ہٹلر کے دیس آسٹریا میں آخری حصہ
ٹرین 5 منٹ رک کر فرینکفرٹ چلی گئی۔ یہ شہر بھی قدیم ہے۔
اگلے روز آسٹریا کے آخری شہر جہاں آسٹریا اور جرمنی کا بارڈر ہے وہاں جانے کا پروگرام بنایا۔ انڈرگراؤنڈ ٹرین کے ذریعے جرمنی کے بارڈر پر (پاشااو) PASSAU کی طرف روانہ ہوئے۔ ٹرین وہی خوبصورت، ہمارے پاس پورے آسٹریا کا ٹرین ٹکٹ موجود تھا سو ہم ٹرین میں سوار ہوگئے، اس ٹرین میں آسٹرین کے علاوہ جرمنی کے لوگ بھی سوار تھے، ٹرین تیز رفتاری سے دوڑتی ہوئی چلی جا رہی تھی، اس ٹرین میں ڈائنگ کار بھی تھی جہاں برگر، چائے، کافی مختلف مشروبات بھی تھے، ایک ٹرالی نما میز پر خوبصورت خاتون ویٹر کی حیثیت سے سروس کر رہی تھی۔
ہمارے ہاتھ میں ڈائنگ کار مینو دیا۔ ٹرین فرینکفرٹ (Frank Furt) جا رہی تھی۔ راستے میں ایک شہر NURNBERG HBF (نورن برگ) آیا۔ اس شہر میں دوسری جنگ عظیم کے بعد گرفتار ہونے والے فوجی اہلکار جوکہ ہٹلر کی فوج میں شامل تھے ان پر اس شہر میں مقدمات چلتے تھے جن میں فوجی جرنیل سمیت دیگر قیدیوں کو کڑی سزائیں دی گئیں اور کئی ایک کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ یہ شہر بھی ایک تاریخی شہر ہے۔
اس شہر کے بعد ٹرین ایک اور اسٹیشن پر رکی جس کا نام Regensoburg (ریگن برگ) ہے۔ پھر دوسرے اسٹیشن Plattling (پلاٹ لنگ) پر 2 منٹ کے لیے رکی اور پھر ہماری منزل PASSAU آگیا۔ اسٹیشن پر اترے، بڑا خوبصورت اسٹیشن تھا، بڑے بڑے پلیٹ فارم، پھر انڈر گراؤنڈ کبھی نیچے اور کبھی اوپر سے ہوتے ہوئے اسٹیشن سے باہر آگئے۔ موسم کافی سرد تھا، ہم نے ڈبل ڈبل جیکٹ پہن رکھی تھی، سر پر گرم ٹوپی۔ شہر میں داخل ہوئے، بڑا خوبصورت یہ شہر اس لیے بھی مشہور ہے کہ یہاں تین دریا آکر آپس میں ملتے ہیں، بڑا دلکش منظر تھا۔ یہ مغربی جرمنی کا بارڈر بھی ہے، اس کے بعد جرمنی شروع ہوجاتا ہے۔
ٹرین 5 منٹ رک کر فرینکفرٹ چلی گئی۔ یہ شہر بھی قدیم ہے۔ یہاں بے حد چرچ ہیں جو بڑے قدیم، بڑے اونچے اور طویل ہیں، سیاح گھوم کر چرچ کا معائنہ کر رہے ہیں مگر عبادت کرنے والے کم ہی نظر آئے۔ ایک گلی میں تو کئی ایک چرچ موجود تھے۔ پھر ہم دریاؤں کو دیکھنے پل سے ہوتے ہوئے گئے۔ کیا دلکش منظر تھا دریاؤں کے ملاپ کا، کافی دیر تک دریاؤں کو ملتا ہوئے دیکھتے رہے، ان دریاؤں کے کنارے پر بڑے بڑے پب اور ریسٹورنٹ کی قطاریں تھیں، دریا میں جہاز چل رہے تھے، بعض لوگ گانے گاتے ہوئے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نظر آئیں۔ ہم بھی ایک اوپن ریسٹورنٹ میں بیٹھ گئے، کافی پی اور کچھ دم لیا۔ پھر بیچ شہر میں آگئے۔ وہی قدیم پتھروں کی بنی ہوئی مضبوط عمارتیں، شاپنگ پلازے جہاں دنیا بھر کی چیزیں دستیاب ہیں۔
بچوں کے کھلونوں سے لے کر بھاری الیکٹرانک مشینری، کراکری، فرنیچر، ملبوسات، گرم چمڑے کی جیکٹیں، سوئٹر، ہر ایک کی قیمت آویزاں ہے، لوگ مارکیٹوں میں گھوم رہے ہیں بے خوف و خطر۔ نہ کوئی بھکاری دکھائی دیا اور نہ غربت یا امارت نظر آئی، بس ہر شخص خوش نظر آرہا تھا اور اپنے کام میں مگن تھا، کئی گھنٹے گھومنے کے بعد شاپنگ مال کی مارکیٹ آئے، بریڈ (ڈبل روٹی)، مکھن، بسکٹ اور چاکلیٹ خریدی اور کھانا کھایا اور پھر واپس جانے کے لیے ریلوے اسٹیشن آگئے۔ ٹرین جرمنی سے آرہی تھی، کافی رش تھا۔ خیر اسٹیشن پر کئی پسنجر اتر گئے اور ہم ٹرین میں سوار ہوگئے۔ ٹرین کے ڈبے میں کچھ سیٹ ریزرو ہوتی ہیں، ان پر لائٹ جل رہی ہوتی ہے۔ ٹرین وقت پر آئی اور وقت پر چل پڑی، رات گئے گھر آگئے۔
اگلے دن لینز میں ہماری دعوت تھی، اقبال کے ایک دوست پٹیل اور اقبال کی بیگم کی دوست مسز پٹیل، یہ ہندوستان کے صوبے راجستھان سے تعلق رکھتے تھے، ان کے گھر شام کا کھانا تھا۔ راجستھانی کھانا۔ دال ماش بگھارے والی، پتلی پتلی چھوٹی چھوٹی پوری نما روٹیاں۔ دال مونگ، چاول، مچھلی، آلو کے کباب، بڑا لذیذ کھانا، بڑی گپ شپ رہی۔ انھوں نے کبھی پاکستان نہیں دیکھا تھا مگر ان کے علاقے کے لوگ کراچی میں بڑے آباد ہیں، خاص کر گودھرا کیمپ اور جمشید روڈ پر جس کا نام لے کر انھوں نے بتایا۔ بڑا پیار دیا، بڑی محبت سے باتیں کیں اور پھر رات 12 بجے گھر آگئے۔
دوسرے دن پھر دعوت تھی، کچھ انڈین اور پاکستانی مجھ سے ملنا چاہتے تھے اور اب ہمارے واپسی کے بھی چند دن یا 2 ہفتے رہ گئے تھے، ہم نے ویانا دوبارہ دیکھنا تھا اور پھر مشرقی یورپ چیکوسلواکیہ یا (چیک ریپبلک)۔ ساتھ ہی ہنگری اور پھر آخر ویسٹ جرمنی۔ دیوار برلن یعنی برلن شہر بھی جانا تھا۔ جہاں میرے دو ایک دوست بھی تھے۔ سوچا تھا کہ ڈنمارک جاؤں گا۔ جہاں میرے ایک اچھے دوست AR ناصر جو پیپلز پارٹی کے رہنما تھے اور ہائی جیکنگ جہاز کے سلسلے میں جلاوطن ہوکر UNO کے تحت ڈنمارک میں سیاسی پناہ کی بنیاد پر 1981 سے ڈنمارک میں آباد ہیں۔ اگلے دن ہم نے پھر لینز کی سیر کی۔ گورنرہاؤس دیکھا۔ جمعہ کی نماز ترکوں کی مسجد میں ادا کی پھر شام کو ایک دعوت کھائی اور رات گھر آگئے۔
اگلے دن ہم پھر بائی ٹرین ویانا آگئے جہاں اقبال کے بیٹے حارث کا گھر تھا، وہیں قریب ہی اقبال کی بیٹی اشاہ کا بھی گھر تھا۔ جنھوں نے ہماری دعوت رکھی ہوئی تھی۔ ہم ویانا شہر کی طرف آگئے۔ بڑی بڑی بلڈنگیں، عمارتیں، شاپنگ مال دیکھے، ویانا میں پاکستانی بھی آباد ہیں۔ وہاں سے ہم ایک بڑے پارک میں گئے۔ کچھ شاپنگ کی کافی پی اور پھر حارث کے اور اقبال کی بیٹی انیتا کے گھر کھانا کھایا۔ بڑی لذیذ مچھلی، بریانی، سبزی، گوشت فرائی اور سوئیٹ ڈش کھائی۔ رات کافی دیر گپ شپ لگی رہی۔ پاکستان اور کراچی کے حالات، پھر بچپن کی باتیں، سندھ مدرسہ کی باتیں، ریلوے کی باتیں، سیاست کی باتیں۔ رات ہوگئی تھی، سب اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے۔
اگلے دن صبح ناشتے کے بعد مارکیٹ سبزی لینے کے لیے آئے۔ یہاں مارکیٹ میں رومانیہ کے لوگ ایک عرصے سے یہ کاروبار کر رہے ہیں اور زور زور سے آواز لگا کر آلو، پیاز، مٹر، گوبھی، ٹماٹر سمیت پھل فروٹ فروخت کر رہے ہیں، یہ بھی گورے چٹے اور موٹے تگڑے نظر آتے ہیں اور بڑے ہنس مکھ، ہنستے ہوئے اپنی طرف گاہکوں کو متوجہ کرتے ہیں۔ ہم سبزی لے کر گھر آگئے اور پھر شہر کی طرف آئے۔ ویانا بھی بڑا خوبصورت ہے جیساکہ پہلے عرض کیا تھا کہ یہ آسٹریا کا کیپٹل ہے۔ بڑا شہر بھی ہے، ہر طرف لوگ ہی لوگ، ٹریفک رواں دواں ہے، بس اور ٹرام چل رہی ہے۔
ہمارے ساتھ اقبال کے سمدھی غنی صاحب بھی تھے انھوں نے ایک عرصہ ویانا میں پاکستانی سفارت خانہ میں سروس کی ہے، 40 سال سے ویانا میں ہیں، بڑے دلچسپ آدمی ہیں، وہ ہمیں سفارت خانے بھی لے گئے۔ پھر آسٹرین پارلیمنٹ بھی لے گئے، یہاں کرسمس کی تیاریاں بھی ہورہی تھیں۔ پھر آسٹریا کی سب سے بڑی یونیورسٹی دیکھی، جو ویانا میں موجود ہے۔ گورنر ہاؤس دیکھا، بعد میں UNO کے دفاتر دیکھے، جو تین عمارتوں میں قائم ہیں، جو دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلے ویانا میں بنائے گئے تھے پھر اقوام متحدہ آسٹریا سے امریکا منتقل ہوگیا تھا۔
ہمیں رات ویانا میں رکنا پڑا، ٹھنڈ بہت تھی، اگلے دن ایک بڑا ٹاور دیکھنے گئے جو 300 میٹر بلند تھا اوپر لفٹ کے ذریعے گئے۔ اوپر اتنی ہوا تھی کہ آدمی اڑ رہے تھے مگر اوپر جنگلہ لگا ہوا تھا جس کو ہاتھ سے پکڑ لیتے تھے، کوئی شخص ایک گھنٹہ وہاں کھڑا نہیں ہوسکتا تھا۔ بڑی بلند عمارت تھی اس کے نیچے ریوالونگ ریسٹورنٹ تھا کافی چائے پی اور واپس گھر آگئے۔