اندھے لوگوں کے دیس کا شاعر

وہ تمام عمر برسرِ مزاحمت رہا، فاقوں کی میراث چھوڑ کر جالب نے جب اس قوم سے کنارہ کیا تو اس کا ضمیر مطمئن تھا۔


اویس حفیظ March 24, 2015
جالب ہمارے سامنے نوحہ کرتا ہے کہ بیس روپے من آٹا اس پر بھی ہے سناٹا اور دوسری طرف ہم اِس نوحے کو سمجھنے کے بجائے نظموں کو لہک لہک کر گاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ارضِ پاک کے باسیوں کو مبارک ہو کہ آج استعارہ انقلاب، شاعرِعوام حبیب جالب کا جنم دن ہے۔ آج ایک اور دن آگیا کہ ہم اُس شاعر کی نظمیں گائیں، اس کی فکر پر بحث کریں اور پھر ایک سال کیلئے اس کی قبر کو تجاہل عارفاں کی مٹی سے ڈھک دیں۔ ہم اسی بات پر خوش ہیں کہ جالب ہم میں سے تھا اور مجھے امید ہے کہ جالب آج اِس بات پر خوش ہوگا کہ وہ ہم میں سے نہیں تھا۔

ہم اس کی شان میں قصیدے گاتے ہیں، اس کو عظیم شاعر کا خطاب دیتے ہیں، اس کی نظمیں لہک لہک کر گاتے ہیں مگر پیامِ درونِ کلام کو فراموش کردیتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ لفظ محض نظمیں اور غزلیں نہیں، یہ تو وہ نوحہ ہے کہ اہلیانِ وطن جس کے بجا طور پر حقدار ہیں۔ کسی زمانے میں جالب نے کہا
بیس روپے من آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا

مگر کہیں کوئی لرزہ تو دور ایک ارتعاش بھی برپا نہیں ہوا۔ قلمِ جالب سے پھر آواز آئی
تیس روپے من آٹا
اُس پر بھی ہے سناٹا

مگر اب کے بھی خاموشی کا راج برقرار رہا۔ ہمارے پڑوسی ملک میں پیاز کی قیمتیں حکومت کی مدت کا تعین کیا کرتی ہیں۔ اِدھر پیاز مہنگا ہوا اور اُدھر حکومت کو جان کے لالے پڑ گئے مگر ہمارے یہاں پر سانس پر بھی ٹیکس لگ جائے تو سسک سسک کر ہی بھلے، مگر یہ وقت بیتا دیں گے۔
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر

اب ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا اس کے بعد بھی جالب کو اس زمین پر رہنے کا کوئی حق تھا۔ وہ طنز نہیں کرتا تھا، وہ تو دل کی بھڑاس نکالتا تھا؎
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سو گئی
ہر امید کی کرن
ظلمتوں میں کھو گئی

شاعر وہی ہے جو قلم طرازیوں سے حقیقت کی منظر کشی کرے۔ جب لوگ ''ان کو کچل دو'' کا نعرہ لگا رہے تھے اور سرکاری ٹی وہ پر یہ اعلانات ہورہے تھے کہ ہم نے صورتحال حال پر قابو پالیا ہے، اس وقت جالب نے کہا تھا
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گما ں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

نتیجہ سب نے سانحہ 71ء کی صورت میں دیکھ لیا۔ ایوب خان، یحییٰ خان، بھٹو صاحب، ضیاء الحق غرض کوئی ایسا سول و ملٹری آمر نہیں تھا جس سے جالب کو بیر نہ ہو اور کیوں نہ جالب ان سے بیر رکھے کہ انتقالِ اقتدار تو ایک بہانہ تھا:
کہاں قاتل بدلتے ہیں فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں
کہاں تک دوستوں کی بے رخی کا ہم کریں ماتم
چلو اس بار بھی ہم ہی سر مقتل نکلتے ہیں

بے نور صبح کے ساتھ سمجھوتا ہم نے کیا، جالب نے نہیں، یہ تاریکی اسی لئے ہمارا مقدر بنی، جالب کا نہیں۔ جو انسان جس وقت کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرلے، وہی اُس کے نصیب میں لکھ دی جاتی ہے۔ جالب کا پیشہ مزاحمت تھا، وہ تمام عمر برسرِ مزاحمت رہا، فاقوں کی میراث چھوڑ کر جالب نے جب اس قوم سے کنارہ کیا تو اس کا ضمیر مطمئن تھا، کہ اس کے قلم کی روشنائی سے کسی محل میں چاندنی نہیں ہوئی، اس کی فکر رہن رکھنے کی کسی کو تاب نہ ہو سکی، اس کی سوچوں پر کسی کا پہرہ نہیں بیٹھ سکا اور جھوٹے مقدمات بھی اس کی منزل کھوٹی نہیں کر سکے۔
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے

مگر خیر چھوڑئیے، ارض پاک کے باسیوں کو مبارک ہو کہ آج استعارہ انقلاب، شاعرِعوام حبیب جالب کا جنم دن ہے۔ اسی جالب کا جنم دن جس نے ساری عمر غریبوں کے حقوق کی آواز بلند کی اور جابر حکمرانوں کے سامنے کلمۂ حق کہنے کا فریضہ سر انجام دیا۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں