاک کی تباہی کا جو سلسلہ شروع ہوا اسے پولیس نے کیوں نہیں روکا وغیرہ وغیرہ۔

سوال یہ ہے کہ جب پولیس بلوائیوں اور فسادیوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرتی ہے تو سیاسی دباؤ اور مصلحت کا شکار حکومت ان اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر اور مقدمات درج کراکے نوکریوں سے معطل کردیتی ہے اور ہنگامہ آرائی و فساد کرنے والوں پر سے مقدمات واپس لے کر آزاد کردیتی ہے۔ کبھی پولیس کو اتنا پابند کردیتی ہے کہ مظاہرین و فسادی لاٹھیوں اور کیل لگے ڈنڈے مار مار کے درجنوں پولیس والوں کے ہاتھ پیر توڑ ڈالتے ہیں۔ قومی املاک کو بلا روک ٹوک تباہ و برباد کر ڈالتے ہیں۔

اس کے نتیجے میں پولیس کا ڈی مورالائز ہونا فطری اور یقینی ہے ۔سیاسی مک مکا نے نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کو متاثر کیا ہے بلکہ عدالتوں کی محنتوں کو بھی رائیگاں کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے، اس کا حالیہ مظاہرہ سزائے موت کے مجرم شفقت حسین اور صولت مرزا کی پھانسی کی سزا موخری کی صورت میں سامنے آیا ہے، جن کی سزائیں ملٹری اینڈ غیر ٹرائل کے باوجود بڑے بھونڈے انداز میں موخر کردی گئیں، جن میں دباؤ اور سیاست کا عنصر واضح نظر آتا ہے۔

میڈیا، حکومت اور این جی اوز کو اس انسانی پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے، سزا کا مقصد کسی انسان کی زندگی لینا نہیں بلکہ اس میں عبرت اور اصلاح کا پہلو کار فرما ہوتا ہے، لیکن آج کل کی سزاؤں میں یہ پہلو تقریباً ختم ہوچکا ہے، لوگوں نے پھانسیوں کی سزاؤں پر سیاسی تبصروں اور ہنسی مذاق کا ذریعہ بنالیا ہے، حکومت، حکومتی اداروں اور ایجنسیوں کو اس بات کو یقینی بناناچاہیے کہ ان کی کارروائیاں غیر جانبدارانہ، شفاف اور کسی شک و شبہے سے بالاتر قانون کے دائرے میں ہوں تاکہ انھیں عوام کا اعتماد، حمایت اور تعاون حاصل ہو، ان کے درمیان خوف و بدگمانی کی خلیج کے بجائے احساس تحفظ، اعتماد اور تعاون کا رشتہ قائم رہے۔ انصاف کسی بھی ملک کی بقا و استحکام میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے، اس کے بغیر کوئی معاشرہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ ملک جب ہی آزاد ہوگا اور ترقی پائے گا جب اس کے عوام آزاد ہوںگے انھیں انصاف آزادی میسر ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں