ماضی سے لپٹے لوگ
ہم ماضی سے جتنا دور جاتے چلے جائیں گے اور جتنی تبدیلی لائیں گے، اتنا ہی معاشرہ خراب سے خراب تر ہوتا چلا جائے گا۔
DUBAI:
کہا گیا کہ پاکستان بنتے ہی ناانصافی، جبر، ظلم اور بدحالی کا دور ختم ہو جائے گا اور نئے دور میں انصاف، خوشحالی اور سچائی کی حکمرانی ہو جائے گی، امیدوں کے نئے چراغ روشن ہو گئے، لیکن چیزیں کتنی جلدی تبدیل ہو جاتی ہیں۔
پاکستان بننے کے بعد وہ منظر تشکیل نہ پا سکا جس کی توقع کی جا رہی تھی بلکہ اس کے برعکس قومی، نسلی، مذہبی اور سیاسی تنازعات نے نئی صف بندیاں کر لیں۔
نسل کشی، وحشت، بربریت، ناانصافی اور بدحالی کے نئے مناظر دیکھنے میں آئے، ایسے ایسے اقتصادی بحران ابھرے جنھوں نے ملکی استحکام خطرے میں ڈال دیا۔ یہ سب کچھ اس سطح اور شدت سے تھا جس کا کبھی تصور بھی نہیں تھا اور امیر و غریب، روشن خیال و قدامت پسند، لبرل اور بنیاد پرستوں کے درمیان کی تفریق وقت کے ساتھ گہری سے گہری ہوتی چلی گئی اور ہم سب خرابیوں، برائیوں میں اضافہ کرنے کے لیے اپنا اپنا حصہ ڈالتے رہے۔
جس نے اس پر اپنی آواز بلند کرنے کی کوشش کی تو ہم سب نے مل کر اس آواز کا گلا گھونٹ دیا۔ ہم سب ان خرابیوں، برائیوں سے بے نیاز ہو کر اپنی اپنی زندگیوں میں ایسے مست ہوئے کہ ہمیں اپنا ہوش نہ رہا۔
نکولائی لوسکی تمام انسانی قبیلوں اور نسلوں کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ وہ جماعت جو تخلیقی افراد پر مشتمل ہوتی ہے یہ اپنی صلاحیت اور ذہانت سے تمدن کو ترقی پذیر بناتے ہیں۔ دوسری جماعت ان لوگوں پر تشکیل پاتی ہے جنھوں نے معاشرے میں منفی کردار ادا کیا اور دنیا میں تباہی و بربادی لائے۔ تیسری جماعت میں وہ لوگ آتے ہیں۔
جنھوں نے نہ تو تمدن میں کوئی مقام حاصل کیا اور نہ ہی تباہی و بربادی میں کوئی حصہ لیا، اس جماعت کے لوگوں نے تاریخ میں نہ تو منفی کردار ادا کیا اور نہ مثبت، لیکن یہ لوگ دوسری مثبت و منفی طاقتوں کے ذریعے استعمال میں لائے گئے اور ان کی ہدایت و رہنمائی میں انھوں نے تاریخ میں کردار ادا کیا۔
ہمیں اپنی ملکی تاریخ میں پہلی جماعت کا تو کوئی وجود نہیں ملتا، ہم ایسے بانجھ اور بنجر واقع ہوئے جہاں تخلیقی افراد کا جنم ہی نہ ہو سکا لیکن ہاں دوسری جماعت کے لوگ ہم کو اپنی تاریخ میں ڈھونڈے بغیر باآسانی دستیاب ہو جاتے ہیں، ان کے لیے ہماری زمین اتنی زرخیز واقع ہوئی کہ ایک پر ایک مفت ملا اور آج تک مسلسل نصیب ہو رہے ہیں اور باقی رہ گئی تیسری جماعت یعنی ہم سب 18 کروڑ جنھوں نے کوئی بھی مثبت کردار ادا نہیں کیا، ہم سب صرف منفی قوتوں کے آلہ کار بنے رہے اور آج تک آلہ کار کا کردار بخوبی ادا کر رہے ہیں۔ ہم یہ کردار ادا کرنے میں مہارت حاصل کر چکے ہیں۔
اس وقت اپنے آپ کو پیٹنے کا دل کرتا ہے جب یہ سننے کو ملتا ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں۔ بے شرمی کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ اگر آپ ان سب حضرات سے فرداً فرداً یہ سوال پوچھ کر دیکھ لیں کہ آپ نے کیوں اپنے لیے یہ اذیت بھری زندگی پسند کر رکھی ہے، کیوں آپ سسک سسک کر تڑپ تڑپ کر زندگی گزار رہے ہیں، آپ ان زنجیروں کو جن میں آپ جکڑے ہوئے ہیں توڑ کیوں نہیں دیتے اور اپنے لیے دنیا کے باقی لوگوں کی طرح آزادی، ترقی اور خوشحالی کیوں نہیں حاصل کر لیتے، آخر آپ کب تک ان منفی قوتوں کے آلہ کار بنتے رہیں گے؟ تو ان کے پاس آپ کے اس سوال کا کوئی جواب نہ ہو گا، آپ کے اس سوال پر ان پر خاموشی کا دورہ طاری ہو جائے گا۔
ہاں لیکن اگر آپ ان سے ان کے آبائو اجداد کے ماضی کے بارے میں کوئی سوال پوچھ لیں تو وہ بغیر وقفہ دیے گھنٹوں اپنے آبائو اجداد کے قصے دمکتے چہرے کے ساتھ سنانے میں مصروف ہو جائیں گے اور زمین و آسمان ایک کر کے ہی دم لیں گے۔ آہ وہ اور ان کے آبائو اجداد کا شاندار ماضی۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم ماضی کے مزاروں کے متولی بن کے رہ گئے ہیں، حال اور مستقبل سے بے نیاز، بے پرواہ، ماضی سے چمٹ گئے ہیں۔ کیا ہم ذہنی طور پر دیوالیہ نہیں ہو چکے ہیں۔ ماضی سے چمٹے رہنے کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان حال کے مسائل اور ان کے حل سے ناواقفیت کی وجہ سے گھبرا کر ماضی میں پناہ حاصل کر لیتا ہے، کیونکہ وہاں ناواقفیت اور سیاہ اندھیرے نے ہر شے کو چھپا رکھا ہوتا ہے۔
اس لیے ماضی کی تمام برائیاں، خرابیاں اور مسائل نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں، وہ تسکین اور سکون حاصل کرنے کے لیے ماضی کی آغوش میں پناہ حاصل کر لیتا ہے۔یاد رہے قدامت پسند اور رجعت و بنیاد پرست لوگوں میں شعور کو روکنے کے لیے کئی حربے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ماضی کی شان و شوکت کو بار بار بیان کر کے حال کی ترقی اور عمل کو روکا جائے اور دوسرا یہ کہ یہ بات لوگوں کے ذہنوں میں ٹھونسی جائے کہ ماضی میں مثالی معاشرہ قائم تھا۔
ہم ماضی سے جتنا دور جاتے چلے جائیں گے اور جتنی تبدیلی لائیں گے، اتنا ہی معاشرہ خراب سے خراب تر ہوتا چلا جائے گا۔ ذرا ذہن میں رہے کہ تبدیلی کے سامنے دیوار بننے والوں کی اولاد، ان کے عزیز سب تبدیل شدہ ممالک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں جا کر بس گئے ہیں اور اپنی زندگیاں چین و سکون سے بسر کر رہے ہیں۔
اور دوسری طرف وہ اپنے مفادات و مقاصد کی خاطر ہمیں ساری ترقی، آزادی، خوشحالی سے کوسوں دور رکھنے پر بضد ہیں۔ اس زندگی کو عارضی قرار دینے کی رٹ لگائے ہوئے ہیں اور بضد ہیں کہ ہم ساری غلامی، بدحالی کو منجانب اللہ سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ چین و سکون کی زندگی گزاریں۔
اگر آپ اس میں خوش اور مطمئن ہیں تو آپ اپنی زندگی اسی طرح گزارتے رہیں، کوئی بھی آپ کو نہ روکے گا اور نہ ٹوکے گا، لیکن اگر آپ اپنی زندگی سے تمام عذابوں کو اٹھا کر پھینک دینا چاہتے ہیں تو پھر آپ ماضی کے بجائے حال میں رہنے کی شروعات آج ہی سے کر دیں اور ماضی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کر لیں، پھر آپ دیکھیں گے کہ کس طرح آپ کا حال سنور جاتا ہے اور کس طرح آپ کا مستقبل تابناک ہو جاتا ہے۔