قائداعظم کا پیارا رومال

جناب محمد سلیم بیگ کا ایک تعارف تو یہ ہے کہ وہ وزارتِ اطلاعات کے ایک سینئر افسر ہیں۔


Tanveer Qaisar Shahid March 25, 2015
[email protected]

جناب محمد سلیم بیگ کا ایک تعارف تو یہ ہے کہ وہ وزارتِ اطلاعات کے ایک سینئر افسر ہیں۔ دوسرا تعارف ان کا یہ ہے کہ وہ اسلام آباد کے اعلیٰ تعلیم یافتہ حلقوں اور کتاب سے گہری محبت رکھنے والوں میں نہایت عزت و احترام سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان سے میری جب بھی ملاقات ہوئی ہے، ہمیشہ انھیں کسی نئی اور تحقیقی کتاب پر دلکشا گفتگو کرتے ہوئے پایا ہے۔

گزشتہ دنوں مجھے سابق بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی بیٹی دامن سنگھ کی تحریر کردہ کتاب (STRICTLY PERSONAL) کی تلاش تھی تو سلیم بیگ صاحب مجھے اپنی سنگت میں ''سعید بُک بینک'' لے گئے جو وفاقی دارالحکومت ہی کا نہیں، غالباً ایشیا کا سب سے بڑا بُک سینٹر ہے۔

مطلوبہ کتاب مجھے وہاں مل گئی اور خرید بھی لی گئی کہ اچانک ہماری ملاقات سعید جان قریشی صاحب سے ہو گئی۔یہ تھے سعید جان قریشی صاحب' مذکورہ بُک بینک کے مالک۔ مَیں انھیں نہیں جانتا تھا لیکن سلیم بیگ صاحب ان سے شناسا تھے کہ وہ حرفِ مطبوعہ کو حرزِجاں بنائے رکھتے ہیں۔ سعید جان قریشی صاحب نے ہمیں محبت کے ساتھ اپنے کیبن میں مدعو کیا۔

قہوہ لانے کا کہہ دیا گیا تھا۔ اس دوران سعید جان قریشی صاحب گفتگو کرتے رہے۔ وہ ٹھہر ٹھہر کر باتیں کر رہے تھے۔ غالباً ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی لیکن اس سہ پہر وہ آمادئہ گفتگو تھے۔ باہر دن کے تیسرے پہر کی دھوپ کھِلی ہوئی تھی اور بھلی لگ رہی تھی کہ موسمِ سرما کا دامن سمٹ رہا تھا اور اسلام آباد میں موسمِ بہار اپنے دلفریب رنگ بس بکھیرنے ہی والا تھا۔

قریشی صاحب کی باتوں سے عیاں ہو رہا تھا کہ وہ اس منفرد اور قابلِ فخر اعزاز سے سرفراز ہیں کہ انھوں نے نہ صرف بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح علیہ رحمہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے بلکہ ان سے مصافحہ کرنے، ان کے پاس بیٹھنے اور ان کی شفقت و محبت سمیٹنے کی نعمتِ غیر مترقبہ سے بھی فیض یاب ہو چکے ہیں۔

ان سے ملنا واقعی تاریخ سے ملاقات کے مترادف تھا۔ وہ سندھ کے معروف علاقے ٹنڈو غلام علی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کی دلکش اور درست لہجے کی اردو سن کر معلوم ہوا کہ ان کے آبا و اجداد کا تعلق متحدہ ہندوستان کے اس خطے سے تھا جہاں اردو نے جنم لیا اور جس علاقے نے اردو کے متقدمین شعراء کرام کی پرورش کی۔ تقسیمِ ہند سے مگر بہت پہلے ان کا خاندان ہجرت کر کے ٹنڈو غلام علی میں بس گیا تھا۔

ہماری درخواست پر سعید جان قریشی صاحب نے قائداعظم علیہ رحمہ سے وابستہ یادوں کے کے بادبان کھولے۔ انھوں نے یاد کی تپش سے دمکتے اور مسکراتے چہرے کے ساتھ ہمیں بتایا: ''بندے علی خان تالپور صاحب سندھ کے ایک بہت بڑے زمین دار تھے۔ وہ تشکیلِ پاکستان سے قبل دو سال کے لیے وزیراعلیٰ سندھ بھی رہے۔ غالباً 1940-41ء میں۔ قائداعظم سے ان کی محبت دیدنی تھی۔

قائد کی خدمت کرنا اور ان کے ہر حکم کی بجا آوری میں بندے علی خان صاحب جان کی بازی لگانے اور اپنی جائیداد قربان کرنے والوں میں تھے۔ انھیں ہر وقت یہ فکر کھائے رکھتی تھی کہ قائداعظم آرام نہیں کرتے۔ مسلسل کام اور ہمہ جہتی دباؤنے ان کی صحت پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

قائد کو سکون پہنچانے اور چند دنوں کے لیے ہی سہی، انھیں آرام فراہم کرنے کی محبت میں بندے علی خان تالپور صاحب کئی بار قائداعظم کی خدمت میں گزارش کرچکے تھے کہ وہ ان کی وسیع جاگیر میں آ کر آرام فرمائیں لیکن حضرت قائداعظم ٹالتے رہتے تھے۔ واقعتاً وہ عدیم الفرصت سچے لیڈر تھے۔'' سعید جان قریشی صاحب کی گفتگو میں چند منٹ کے لیے خلل پڑا کہ ملازم قہوہ لے آیا تھا۔

چینی کی ایک ننھی سی پیالی، جس میں سفید شکر تھی، ہماری طرف بڑھاتے ہوئے انھوں نے دوبارہ گفتگو شروع کی: ''1945-46ء کے دنوں میں قائداعظم محمد علی جناح آخر کار ٹنڈو غلام علی تشریف لے ہی آئے۔ بندے علی خان کا محبت بھرا اصرار رنگ لے آیا تھا۔ ٹنڈوغلام علی میں بندے علی خان صاحب نے ایک خوبصورت اور وسیع عمارت تعمیر کروائی تھی جس کی طرزِ تعمیر بھی مغربی تھی اور سارا بیش قیمت فرنیچر بھی انگلستان سے منگوایا گیا تھا۔ وہ عمارت واقعتاً قائداعظم ایسے شاندار مدبر اور سیاستدان کی رہائش کے لیے موزوں ترین تھی۔ ایک دن قائداعظم نے ایک حیرت انگیز بات کہی۔

فرمایا، یہاں بچوں کی آوازیں سنائی نہیں دیتیں۔ بندے علی خان رمز شناس تھے۔ فوراً سمجھ گئے قائداعظم کیا چاہ رہے ہیں۔ انھیں بچوں کی کلکاریاں مطلوب تھیں۔'' سعید جان قریشی صاحب نے آنکھوں میں تیرتی نمی کے ساتھ بتایا: ''بندے علی خان صاحب کے ہمارے خاندان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ دوسرے روز وہ ہمارے گھر آئے اور والد صاحب سے کہا کہ اپنے دونوں بچے میرے ساتھ مینشن بھجوائیے۔ اسی طرح دو تین کمسن بچے اور بھی لائے گئے۔ گھر والوں نے مجھے اور میری ننھی ہمشیرہ (اختر) کو نئے اور دیدہ زیب لباس پہنائے اور ہم بندے علی صاحب کے وسیع و عریض بنگلے میں پہنچ گئے اور کھیلنے لگے۔

قائداعظم وہاں ایک نسبتاً بلند چبوترے، جس کے ارد گرد انتہائی سبز اور پھولوں سے لدا وسیع لان تھا، پر قائداعظم تشریف فرما تھے۔ صبح صبح کراچی سے تمام انگریزی اخبارات منگوائے گئے تھے۔ وہ ان کا مطالعہ کرتے اور کبھی کبھار ہماری طرف مسکراتے ہوئے دیکھتے اور خاموش رہتے۔ بندے صاحب نے ہمارے کھانے پینے، چاکلیٹوں اور ٹافیوں کا زبردست انتظام کیا تھا اور جدید کھلونوں کا بھی۔'' انھوں نے کہا: ''ایک روز ہم سب بچے وہاں کھیل رہے تھے اور قائداعظم وہیں تشریف تھے۔ بالکل خاموش۔ حویلی کی بلند و بالا چاردیواری کے ہر طرف مسلح محافظ موجود تھے۔

اچانک میری چھوٹی بہن باغ کے ایک کونے میں پھسلی اور دھڑام سے گر پڑی۔ وہ درد سے چیخنے لگی تو قائداعظم پریشان ہو کر بھاگتے آئے۔ انھوں نے اپنے صاف ستھرے لباس کی بھی پروا نہ کی اور میری ننھی ہمشیرہ کو گود میں اٹھا لیا۔ قائد اعظم نے اپنا رومال نکالا اور ننھی بچی کا گارے سے لت پَت چہرہ اور فراک صاف کرنے لگے۔ وہ خاموش ہوئی تو قائداعظم بھی مطمئن ہوکر اپنے صوفے پر جا بیٹھے لیکن ان کا رومال میری ہمشیرہ کے ہاتھ ہی میں رہ گیا۔''

سعید جان قریشی نے بتایا کہ حضرت قائداعظم علیہ رحمہ کا وہ پیارا اور یادگار رومال ہمارے خاندان کی سب سے قیمتی متاع بن گیا۔ قریشی صاحب کی والدہ محترمہ نے اسے صاف کرکے اور خوشبوؤں میں بسا کر محفوظ کر لیا تھا۔

''کئی برس وہ ہمارے پاس رہا۔'' قریشی صاحب بولے: ''قائداعظم کے یومِ پیدائش، یومِ وفات اور 23 مارچ کے یومِ پاکستان کے مواقع پر ہماری والدہ صاحبہ وہ مقدس رومال چاؤ سے باہر نکالتیں اور ہم سب قائداعظم کی محبتوں، خصوصاً بچوں سے ان کی شفقتوں کو یاد کرتے۔ والدہ کی رحلت کے بعد پھر نہ جانے وہ رومال کدھر گم ہو گیا۔ اس کا ہمارے خاندان کو بہت قلق ہے۔'' سعید جان قریشی صاحب نے ہمیں اور بھی بہت سی ارمغان صفت باتیں سنائیں لیکن ان کا ذکر پھر کبھی سہی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں